Search
Sections
< All Topics
Print

(ii) QABRON KO OUNCHI KARNA [Elevating Graves]

(2): قبروں کو اونچی کرنا ان پر عمارت تعمیر کرنا، انہیں سجدہ گاہ بنانا اور مجسمے اور تصویریں نصب کرنا؛


ان امور کا ذکر بہت ساری احادیث میں آیا ہے میں ذیل میں سے انہیں مختصر ذکر کرتا ہوں

صحیح مسلم وغیرہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا۔


“امرني رسول الله صلى الله عليه وسلم الله ان لا ادع قبرا مشر فا الا سويته ولا ثمنالا الا طمسته.

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ میں کوئی اونچی قبر نہ چھوڑو ں مگر اسے زمین سے برابر کر دوں، اور کوئی مجسمہ نہ چھوڑ ں مگر اسے مٹا دوں ۔

(مسلم حدیث نمبر 967)


ابن ابی عاصم نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے کہ معاویہ رضی اللہ انہوں نے کہا۔


“تسوية القبور القبور من السنن وقد رفعت اليهود والنصارى فلا تشبهوا بهم”

.قبروں کو زمین سے برابر رکھنا سنت ہے یہود و نصاریٰ نے قبروں کو اونچا کیا لہذا تم ان کی مشابھت اختیار نہ کرو۔

(اقتضاء الصراط المستقیم1 /342 )


قبروں پر عمارت تعمیر کرنا نا یا ان کو اونچی کرنا اس دور کی ایک بڑی مصیبت ہے جس میں دنیا کے مختلف خطوں میں مسلمان مبتلا ہیں جس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی تصدیق ہوتی ہے؛


“لتركين سنن من كان قبلكم.”

تم لوگ ضرور بالضرور اپنے سے پہلے لوگوں کے راستے پر چلو گے۔


انبیاء کے قبروں کو عبادت گاہ بنانا یعنی ان پر عمارت تعمیر کرنا مسجد بنانا اور نماز پڑھنا اسی حکم میں داخل ہیں ہے اسی طرح نیک لوگوں کی قبروں پر عمارت تعمیر کرنا۔یا مسجدوں میں نیک لوگوں کو دفن کرناخواہ وہ دفن مسجد کی تعمیر کے بعد ہی ہو۔

ممانعت ان تمام امور کو شامل ہے۔ نیز قبروں کے پاس دعا کرنے کے لئے بار بار آنا جانا یا اللہ کے سوا قبر والوں کو پکارنا یا نیکی کے کاموں کے ذریعہ ان کا تقرب چاہنا، یہ سب کچھ یہودونصاری کے افعال میں سے ہے اور نبی ﷺ نے ان سے بچنے کی انتہائی تختی کے ساتھ تاکید کی ہے۔ صحیح مسلم میں ہے کہ نبی ﷺ نے اپنے انتقال سے پانچ روز پہلے فرمایا: 


انـي أبـرأ الى الله أن يكون لي منكم خليلا فان الله قد اتخذني خليلا كـمـا اتخذ ابراهيم خليلا و لو كنت متخذا من أمتي خليلا لاتخذت أبا بكر خليلا ألا و أن من كان قبلكم كانوا يتخذون قبور انبیاء هم مساجد ألا فلا تتخذوا
القبور مساجد فاني أنهاكم عن ذلك“

میں اللہ کے حضور اس بات سے اعلان براءت کرتا ہوں کہ تم میں سے کوئی میرا خلیل ہو، اس لئے کہ اللہ نے مجھے اپناخلیل بنالیا ہے اور اگر میں اپنی امت میں سے کسی کو اپنا خلیل بناتا تو ابوبکر کو بناتا ،آ گاہ رہو کہ تم سے پہلے جو قو میں گزری ہیں وہ اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیتی تھیں ،خبر دار! تم قبروں کو سجدے کی جگہ نہ بنانا میں تمھیں ایسا کرنے سے روکتا ہوں ۔

( مسلم حدیث نمبر۵۳۲)

 

صحیح بخاری ومسلم میں ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ۳۷

“قاتل الله اليهود اتخذوا قبور انبياء هم مساجد“

مہبود پر اللہ کی لعنت ہو کہ انھوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا۔

( بخاری مع فتح الباری حدیث ۴۳۷ )

 

اور صحیح مسلم کے الفاظ یوں ہیں:

“لعن الله اليهود و النصارى اتخذوا قبور انبیاء هم مساجد“

یہود و نصاری پر اللہ کی لعنت ہو کہ انہوں نے اپنے انبیاء دنیا کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا یا.

مسلم حدیث نمبر ( 530)

 


عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں.

“لما ننزل برسول الله صلى الله عليه وسلم اي مرض موته طفق بطرح خميصة على وجهه فاذا اغتم بها كشفهاو قال و هو كذلك: لعنة الله على اليهود والنصارى اتجلوا قبور انبياءهم مساجد يحذر ما صنعوا.”

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مرض الموت کے عالم میں تھے تھے تو چادر بار بار اپنے چہرے پر ڈالتے اور جب اس سے سانس گھٹنے لگتی تو ہٹا دیتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی حال میں فرمایا یہود و نصاریٰ پر اللہ کی لعنت ہو انھوں نے اپنے انبیاء کی قبروں پر مساجد بنا لیئے۔ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کہتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو اس قسم کے شرکیہ اعمال سے ڈرانا چاہتے تھے ۔

(بخاری مع فتح الباری 436,435 مسلم 531 )

 

ام حبیبہ اور ام سلمی رضی اللہ عنہ کے قصے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے جو انہوں نے:


ام حبیبہ رضی اللہ عنہ ان کا نام رملہ بنت ابوسفیان بن حرب تھا۔ انہوں نے اپنے شوہرعبد اللہ بن جحش الاسدی کے ساتھ حبشہ کی جانب ہجرت کی لیکن جب انکے شوہر نے نصرانیت اس نے اختیار کرتے ہوئے انہیں اپنی زوجیت سے جدا کر دیا تو، سن 7ھجری میں ان کی شادی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوئی اس طرح وہ ازواج مطہرات میں سے تھیں۔
*ام سلمہ رضی اللہ عنہ ان کا نام نام ہند بنت ابو امیہ تھا انہوں نے اپنے شوہر ابو سلمہ کے ساتھ حبشہ کی جانب ہجرت کی لیکن جب ان کے شوہر کا وہ غزوہ احد میں لگے زخم کے سبب انتقال ہو گیا تو شوال سن 4 ہجری میں ان کی شادی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوئی۔( از مترجم۔)

 

سرزمینِ حبشہ میں ایک گرجا گھر اس کی خوبصورتی اور اس میں موجود تصویروں کو دیکھا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بات سن کر فرمایا :


“اؤلءك القوم اذا مات العبد صالح او الرجل الصالح بنواعلى قبره مسجدا وصوروا فيه تلك الصوره شرار الخلق عند الله عز وجل. “


جب انکا کوئی نیک آدمی مرجاتا تو اسکی قبر پر مسجد بنا دیتے اور اس میں یہ تصویر یں بنا کر رکھ لیتے، وہ اللہ کے نزدیک بد ترین مخلوق ہیں۔


(بخاری مع فتح الباری426,مسلم528)

 

یہ نہایت خطرناک امور ہیں جن میں آج مسلمان ملوث ہیں۔

Table of Contents