Search
Sections
< All Topics
Print

01. Surah Al-Fatihah

سورة الفاتحہ کا خلاصہ

سورة الفاتحہ کی فضیلت

سورة الفاتحہ پہلی سورت ہے جو مکمل نازل ہوئی، اور مکہ مکرمہ میں نبوت کے ابتدائی اور دعوت کے خفیہ دور میں نازل ہوئی ۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا أُنْزِلَتْ فِي التَّوْرَاةِ وَلَا فِي الْإِنْجِيلِ وَلَا فِي الزَّبُورِ وَلَا فِي الْفُرْقَانِ مِثْلُهَا

اللہ کی قسم! اس جیسی سورت تورات میں نازل ہوئی، نہ انجیل میں نہ زبور میں اور نہ ہی فرقان میں۔

صحیح سنن الترمذی:2875

ایک حدیث میں اسے ام القرآن کا لقب دیا گیا ہے۔

أُمُّ الْقُرْآنِ هِيَ السَّبْعُ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنُ الْعَظِيمُ

صحيح البخاری:4704

اسے سورة شفا بھی کہا جاتا ہے۔ کسی بھی بیماری میں یہ پڑھ کر دم کیا جائے تو ضرور شفا ہوگی۔

اسے سورة دعا بھی کہتے ہیں، کیونکہ یہ پڑھ کر جو دعا کی جائے قبول ہوتی ہے۔ ایک فرشتے نے آ کر کہا

اللہ کے نبی آپ کو دو نور مبارک ہوں: اور وہ سورة فاتحہ اور سورۃ البقرۃ ہیں۔

صحیح مسلم: 904

دنیا کا سب سے چھوٹا عمل جو ثواب میں سب سے بڑھ کر ہے۔

نبی کر یم ﷺ نے فرمایا:

إِذَا أَمَّنَ الإِمَامُ، فَأَمِّنُوا، فَإِنَّهُ مَنْ وَافَقَ تَأْمِينُهُ تَأْمِينَ المَلاَئِكَةِ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ

جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو، کیونکہ جس کی آمین فرشتوں کی آمین کے موافق ہوگئی، اس کے سابقہ گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔

صحيح البخاری: 780

قرآن مجید پڑھنے والے جانتے ہیں کہ پہلا پارہ سورة فاتحہ کے بعد سورة البقرۃ سے شروع ہوتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ سورة فاتحہ دراصل قرآن مجید کا مقدمہ یا خلاصہ ہے جس میں قرآن مجید کے تمام مضامین کو اختصار کے ساتھ بیان کر دیا گیا ہے اور اس سے بھی درست بات یہ ہے کہ سورہ فاتحہ بندے کی طرف سے اللہ کے حضور میں دعا ہے۔ جس میں انسان اپنے رب کے حضور عرض کرتا ہے : اهدنا الصراط مستقیم صراط۔۔۔ ہمیں سیدھا راستہ دکھا، ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام کیا ، نہ کہ جن پر تیرا غضب نازل ہوا اور نہ وہ جو گمراہ ہوئے یعنی بندہ اپنے رب سے سیدھا راستہ مانگ رہا ہے ۔ جو انسان کو اس کے مالک تک پہنچا دے، اور جس پر چلنے والوں پر الله تعالی خوش ہوتا ہے اور انھیں اپنے انعامات سے نوازتا ہے، اس کے علاوہ انسان ان لوگوں کے راستے اور طریقے سے اللہ کی پناہ مانگتا ہے جو گمراہ ہوئے، جو اپنی سرکشیوں کی وجہ سے اللہ کے غضب کے مستحق قرار پائے اور میں دنیا میں ہی اللہ کے عذاب کا شکار ہوئے ۔ الله تعالی نے اپنے بندے کی یہ دعا قبول کرتے ہوئے اسے قرآن کی صورت میں راہ ہدایت دی ، دعا قبول کرتے ہوئے

اللہ نے ارشادفرمایا:

ذٰلِکَ  الۡکِتٰبُ لَا رَیۡبَ   ۚ ۖ ۛ فِیۡہ ِۚ ۛ ہُدًی  لِّلۡمُتَّقِیۡنَ

یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں، پرہیزگاروں کے لیے ہدایت ہے۔

مزید انسان نے جن لوگوں کے راستے سے اللہ کی پناہ مانگی تھی ان کی تفصیل بیان کی تاکہ انسان ان کی روش پر چلنے سے بچ سکے ۔ سورۃ البقرہ میں یہود کی کارستانیاں بیان کیں، جو مغضوب علیھم ہیں اور اگلی سورة آل عمران میں عیسائیوں کا تفصیل سے تذکرہ کیا ، جو الضالین یعنی گمراہ ہوئے ۔ چونکہ انسان صراط مستقیم

پراسی صورت چل سکتا ہے جب وہ غلط راستوں سے اجتناب کرتا ہے اس لئے مغضوب علیهم اور الضالین کے راستوں کی وضاحت کے بعد سورة النساء میں صراط الذین انعمت علیھم کی تفصیل بیان کی ، فرمایا:

وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَٰئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ ۚ وَحَسُنَ أُولَٰئِكَ رَفِيقًا

(النساء:69)

اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کا فرمانبردار ہوں تو ایسے لوگ ان کے ساتھ ہوں گے جن پر الله تعالی نے انعام کیا جونبیوں ، صدیقوں، شہیدوں اور صالحوں میں سے ہیں، اور یہ رفیق کیسے اچھے ہیں۔

یعنی جوشخص صراط مستقیم پر چلنا چاہتا ہے تو وہ یہود و نصاری کے طریقے پر چلنے سے پرہیز کر کے انبیاء صدیقین، شہداء اور اولیاء کے راستے پر چلنے کی کوشش کرے تو یقینا وہ صراط مستقیم پالے گا۔

Table of Contents