Search
Sections
< All Topics
Print

02. Surah Al-Baqarah

سورة البقرة کا خلاصہ

سورة البقرة کی فضیلت

نبی کریم ﷺ نے ارشاد فر مایا

انَّ الشَّیْطَانَ یَنْفِرُ مِنَ الْبَیْتِ الَّذِی تُقْرَأُ فیہِ سُورَۃُ الْبَقَرَۃِ

یقینا شیطان اس گھر سے بھاگتا ہے جس میں سورۃ البقرۃ کی تلاوت کی جائے ۔

صحیح مسلم: 212

علمائے کرام فرماتے ہیں کہ اس سورت میں ایک ہزار خبر، ایک ہزار احکام، ایک ممنوع چیزوں کا تذکرہ موجود ہے. ہزارحرام اور   

تفسیر ابن کثیر

زمانہ نزول: یہ سورت حجرت مدینہ کے فورا بعد مدینہ میں نازل ہوئی۔

مرکزی مضمون : سورت کا جتنا حصہ پہلے پارے میں بیان ہوا ہے اس میں دو باتیں بیان ہوئی ہیں

مقدمہ: جس میں صراط مستقیم پر چلے والوں کے اعتبار سے انسانوں کی تین قسمیں بیان کی گئی ہیں

مومنین

 کافرین

 منافقین۔

مومنین کی صفات بیان کرتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا

الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡغَیۡبِ وَ یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ وَ  مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ  یُنۡفِقُوۡنَ

وَ الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِمَاۤ  اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ مِنۡ قَبۡلِکَ ۚ وَ بِالۡاٰخِرَۃِ ہُمۡ یُوۡقِنُوۡنَ

اُولٰٓئِکَ عَلٰی ہُدًی مِّنۡ رَّبِّہِمۡ ٭ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ  الۡمُفۡلِحُوۡنَ

(سورة البقرة : 5/3)

وہ جو بن دیکھے ایمان لاتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ اور جو ایمان لاتے ہیں اس پر جو اتارا گیا آپ پر اور جو اس سے پہلے اتارا گیا اور آخرت پر بھی وہ یقین رکھتے ہیں ۔ وہی لوگ اپنے رب کی طرف سے راستے پر ہیں اور وہی نجات پانے والے ہیں۔

کافروں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا

خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ وَ عَلٰی سَمۡعِہِمۡ ؕ  وَ عَلٰۤی اَبۡصَارِہِمۡ غِشَاوَۃٌ  ۫ وَّ لَہُمۡ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ (سورة البقرة:7)

اللہ تعالی نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہرلگادی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ ہے اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔

یعنی کافر وہ ہیں جو حق کو  سنے اور دیکھ لینے کے بعد بھی ماننے سے انکاری ہیں اور انہوں نے اپنی آنکھ کان اور دل کوحق سے بند کر رکھا ہے۔ لہذا وہ کیونکر ہدایت پاسکتے ہیں۔

اور منافقوں کے بارے میں فرمایا

وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّقُوۡلُ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَ بِالۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ مَا ہُمۡ بِمُؤۡمِنِیۡنَ

یُخٰدِعُوۡنَ اللّٰہَ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ۚ وَ مَا یَخۡدَعُوۡنَ  اِلَّاۤ  اَنۡفُسَہُمۡ وَ مَا یَشۡعُرُوۡنَ

  ( سورة البقرة : 9/8)

اور لوگوں میں سے کچھ وہ ہیں جو کہتے ہیں ہم اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لائے ، حالانکہ وہ ہرگز مؤمن نہیں ۔ اللہ سے دھوکا بازی کرتے ہیں اور ان لوگوں سے جو ایمان لائے ، حالانکہ وہ اپنی جانوں کےسوا کسی کو دھوکا نہیں دے رہے اور وہ شعور نہیں رکھتے۔

منافق دراصل مفاد پرست لوگ ہوتے ہیں، انہیں حق یا جھوٹ سے کوئی تعلق نہیں    

مفاد یکھتے ہیںہوتا وہ محض دنیاوی

 انہیں جہاں بھی اپنا مفاد پورا ہوتا ہوا دکھائی دے وہ وہاں چل پڑتے

ہیں۔ اللہ تعالی نےان کے متعلق فرمایا

إِنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ وَلَن تَجِدَ لَهُمْ نَصِيرًا

 (سورة النساء : 145)

یقینا منافقین جہنم کے سب سے نیچے گھڑے میں ہوں گے۔

انسانوں کی اس قسم کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ ہدایت چاہتے ہیں تو آپ کو مومنین والی صفات اپنانا ہوں گی ، اور کافروں اور منافقوں کی کرتوتوں سے پرہیز کرنا ہوگا۔

اس کے بعد اللہ تعالی نے تمام انسانوں کو مخاطب کر کے اپنی عبادت کرنے کا حکم دیا، جو انسان کی پیدائش کا مقصد ہے اور شرک سے منع فرمایا

 یاأَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ فِرَاشًا وَالسَّمَاءَ بِنَاءً وَأَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَّكُمْ ۖ فَلَا تَجْعَلُوا لِلَّهِ أَندَادًا وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ

 (سورة البقرة : 1 22/2)

اے لوگو! اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں پیدا کیا اور ان لوگو کو بھی جو تم سے پہلے تھے تا کہ تم بچ جاؤ – جس نے تمہارے لیے زمین کو بچھونا اور آسمان کو چھت بنایا اور آسمان سے پانی اتارا، پھر اس کے ساتھ کئی طرح کے پھل تمہاری روزی کے لیے پیدا کیے ، سو اللہ کے لیے کسی قسم کے شریک نہ بناؤ، جب کہ تم جانتے بھی ہو۔

انسان سے پہلے زمین کی حکومت جنوں کے پاس تھی، جب انہوں نے سرکشی اور بغاوت کی انتہا کر دی تو الله تعالی نے انسان کو پیدا کیا اور زمین کی حکومت چھین کر انسان کو خلیفہ فی الارض بنادیا۔ پھر الله تعالى نے فرشتوں اور جنوں کے سردار ابلیس کو حکم دیا کہ وہ آدم علیہ السلام کو سجدہ کریں ،سب نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے اپنے تکبر اور انسان کے مقام ومرتبہ سے حسد کے سبب آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے سے انکار کردیا تو اللہ تعالی نے اسے اپنے دربار سے

دھتکار

 دیا۔

جب اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کی تربیت کے لیے انہیں چند دن کے لیے جنت میں رکھا تو بلیس نے آدم علیہ السلام اور ان کی بیوی سیدہ حوا علیھا السلام کو بہکا کر الله کی نافرمانی پر آمادہ کرلیا

وقُلْنَا يَا آدَمُ اسْكُنْ أَنتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَكُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَيْثُ شِئْتُمَا وَلَا تَقْرَبَا هَٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِينَ

(سورة البقرة : 35)

اور ہم نے کہا اے آدم ! تو اور تیری بیوی جنت میں رہو اور دونوں اس میں سے کھلا کھاو جہاں سے چاہو اور تم دونوں اس درخت کے قریب نہ جانا ورنہ تم دونوں ظالموں سے ہو جاؤ گے۔

آج بھی شیطان کے بہکانے کا انداز یہی ہے۔ دیکھیں دنیا میں اللہ تعالی نے ہے شمار نعمتیں انسان کے لیے پیدا کی ہیں، سب حلال ہیں، چند ایک حرام قرار دی گئی ہیں لیکن شیطان کے بہکاوے میں آنے والے لوگ آج بھی حلال کو چھوڑ کر حرام کا ارتکاب کرتے ہیں، اسی لیے الله تعالی نے آدم علیہ السلام کو زمین پربھجتے ہوئے بطور نصیحت فرمایا

قُلْنَا اهْبِطُوا مِنْهَا جَمِيعًا ۖ فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُم مِّنِّي هُدًى فَمَن تَبِعَ هُدَايَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ

 (البقرة:39,38)

ہم نے کہا سب کے سب اس سے اتر جاؤ، پھر اگر پھر کبھی تمہارے پاس میری طرف سے واقعی کوئی ہدایت آجائے تو جو میری ہدایت کی پیروی کرے گا سوان پر کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین  ہوں گے۔ اور جنہوں نے کفر کیا اور ہماری آیات کو جھٹلایا یا یہ لوگ آگ والے ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔

یاد رکھیں ! حلال چیزیں انسان کے لیے مفید ہیں اور حرام کردہ چیزیں اسی لیے حرام قرار دی گئی ہیں کہ وہ انسان کے لیے نقصان دہ تھیں ۔ لہذا ہمیں حلال چیزیں استعمال کرنی چاہئیں اور حرام سے اجتناب کرنا چاہیے۔

الله تعالی نے ہر زمانے اور وقت میں ایک قوم کو

ممتاز

 کیا اور عملا اسے خلافت عطاء کی، جب وہ دین کا راستہ چھوڑ دیتی تب اللہ تعالی اسے ہلاک کر کے یہ منصب اگلی قوم کے سپرد کر دیتا۔ بلآ خر سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی اولاد کو یہ منصب عطاء کیا گیا، پہلے آپ کے بیٹے اسحاق علیہ السلام کی اولاد بنی اسرائیل کو یہ منصب عطا کیا انہیں نبوت بھی دی اور حکومت بھی لیکن جب انہوں نے فرمانبرداری کی بجائے نافرمانیوں کی حد کر دی تب اللہ تعالی نے یہ منصب سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے دوسرے بیٹے سیدنا اسماعیل علیہ السلام کی اولادیعنی جناب محمد ﷺ اور آپ کی امت کو عطا فرمائی ۔ پہلے پارے کے آخر تک یہی روداد بیان کی گئی ہے۔ اللہ تعالی نے بنی اسرائیل پر بے پناہ انعامات کی بارش کی ، انھیں بے شمار مادی اور روحانی نعمتوں سے سرفراز کیا لیکن ان کی طرف سے ہمیشہ اللہ کی نافرمانی سرکشی اور انبیاء کے ساتھ دشمنی اور عداوت والا رویہ اختیار کیا گیا، ان کو درست راستے پر چلانے کے لئے کئی طرح کے آسانی اور زمینی عذاب نازل کئے ، اس میں اللہ تعالی نے ان پر اپنے بے شمار انعامات کا تذکرہ کیا، ان کے ساتھ ان کی سرکشیوں اور نافرمانیوں کا ذکر کیا، اللہ نے انھیں فرعون جیسے ظالم حکمران سے انھیں نجات عطا فرمائی اور انھیں تورات جیسی عظیم کتاب عنایت فرمائی لیکن انھوں نے الله تعالی کو اپناخالق ماننے سے انکار کر دیا اور اللہ کے مقابلے میں بچھڑے کو معبود بنالیا:

وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ إِنَّكُمْ ظَلَمْتُمْ أَنفُسَكُم بِاتِّخَاذِكُمُ الْعِجْلَ فَتُوبُوا إِلَىٰ بَارِئِكُمْ فَاقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ عِندَ بَارِئِكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ ۚ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ وَإِذْ قُلْتُمْ يَا مُوسَىٰ لَن نُّؤْمِنَ لَكَ حَتَّىٰ نَرَى اللَّهَ جَهْرَةً فَأَخَذَتْكُمُ الصَّاعِقَةُ وَأَنتُمْ تَنظُرُونَ

 (البقرة:55 54)

اور جب موسی نے اپنی قوم سے کہا اے میری قوم! بے شک تم نے بچھڑے کو اپنے پکڑنے کے ساتھ اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے، سوتم اپنے پیدا کرنے والے کی طرف توبہ کرو، سو اپنے آپ کو قتل کر، یہ تمہارے لیے تمہارے پیدا کرنے والے کے نزدیک بہتر ہے، تو اس نے تمہاری طرف توبہ قبول کر لی، بے شک وہی بہت توبہ قبول کرنے والا نہایت رحم والا ہے۔ اور جب تم نے کہا اے موسی! ہم ہرگز تیرا یقین نہ کریں گے۔ یہاں تک کہ ہم اللہ کو کھلم کھلا د یکھ لیں تو انہیں بجلی نے پکڑ لیا اور تم دیکھ رہے تھے۔

الله تعالی نے سفر ہجرت میں انھیں بغیر کسی محنت کے من و سلوی عطا فرمایا مگر انھوں نے الله تعالی کی ناشکری کرتے ہوئے اللہ کی نعمت کو ٹھکرا کر دال اور پیاز وغیرہ کا مطالبہ کردیا

وَإِذْ قُلْتُمْ يَا مُوسَىٰ لَن نَّصْبِرَ عَلَىٰ طَعَامٍ وَاحِدٍ فَادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُخْرِجْ لَنَا مِمَّا تُنبِتُ الْأَرْضُ مِن بَقْلِهَا وَقِثَّائِهَا وَفُومِهَا وَعَدَسِهَا وَبَصَلِهَا ۖ قَالَ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنَىٰ بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ ۚ اهْبِطُوا مِصْرًا فَإِنَّ لَكُم مَّا سَأَلْتُمْ ۗ وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ وَبَاءُوا بِغَضَبٍ مِّنَ اللَّهِ ۗ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانُوا يَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَيَقْتُلُونَ النَّبِيِّينَ بِغَيْرِ الْحَقِّ ۗ ذَٰلِكَ بِمَا عَصَوا وَّكَانُوا يَعْتَدُونَ

(سورة البقرة :61)

اور جب تم نے کہا اے موسی! ہم ایک کھانے پر ہرگز صبر نہ کریں گے، سو ہمارے لیے اپنے رب سے دعا کر، وہ ہمارے لیے کچھ ایسی چیزیں نکالے جو زمین اپنی ترکاری ، اپنی ککڑی ، اپنی گندم ، اپنے مسور، اور اپنے پیاز میں اگاتی ہے۔ فرمایا: کیاتم وہ چیز جوکمتر ہے اس چیز کے بدلے مانگ رہے ہو جو بہتر ہے کسی شہر میں جا اترو تو یقینا تمہارے لیے وہ کچھ ہوگا جوتم نے مانگا، اور ان پر ذلت اور محتاجی مسلط کر دی گئی اور وہ اللہ کی طرف سے بھاری غضب کے ساتھ لوٹے۔ یہ اس لیے کہ وہ اللہ کی آیات کے ساتھ کفر کرتے اور نبیوں کو ناحق قتل کرتے تھے۔ یہ اس لیے کہ انہوں نے نافرمانی کی اور وہ حد سے گزرتے تھے۔

اللہ تعالی نے یہودیوں کو جمعہ کے دن خاص عبادت کرنے کا حکم دیا جس طرح ہم کرتے ہیں لیکن وہ اتنے سرکش تھے کہ انھوں نے جمعہ کے دن عبادت کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ ہم ہفتے کے دن کریں گےیعنی انھوں نے عھد کرلیا تھا کہ اللہ کی بات نہیں مانی تو الله تعالی نے فرمایا: چلو ہفتہ کے دن عبادت کرو مگر اس دن کوئی دنیاوی کام نہیں کرنا ، وہ لوگ مچھلیوں کا کاروبار کرتے تھے، انھوں نے یہ حیلہ کیا کہ دریا کے کنارے بڑے بڑے تالاب بنا لیے۔ ہفتے کے دن دریا کا پانی اپنے تالابوں کی طرف کر دیتے، پانی کے ساتھ مچھلیاں بھی چلی جاتیں تو پیچھے سے بند کر دیتے اور اتوار کی صبح تلابوں میں بند کی ہوئی مچھلیاں پکڑ لیتے لیکن انہوں نے حیلہ کے ذریعے اللہ کے حکم کوتوڑا تو اللہ تعالی نے انہیں خنزیر اور بندر بنادیا۔

وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِينَ اعْتَدَوْا مِنكُمْ فِي السَّبْتِ فَقُلْنَا لَهُمْ كُونُوا قِرَدَةً خَاسِئِينَ

 (سورة البقرة:65)

اور بلاشبہ یقینا تم ان لوگوں کو جان چکے ہو جوتم میں سے ہفتے کے دن میں حد سے گزر گئے تو ہم نے ان سے کہا ذلیل بندر بن جاؤ۔

آج ہمارے بہت سارے لوگ مختلف حیلوں اور بہانوں سے الله تعالی کی نافرمانی کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ درست کر رہے ہیں، ایسے لوگوں کو یہود کے انجام سے عبرت پڑھنی چاہیے۔

اس کے بعد الله تعالی نے گائے والا مشہور واقعہ بیان کیا جس کی وجہ سے اس سورت کا نام البقره ہے۔ تاریخی کتب میں اس کی تاریخ یہ بیان کی گئی ہے کہ ایک شخص بہت مال دار تھا، اور اس کی اولاد میں صرف ایک بیٹی تھی ، اس کے نوجوان بھتیجے نے لالچ میں آکر رات میں اپنے چچاکوقتل کر دیا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ اس کا مال بھی میرے قبضے میں آجائے گا، بیٹی بھی میرے تابع ہو جائے اور بعد میں اس سے شادی کرلوں گا قتل کرنے کے بعد شیطان نے اسے مزید مال کمانے کا طریقہ بتایا تو اس نے رات کو چچا کی لاش کو اٹھایا اور اپنے مخالف قبیلے کے علاقے میں پھینک دیا صبح ہوئی تو اس نے شور مچایا، لامحالہ لاش مخالف قبیلے کے علاقے سے ملی تو اس نے فٹ سے انہی پر قتل کا الزام لگا دیا اور دیت کا مطالبہ کر دیا۔ وہ لوگ سیدنا موسی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنی بے گناہی کا واویلا کیا۔ سیدنا موسی علیہ السلام نے اللہ سے آرزو کی چونکہ دونوں کے پاس کوئی گواہ اور دلیل بھی نہیں تھی اور اگر اللہ وحی کے ذر یعے حقیقت بتادیتاتو مدعی قبیلہ نے فورا موسی علیہ السلام پر جانب داری کا الزام لگا دینا تھا اس لئے الله تعالی نے اپنی قدرت سے معجزانہ طور پر اس کا فیصلہ کرنے اور حقیقت کھولنے کا پروگرام بنایا، مزید اس کا مقصد ان کا عقیدہ آخرت درست کرتا تھا:

وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تَذْبَحُوا بَقَرَةً ۖ قَالُوا أَتَتَّخِذُنَا هُزُوًا ۖ قَالَ أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ

(سورة البقرة : 67)

اور جب موسی نے اپنی قوم سے کہا بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ ایک گائے ذبح کرو انہوں نے کہا کیا تو ہمیں مذاق بناتا ہے؟ کہا میں اللہ کی پناہ پکڑ تا ہوں کہ میں جاہلوں سے ہو جاؤں۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ دین کے مسائل کے معاملے میں ہنسی مذاق کرنا جاہل لوگوں کا کام ہے دین کو ہمیشہ سنجیدگی سے لینا چاہئے۔ جب موسی علیہ السلام نے فرمایا کہ الله کا یہی حکم ہے اور حقیقت ظاہر کرنے کا یہی طریقہ ہے تو وہ اتنی پریشانی کے باوجود اپنی عادت بد سے باز نہ آئے اور کہنے لگے وہ کوئی عام گائے تو نہیں

ہوسکتی ، لازمی کوئی خاص گائے ہوگی اس لئے اس کی عمر بتائیں ، موسی علیہ السلام نے عمر بتادی تو کہنے لگے ، اس کا رنگ بھی بتائیں جب رنگ بتادیا گیا تو کہنے لگے کوئی اور نشانی بھی بتائیں، جب وہ بھی بتادی تب مجبور ہو کر ماننے پر آمادہ ہوئے اور کہا

قَالُوا الْآنَ جِئْتَ بِالْحَقِّ ۚ فَذَبَحُوهَا وَمَا كَادُوا يَفْعَلُونَ

  (سورة البقرة :71

اب توصحیح بات لایا ہے۔ سو انہوں نے اسے ذبح کیا اور وہ قریب نہ تھے کہ کرتے۔

حالانکہ الله تعالی نے کوئی بھی پابندی نہیں لگائی تھی اس لئے کوئی بھی گائے ذبح کر دیتے تو کام ہو جاتا۔

آج بھی بہت سارے ایسے لوگ ہیں جو عالم سے مسئلہ پوچھتے ہوئے کہتے ہیں کہ جی ایسی ایسی حدیث لایں تب مانیں گے تو یہ یہودیوں کا طریقہ ہے مسلمانوں کا طریقہ نہیں ہے، اسلام کا جوبھی حکم جس انداز سے بھی ہو ہمیں چاہیے کہ وہ مان لیں ۔ جب گائے ذبح کی اور اس کے گوشت کا ایک ٹکڑا بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ زبان کا ایک ٹکڑا میت کے جسم کے ساتھ لگایا تو اس نے خود بول کر اپنے قاتل کے بارے میں بتادیا ۔ اتنا بڑا معجزہ دیکھ لینے کے بعد انھیں چاہئے تھا کہ دین کے معاملے میں ان کے دل نرم ہو جاتے اور موسی علیہ السلام کی اطاعت کرنے لگتے مگر ان کے دل مزید سخت ہو گئے

ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُكُم مِّن بَعْدِ ذَٰلِكَ فَهِيَ كَالْحِجَارَةِ أَوْ أَشَدُّ قَسْوَةً ۚ وَإِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا يَتَفَجَّرُ مِنْهُ الْأَنْهَارُ ۚ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَشَّقَّقُ فَيَخْرُجُ مِنْهُ الْمَاءُ ۚ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ ۗ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ

 (سورة البقرة:74

پھر اس کے بعد تمہارے دل سخت ہو گئے تو وہ پتھروں جیسے ہیں ، یا سختی )ان سے بھی( بڑھ کر ہیں اوربے شک پتھروں میں سے کچھ یقینا وہ ہیں جن سے نہریں پھوٹ نکلتی ہیں اور بے شک ان سے کچھ وہ ہیں جو پھٹ جاتے ہیں ، پس ان سے پانی نکلتا ہے اور بے شک ان سے کچھ یقینا وہ ہیں جو اللہ کے ڈر سے گر

پڑتے ہیں اور اللہ اس سے ہرگز غافل نہیں جوتم کر رہے ہو۔

اس کے علا وہ اللہ نے یہودیوں کے بہت سارے غلط عقائد اورقبیح کاموں کا تذکرہ کیا، اور ان کی نفی کی ، افسوس کہ وہ عقائد اور اعمال آج ہمارے مسلمانوں میں بھی موجود ہیں

فَوَيْلٌ لِّلَّذِينَ يَكْتُبُونَ الْكِتَابَ بِأَيْدِيهِمْ ثُمَّ يَقُولُونَ هَٰذَا مِنْ عِندِ اللَّهِ لِيَشْتَرُوا بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا ۖ فَوَيْلٌ لَّهُم مِّمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَّهُم مِّمَّا يَكْسِبُونَ

(سورة البقرة:79)

پس ان لوگوں کے لئے بڑی ہلاکت ہے جو اپنے ہاتھوں سے کتاب لکھتے ہیں ، پھر کہتے ہیں یہ اللہ کے پاس سے ہے ، تا کہ اس کے ساتھ تھوڑی قیمت حاصل کریں، پس ان کے لئے بڑی ہلا کت اس کی وجہ سے ہے جو ان کے ہاتھوں نے لکھا اور ان کے لئے بڑی ہلاکت اس کی وجہ سے ہے جو وہ کماتے ہیں۔

افسوس کہ آج نبی کے منبر ومحراب کے وارث علماء میں بہت سارے یہی کام سرانجام دے رہے ہیں، محض مال کمانے کے لئے غلط مسائل بتاتے اور غلط فتوے دیتے ہیں۔

بنی اسرائیل میں نسلی تعصب اس قدر ہے کہ انھوں نے دوسری اقوام کو دین کی دعوت دینے اور انہیں دین میں داخل کرنے کی بجائے دین کونسلی بنالیا ہے کہ دین موسوی کو وہی مان سکتا ہے جو ہماری نسل سے ہوگا

مزید یہ کہتے تھے کہ ہم اللہ کے محبوب لوگ ہیں ، ہم جہنم میں نہیں جائیں گے

وَقَالُوا لَن تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّامًا مَّعْدُودَةً ۚ

 (سورة البقرة :80

اور کہتے ہیں ہمیں چند سوائے گنتی کے دنوں کے آگ نہیں چھوئے گی۔

چند دنوں سے مراد اتنے دن جتنے دن ان کے بڑوں نے بچھڑے کی پوجا کی تھی ، ان کے اس دعوے کے جواب میں اللہ تعالی نے فرمایا:

قُلْ أَتَّخَذْتُمْ عِندَ اللَّهِ عَهْدًا فَلَن يُخْلِفَ اللَّهُ عَهْدَهُ ۖ أَمْ تَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ بَلَىٰ مَن كَسَبَ سَيِّئَةً وَأَحَاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ فَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ( البقرة :81/80

آپ کہہ دیجئے! کیا تم نے اللہ کے پاس کوئی عہد لے رکھا ہے تو اللہ بھی اپنے عہد کے خلاف نہیں کرے گا، یاتم اللہ پر وہ بات کہتے ہو جو نہیں جانتے۔

آج ہمارے معاشرے میں بھی ایسے لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ تعالی کی محبوب کی امت ہیں اللہ ہمیں کیسے جہنم میں ڈال دے گا تو الله تعالی نے ان آیات میں فرمایا کہ اللہ کے ہاں اصول چلتے ہیں کہ جوبھی شخص غلط کرے گا اسے ضرور سزا ملے گی اور جو نیکی کرے گا اسے ضرور اس کا اجر ملے گا، اسی طرح وہ سمجھتے

تھے کہ ہم ضرور جنت میں جائیں گے بلکہ ہمارے علاوہ کوئی جنت میں جا ہی نہیں سکتا

وَقَالُوا لَن يَدْخُلَ الْجَنَّةَ إِلَّا مَن كَانَ هُودًا أَوْ نَصَارَىٰ ۗ تِلْكَ أَمَانِيُّهُمْ ۗ قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ

 (سورة البقرة : 111)

اور انہوں نے کہا جنت میں ہر گز داخل نہیں ہوں گے مگر جو یہودی ہوں گے یا نصاری ۔ یہ ان کی آرزویں ہی ہیں، کہہ دےلاو اپنی دلیل اگر تم سچے ہو۔

پھر فرمایا

بَلَىٰ مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَهُ أَجْرُهُ عِندَ رَبِّهِ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (سورة البقرة : 112

کیوں نہیں جس نے اپنا چہرہ اللہ کے تابع کر دیا اور وہ نیکی کرنے والا ہوتو اس کے لیے اس کا اجر اس کے رب کے پاس ہے اور نہ ان پرکوئی خوف ہے اور نہ غمگین ہوں گے۔

اب نسلی تعصب کا شاخسانہ تھا کہ انھوں نے محمد ﷺ کوتمام تر نشانیاں دیکھ لینے کے باوجود تسلیم نہیں کیا کہ وہ ہماری نسل سے نہیں ہیں۔

آخر پر الله تعالی نے سیدنا ابراھیم علیہ السلام اور سیدنا اسماعیل علیہ السلام کی خدمات کا تذکرہ کیا ہے جن کی اولاد کو خلافت ارضی عطا کی گئی ہے پھر فرمایا محمد ﷺ کا پیغام کوئی نیا نہیں ہے بلکہ وہی ہے جس کی وصیت تمہارے باپ یعقوب علیہ السلام نے کی تھی

وَوَصَّىٰ بِهَا إِبْرَاهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ يَا بَنِيَّ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَىٰ لَكُمُ الدِّينَ فَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ أَمْ كُنتُمْ شُهَدَاءَ إِذْ حَضَرَ يَعْقُوبَ الْمَوْتُ إِذْ قَالَ لِبَنِيهِ مَا تَعْبُدُونَ مِن بَعْدِي قَالُوا نَعْبُدُ إِلَٰهَكَ وَإِلَٰهَ آبَائِكَ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ إِلَٰهًا وَاحِدًا وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ

 (سورة البقرة : 132 133)

اور اسی کی وصیت ابراہیم نے اپنے بیٹوں کو کی اور یعقوب نے بھی ۔ اے میرے بیٹو! بے شک الله تعالی نے تمہارے لیے دین چن لیا ہے تو تم ہرگز فوت نہ ہو مگر اس حال میں کہ تم فرمانبردار ہو۔ یاتم موجود تھے جب یعقوب )علیہ السلام( کو موت پیش آئی, جب اس نے اپنے بیٹوں سے کہا میرے بعد کس چیز کی عبادت کرو گے؟ انہوں نے کہا ہم تیرے معبود اور تیرے باپ دادا ابراہیم (علیہ السلام)، اسماعیل علیہ السلام اور اسحاق علیہ السلام کے معبود کی عبادت کریں گے، جو ایک ہی معبود ہے اور ہم اسی کے لیے فرمانبردار ہیں۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ دین کی اصل توحید ہے ہمیں اپنی اولادوں کی دینی تربیت کرنی چاہئے اور انھیں توحید پر قائم رہنے کی تلقین کرنی چا ہے۔ آخر میں فرمایا

تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ ۖ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُم مَّا كَسَبْتُمْ ۖ وَلَا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ (البقرة:134

یہ ایک امت تھی جو گزر چکی ، اس کے لیے وہ ہے جو اس نے کمایا اورتمہارے لیے وہ جوتم نے کمایا اورتم سے اس بارے میں نہیں پوچھا جائے گا وہ کیا کرتے تھے۔

یعنی ہر شخص سے اس کے ذاتی اعمال کا حساب ہوگا کوئی بھی شخص اس بنیاد پر نہیں چھوٹے گا کہ اس کا باپ بہت بڑا عالم یا ولی اللہ تھا۔ چونکہ بنی اسرائیل نے دین اور اپنے بابا ابراہیم علیہ السلام کی روش کو چھوڑ دیا ہے لہذا انھیں منصب امامت سے معزول کیا جاتا ہے اور اب یہ منصب آل ابراہیم کی دوسری شاخ آل اسماعیل یعنی محمد ﷺ اور آپ کی امت کے سپرد کیا جارہا ہے ۔ اب قیامت تک محمد ﷺ کی نبوت، آپ ﷺ کا دین اور آپ ﷺ کی امت رہے گی ، اب کوئی نیا نبی یا نئ  امت نہیں آئے گی اگر کوئی گروہ دین کو چھوڑے گا توالله تعالی اس کی جگہ دوسرا گروہ پیدا کر دے گا جو دین کی خدمت کرے گا مگر امت یہی رہے گی۔

Table of Contents