Search
Sections
< All Topics
Print

02. Hazrat Aamir Bin Abdullah Al Tamimi (رحمہ اللہ تعالی)

  حضرت عامر بن عبد اللّٰہ التمیمی رضي الله عنه




                 آٹھ اشخاص  جنہیں زھد و تقویٰ میں عروج  حاصل ہوا۔ ان میں سے پہلے نمبر  پر حضرت عامر بن عبد اللّٰہ التمیمی ھیں۔
             
           ( علقمہ بن مرشد)

 

ہجرت کے چودہ برس بیت گئے امیر المؤمنین فاروق اعظم حضرت عمر بن خطاب رضي الله عنه کے حکم کے مطابق معمار و کاریگر صحابہ کرام اور تابعین عظام نے سر زمین عراق میں ایک نئے شہر بصرہ کو آباد کیا۔ انکے عزائم یہ تھے کہ اس نئے شہر کو فوجی چھاؤنی کے طور پر استوار کیا جائے۔ تاکہ یہاں سے لشکر اسلام ایران کو اپنے زیر اثر لانے کے لیے فوجی کارروائی کو باسانی ترتیب دے سکے۔ اور اسی طرح ان کے عزائم میں یہ بھی بات تھی کہ یہ نیا شہر دعوت و ارشاد کا مرکز بھی ہو۔ اور روئے زمین پر اللّٰہ کے نظام کو نافذ کرنے کے لیے مینارہ نور بھی ثابت ہو۔ فوجی اہمیت کا یہ نیا شہر جب تیار ہو گیا۔ تو جزیزہ عرب کی جانب سے مسلمان جوق در جوق یہاں آ کر آباد ہونے لگے۔ اسی طرح نجد‘ حجاز اور یمن سے بہت سے مجاہدین کے قافلے کشاں کشاں بصرہ چھاؤنی پہنچنے شروع ہوئے۔ اور وہاں آ کر انہوں نے ڈیرے جما لیے۔ ان آنے والے قافلوں میں وادی نجد کے ایک معروف خاندان بنو تمیم کا ایک چشم و چراغ عامر بن عبد اللّٰہ التمیمی بھی نہاں خانہ دل میں جذبہ جہاد لئے ہوئے یہاں پہنچا۔


عامر بن عبد اللّٰہ ان دنوں نیک دل‘ سلیم الفطرت‘ پاکیزہ ذہن‘ خوبرو‘ کڑیل جوان تھا۔ بصرہ اپنی نو آبادی کے باوجود مال و دولت کے اعتبار سے دوسرے شہروں کی نسبت امتیاز حاصل کر چکا تھا۔ کیونکہ مسلسل فتوحات کی بناء پر یہاں مال غنیمت کے انبار لگ رہے تھے۔ اور خالص سونے کے

ذخائر جمع ہو رہے تھے لیکن اس تمیمی نوجوان عامر بن عبد اللّٰہ کو ان میں سے کسی چیز کی خواہش نہ تھی۔ وہ لوگوں سے بے نیاز اور اللّٰہ کی محبت میں وارفتہ‘ دنیا اور اس کی رعنائیوں سے کبیدہ خاطر اور اللّٰہ کی رضا کا طلب گار تھا۔

ان دنوں پر رونق شہر بصرہ کے گورنر‘ لشکر اسلام کے جرنیل‘ باشند گان بصرہ کے مربی و مرشد جلیل القدر صحابی حضرت موسی اشعری تھے۔ عامر بن عبد اللّٰہ صلح ہو یا جنگ‘ سفر ہو یا حضر‘ بہر صورت حضرت ابو موسی اشعری رضي الله عنه کے ساتھ ساتھ رہتے۔ ان سے قرآن مجید کا علم نورانی حاصل کیا اور پھر اسے دوسرے لوگوں کے سامنے من و عن بیان کیا۔

جب اس نوجوان نے نورانی علوم کے جواہرات سے اپنی جھولی بھر لی۔ تو اپنے قیمتی اوقات کو تین حصوں میں تقسیم کر لیا۔ ایک حصہ تعلیم کے لیے وقف کر دیا اور اس حصے کو بصرہ کی مسجد میں لوگوں کو قرآن مجید کی تعلیم دینے کے لیے وقف کر دیا۔ دوسا حصہ عبادت کے لیے وقف کر دیا۔ اور اس حصے میں دنیا و مافیہا سے بے نیاز ہو کر اللّٰہ کی عبادت میں اتنی دیر کھڑے رہتے کہ پاؤں تھک جاتے تیسرا حصہ جہاد کے لیے وقف کر دیا اور اس میں اسلحہ سے لیس ہو کر ایک تجربہ کار مجاہد کے روپ میں میدان جہاد میں کارہائے نمایاں سر انجام دیتے۔ ان کے علاوہ انہوں نے زندگی بھر کوئی چوتھا مشغلہ اختیار نہیں کیا۔ وہ اپنے دور میں بصرہ کے عابد و زاہد مشہور تھے۔


بصرے کا باسی بیان کرتا ہے۔ کہ میں ایک دفعہ سفر میں اس قافلے میں شامل ہوا جس میں حضرت عامر بن عبد اللّٰہ رضي الله عنه سفر کر رہے تھے۔ رات ہوئی تو ہمارے قافلے نے جنگل ہی میں گھنے درختوں کے ایک جھنڈ کے قریب پڑاؤ کیا۔ حضرت عامر رضي الله عنه نے اپنا سامان اکٹھا کیا۔ اور اپنا گھوڑا درخت کے ساتھ باندھا۔ زمین سے گھاس اکٹھی کر کے اس کے سامنے پھینک دی تاکہ یہ اسے کھا کر سیر ہو جائے۔ اور خود درختوں کے جھنڈ میں داخل ہو گئے۔ میں بھی یہ عزم لے کر دبے پاؤں اس کے پیچھے ہو لیا‘ کہ آج میں ضرور یہ نظارہ کرونگا کہ عامر بن عبد اللّٰہ رات کی تاریکی اور درختوں کے خوفناک جمگھٹے میں کیا کرتے ہیں۔ وہ درختوں کے درمیان دور تک گئے یہاں تک کہ وہ ایک ایسی جگہ پر جا کھڑے ہوئے جہاں کسی کی نظر نہ پڑے پھر انہوں نے نماز پڑھنا شروع کر دی۔ نماز ایسی وارفتگی میں پڑھ رہے تھے کہ کیا کہنے میں نے ایسی عمدہ‘ مکمل اور خشوع سے بھرپور نماز اس سے پہلے کسی کو پڑھتے نہیں دیکھا تھا نماز سے فارغ ہو کر انہوں نے اپنے رب سے سرگوشیاں شروع کر دیں۔ ولدوز آواز میں فرمانے لگے الہٰی! تو نے اپنے حکم سے مجھے پیدا کیا۔ اور اپنی مرضی سے مجھے اس دنیا کی آزمائشوں میں مبتلا کیا‘ پھر تو خود ہی مجھ سے فرماتا ہے کہ سنبھل کر چل۔

الہٰی! تو جانتا ہے ہے کہ اگر مجھے یہ ساری دنیا دے دی جائے‘ اور پھر کوئی مجھ سے تیری رضا کی خاطر اس کا مطالبہ کر دے تو میں تیری رضا کو ترجیح دوں اور ساری دنیا مطالبہ کرنے والے کو دے دوں۔ اور مجھے ذرہ برابر بھی کوئی مضائقہ نہ ہو۔ اے رحم کرنے والے مجھے سکون قلب عطا کر۔

الہٰی! میں نے تجھ سے ایسی محبت کی ہے۔ جس سے دنیا کی ہر مصیبت جھیلنی میرے لیے آسان ہو گئی ہے۔ اور تیرے ہر فیصلے کو برضا و رغبت تسلیم کرنے کا حوصلہ ملا ہے۔
تیری سچی محبت کے ہوتے ہوئے مجھے دن رات میں آنے والے نشیب و فراز کی کوئی پرواہ نہیں۔

بصرے کا رہنے والا وہ شخص بیان کرتا ہے کہ پھر مجھے نیند آگئی لیکن نیند گہری نہ تھی میں پوری رات نیند اور بیداری کی کشمکش میں مبتلا رہا۔ کبھی آنکھ لگ جاتی اور کبھی کھل جاتی۔ لیکن حضرت عامر پوری رات نماز اور مناجات میں مصروف رہے یہاں تک کہ صبح صادق نمودار ہوئی۔ تو انہوں نے نماز فجر ادا کی۔
اور اس کے بعد یہ دعا کی۔
الہٰی! صبح ہو چکی ہے۔ اور تیرا فضل تلاش کرنے کے لیے لوگوں کی چہل پہل شروع ہو چکی ہے ہر شخص کی کوئی نہ کوئی ضرورت ہے۔ اور میری ضرورت یہ ہے کہ تو مجھے بخش دے۔

الہٰی! کرم فرما میری اور ان سب لوگوں کی حاجات کو پورا کر دے۔ بلاشبہ تو سب سے بڑھ کر کرم فرمانے والا ہے۔
الہٰی! میں نے تجھ سے تین چیزیں مانگیں تھیں۔ تو نے مجھے دو عطا کر دیں۔ اور ایک ابھی تک عطا نہیں کی۔ الہٰی! وہ تیسری چیز بھی عطا کر دے تاکہ میں اپنی منشا کے مطابق جی بھر کر تیری عبادت کر سکوں۔ پھر وہ اپنی جگہ سے اٹھے پیچھے مڑے تو ان کی نظر مجھ پر پڑی تو گھبرا گئے۔ بڑے ہی افسردہ لہجے میں مجھ سے کہا۔ میرے بصری بھائی کیا تو ساری رات یہاں مجھے دیکھتا رہا ہے۔
میں نے کہا! جی ہاں۔
فرمانے لگے: خدارا جو تو نے دیکھا کسی کو نہ بتانا‘ اس کو اپنے دل میں ہی چھپائے رکھنا‘ اللّٰہ تمہاری حفاظت فرمائے۔
میں نے کہا مجھے وہ تین چیزیں بتاؤ جو تم نے اللّٰہ سے مانگی تھیں‘ دو تمہیں دے دی گئی اور ایک ابھی تک نہیں ملی۔ اگر تم نہیں بتاؤ گے تو میں بھی یہ راز فاش کر دونگا۔ اور لوگوں سے آج رات کا پورا واقعہ بیان کر دونگا۔
فرمایا: تیری مہربانی آج کا یہ واقعہ کسی کو نہ بتانا۔
میں نے کہا: میری وہی شرط ہے۔ جب اس نے میرے رویہ کو دیکھا تو فرمایا مجھے اللّٰہ کا گواہ کر کے وعدہ دو کہ تم میری اس کیفیت کو لوگوں کے سامنے بیان نہیں کروگے میں نے عرض کی۔ کہ میں وعدہ کرتا ہوں کہ تیری زندگی میں یہ واقعہ میں کسی کو نہیں بتاؤں گا۔

تو فرمانے لگے: کہ مجھے سب سے زیادہ دین کو تباہ برباد کرنے کا خطرہ عورتوں سے تھا۔ میں نے اپنے رب سے التجا کی کہ میرے دل سے عورتوں کی محبت نکال دے اللّٰہ نے میری دعا قبول کر لی۔ اب میری یہ حالت ہے۔ کہ عورت اور دیوار کو دیکھنا میرے لیے برابر ہے۔
میں نے کہا یہ تو ایک چیز ہوئی! دوسری کیا ہے؟
فرمانے لگے: میں نے اپنے رب سے دوسری التجا یہ کی کہ میں اس کے سوا کسی سے نہ ڈروں۔ اللّٰہ نے میری یہ دعا بھی قبول کر لی۔ اب ارض و سما میں سے اللّٰہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا۔
فرمانے لگے: میں نے اللّٰہ سے التجا کی کہ میری نیند ختم ہو جائے اور میں رات دن اللّٰہ کی عبادت میں گزار سکوں۔ لیکن میری یہ دعا قبول نہیں ہوئی۔

جب میں نے یہ باتیں سنیں تو ان سے کہا حضور اپنے آپ پر رحم کیجیئے تم رات بھر عبادت میں مصروف رہتے ہو۔ اور دن بھر روزے کی حالت میں رہتے ہو جنت تو اس سے کم عمل پہ بھی ان شاء اللّٰہ تمہیں عنایت کر دی جائے گی اور جہنم سے بچاؤ کے لیے اپنے آپ کو ہلکان نہ کیجئے۔
اللّٰہ کی رحمت آپ کے شامل حال ہے۔
فرمانے لگے مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں قیامت کے دن مجھے شرمسار نہ ہونا پڑے جبکہ اس وقت شرمساری کوئی فائدہ نہ دے گی۔ بخدا میں عبادت میں اپنی تمام تر توانائیاں صرف کر دینا چاہتا ہوں۔

اگر نجات مل گئی تو یہ اللہ کی رحمت ہے۔
اگر پکڑا گیا تو یہ میری کوتاہی ہوگی۔

عامر بن عبداللہ رات بھر م صلہے پر کھڑے ہو کر عبادت کرنے والے ہی نہ تھے بلکہ وہ دن بھر گھوڑے کی پیٹھ پر سوار ہو کر میدان میں کارہائے نمایاں سرانجام دینے والے ایک جفاکش مجاہد بھی تھے ۔
جب بھی کسی نے جہاد کے لئے پکارا سب سے پہلے چاک و چوبند ہیں میدان میں اترے جب بھی کسی معرکے میں حصہ لینے کے لیے مجاہدین میں شامل ہوتے تو اپنا ایک قافلہ تشکیل دیتے۔ اور جہاد کے سفر پر روانہ ہونے سے پہلے اپنے قافلے کے احباب سے مخاطب ہو کر کہتے کہ میرے آپ سے تین مطالبے ہیں۔ وہ پوچھے کون سے ؟
آپ فرماتے


1۔ ایک مطالبہ تو یہ ہے کہ میں آپ سب کا خادم بن کر شریک سفر رہوں گا۔ اور آپ میں سے کسی کو کوئی اعتراض نہ ہوگا۔
 
2۔  دوسرا مطالبہ یہ ہے کہ جب بھی نماز کا وقت ہوگا تو اذان میں دوں گا۔ اور آپ اسے کوئی بھی میرا یہ حق چھیننے کو کوشش نہیں کرے گا۔

3۔ اور دوسرا مطالبہ یہ ہے کہ میں اپنی حیثیت کے مطابق آپ پر اپنی گھر اسے خرچ کروں گا۔ اور کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔

اگر قافلے کے احباب یہ تینوں مطالبے برضا ورغبت قبول کرلے تو ان کے ساتھ رہتے ‘ ورنہ دوسرا کے جانب رخ کر تے۔
اور اس قافلے کے ساتھ مل کر سفر کرتے جو ان کے مطابق بلا چوں و چراں مان لیتا۔
                                



حضرت عامر بن عبداللہ ان مجاہدین میں سے تھے جو خطرناک مواقع پر جوانمردی سے آگے بڑھتے ہیں۔ اور طمع اور لالچ کے وقت دامن سمیٹ کر کنارہ کشی اختیار کر لیتے ہیں گھمسان کی لڑائی میں مردانہ وار اس طرح بے خوف و خطر آگے بڑھتے جس کی مثال جنگی تاریخ میں نہیں ملتی اور غنیمت کا مال سمیٹتے وقت یوں کنارہ کشی اختیار کرتے۔ جیسے کوئی غیر مرغوب چیز کو دیکھ کر منہ پھیر لیتا ہے۔
                  



فاتح ایران حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ جنگ قادسیہ سے فارغ ہو کر ان کے شاہی محل میں فروکش ہوئے عمر بن مقرن کو حکم دیا کہ مال غنیمت اکھٹا کرے اور اس کی گنتی کریں۔ تاکہ غنیمت کا پانچواں حصہ دار السلطنت مدینہ منورہ کو بیت المال کے لیے روانہ کر دیا جائے ۔ اور باقی غنیمت کا مال مجاہدین میں تقسیم کردیں۔ ایسا اعمدہ مال اور قیمتی اشیاء کے ان کے سامنے ڈھیر لگے ہوئے تھے۔ کہ کیا کہنے: عمدہ شیشے کے نقش و نگار والی ویدہ زیب ٹوکریوں میں سونے چاندی کے برتن نہایت سلیقے سے رکھے ہوئے تھے. جن میں ایرانی بادشاہ کھانا کھایا کرتے تھے۔

وہاں ساگوان کی لکڑی کے بنے ہوئے نہایت عمدہ اور دلکش صندوقوں میں ایرانی حکمرانوں کے لباس ، اور ہیرے موتی جڑی ہوئی اشیاء دیکھنے والوں کی آنکھوں کو خیرہ کر رہی تھیں وہاں عمدہ ‘ دیدہ زیب ‘ اور دلفریب زیورات ڈبوں میں سیلقے سے رکھے ہوئے تھے ۔ وہاں ایرانی بادشاہوں کی نیاموں میں بند تلواریں ایک نیا رنگ جمائے ہوئے تھیں۔

اور وہاں ان بادشاہوں اور جرنیلوں کی تلواریں بھی پڑی ہوئیں تھیں جو مختلف اددر میں ایرانی حکمرانوں کے آگے سرنگوں ہوئے۔



کارکن تمام حاضرین کے سامنے مال غنیمت کی گنتی کر رہے تھے ۔ کہ کیا دیکھتے ہیں کہ ایک پراگندہ حال ، غبار آلود شخص ایک بھاری مٹکا اٹھائے قلندرانہ انداز میں چلا آ رہا ہے ۔ حاضرین نے اپنی زندگی میں اس جیسا برتن نہیں دیکھا تھا مال غنیمت کی جو چیزیں ان کے سامنے پڑی ہوئیں تھیں ۔ وہ اس مٹکے کے مقابلے میں ہیچ نظر آنے لگیں۔ اس برتن میں جب جھانکا تو وہ ہیرے جواہرات کا بھرا ہوا تھا ۔
حاضرین نے اس شخص سے پوچھا
یہ قیمتی خزانہ کہاں سے ہاتھ لگا ہے۔
اس نے کہا یہ معرکہ کے دوران غنیمت کے طور پر میرے ہاتھ آیا ہے۔

انہوں نے پوچھا:
کیا اس میں سے کوئی چیز تم نے الگ کی ہے؟
اس نے کہا اللہ تمھیں ہدایت دے یہ کیسے ہو سکتا ہے اللّٰہ کی قسم ہیرے جواہرات سے اٹا ہوا یہ برتن اور ایران کے بادشاہوں کی ملکیت میں ساری دولت میرے نزدیک ایک کٹے ہوئے ناخن کے برابر بھی نہیں ہے۔
اگر یہ مسلمانوں کے بیت المال کا حق نہ ہوتا تو میں کبھی یہ اٹھا کر تمھارے پاس نہ لاتا انہوں نے کہا اللّٰہ آپ کو عزت دے آپ کون ہیں ؟
اس نے کہا: اللّٰہ کی قسم میں اپنے بارے میں تمھیں کچھ نہیں بتاؤں گا اور نہ کسی غیر کو مباداکہ تم میری تعریف کرنے لگو۔
میں تو اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں۔ اور اس کی بارگاہ سے ثواب کی امید رکھتا ہوں ۔ یہ کہا اور وہاں سے چلا گیا۔
وہ یہ منظر دیکھ کر ششدر رہ گئے۔ انہوں نےاس کے پیچھے ایک آدمی بھیجا تا کہ وہ یہ خبر لائےکہ یہ کون ہے!
وہ شخص اس کے پیچھے چلتا گیا۔ یہاں تک کہ وہ اپنے مجاہد ساتھیوں سے جا ملا ان سے جاکر پوچھا کہ یہ صاحب کون ہیں۔ انہوں نے کہا: کیا تمھیں معلوم نہیں یہ بصرہ کے زاہد عامربن عبد اللّٰہ تمیمی ہیں۔
        




حضرت عامر بن عبداللہ ان اوصاف حمیدہ کے باوجود لوگوں کی جانب سے پیدا کردہ مشکلات سے اور مصائب سے نہ بچ سکے ۔

انہیں بالکل ان لوگوں کی طرح تکالیف اور پریشانیاں جھیلنا پڑیں جو لوگ حق کا برملا اظہار کرتے ہیں اور برائیوں کو بزور بازو ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
ایک دفعہ یہ واقعہ پیش آیا کہ حضرت عامر بن عبد اللّٰہ نے دیکھا کہ بصرے کی پولیس کے سربراہ کا ملازم ایک غیر مسلم ذمی کو گردن سے پکڑے ہوئے لیے جا رہا ہے۔اور وہ بیچارہ لوگوں سے دردمندانہ انداز میں فریاد کر رہا ہے۔
لوگو! مجھے بچاؤ!
مسلمانوں اپنے نبیﷺ کے معاہدے کی حفاظت کرو۔
یہ سن کر حضرت عامر آگے بڑھے۔ ذمی سے پوچھا کیا تم نے ٹیکس ادا کر دیا ہے!اس نے کہا! ہاں:
پھر آپ اس کی طرف متوجہ ہوئے جس نے اس بیچارے کی گردن دبوچ رکھی تھی ۔
گرجدار آواز سے کہا:
تم نے اسے کیوں پکڑا ہے؟
اس نے کہا کہ میں اسے صاحب بہادر کے باغیچہ کی صفائی کرانے کے لیے لے جارہا ہوں۔حضرت عامر نے ذمی سے پوچھا کیا تم بخوشی یہ کام کرنے کے لیے تیار ہو۔
اس نے کہا بالکل نہیں میں اگر باغیچہ صاف کرنے میں لگ گیا۔ تو میں اپنے بچوں کے لیے کیسے کماؤں گا۔

اللّٰہ کے لیے میری مدد کرو، مجھے اس مصیب سے چھڑاؤ ۔ اللّٰہ آپ کا بھلا کرے۔ حضرت عامر نے پکڑنے والے سے کہا اسے چھوڑ دو۔ اس نے کہا میں نہیں چھوڑوں گا ۔

حضرت عامر نے ذمی پہ اپنی چادر پھینک کر ایک ہی جھٹکے میں اسے چھڑا لیا اور پھر فرمایا اللہ کی قسم میری زندگی میں حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے معاہدے کو نہیں توڑا جا سکتا اور اس تو تکار میں جو لوگ وہاں جمع ہو چکے تھے ان سب نے حضرت عامر بن عبداللہ کی طرفداری کی۔
پولیس ملازمین نے حضرت عامر بن عبداللہ پر صاحب امر کی اطاعت ترک کرنے کا الزام عائد کر دیا ۔ علاوہ ازیں ان پر جماعتہ المسلمین سے خروج کا الزام بھی لگا ۔اور ان کے متعلق یہ بھی کہا کہ اس نے شادی نہ کر کے سنت نبوی ﷺ کا انکار کیا ۔اور یہ نہ دودھ پیتا ہےاور نہ گوشت کھاتا ہے ۔ اس طرح یہ حلال چیزوں کو حرام قرار دینے کا مرتکب ہوا ہے۔اور مزید برآں یہ حکمرانوں کی مجلس سے کنی کتراتا ہے۔ان الزامات کی فائل بنا کر امیر المومنین حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بھیج دی۔

                       




امیر المومنین حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے بصرہ کے گورنر کو حکم دیا کہ عامر بن عبداللہ کو بلا کر ان پر عائد کردہ الزامات کی تحقیقات کر کے جلد مجھے حقیقت حال سے آگاہ کریں۔

گورنر نے حضرت عامر کو بلایا اور کہا : کہ امیرالمومنین کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے میں آپ سے چند سوال پوچھتا ہوں!
فرمایا :
خوشی سے پوچھئے –
گورنر نے پوچھا :
آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت سے اعراض کرتے ہوئے شادی سے انکاری ہیں-
فرمایا :
میں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کا انکار کرتے ہوئے شادی کے بندھن سے راہ فرار اختیار نہیں کیا – میں صدق دل سے یہ اعلان کرتا ہوں کہ اسلام میں رہبانیت دنیا ترک کر دینے کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا – البتہ شادی نہ کرانے کی اصل وجہ یہ ہے کہ میرے دل میں یہ خیال آیا کہ میرا ایک دل ہے – کیوں نہ صرف ایک اللہ ہی کے ساتھ لو لگائی جائے مجھے یہ اندیشہ لاحق ہوا کہ کہیں بیوی میرے دل پر غالب نہ آجائے –
پھر اس نے دریافت کیا کہ تم گوشت کیوں نہیں کھاتے ؟
آپ نے فرمایا:
جب دل چاہے اور آسانی سے دستیاب ہو تو کھا لیتا ہوں اس نے پوچھا تم پنیر کیوں نہیں کھاتے –
آپ نے فرمایا :
میں ایک ایسے علاقے میں رہتا ہوں جہاں آتش پرست آباد ہیں – اور وہ پنیر بناتے ہیں یہ قوم مردار اور ذبح کیے گئے جانور میں کوئی فرق نہیں کرتی مجھے اندیشہ رہتا ہے کہ کہیں پنیر میں مردہ جانور کا کوئی جز استعمال نہ کیا گیا ہو –
ہاں اگر وہ مسلمان تصدیق کر دیں کہ اس میں تمام حلال اجزاء استعمال ہوئے ہیں تو میں بخوشی کھا لیتا ہوں –

گورنر نے پوچھا : تم حکمرانوں کی مجلس میں کیوں نہیں بیٹھتے ان کی مجالس سے ہمیشہ اجتناب کیوں کرتے ہو اس کی کیا وجہ ہے ؟
فرمایا :
تمہارے دروازے پر بڑے ضرور تمند آتے ہیں – انہیں اپنے پاس بلاؤ اور ان کی ضروریات کو پورا کرو – اور جس کو تم سے کچھ غرض نہیں اس کے درپے کیوں ہوتے ہو – اسے چھوڑو اور اپنی حالت میں مست رہنے دو –
                     
     




گورنر نے حضرت عامر بن عبداللہ کی یہ تمام باتیں امیرالمومنین حضرت عثمان عفان رضی اللہ عنہ تک پہنچا دیں – اور انہیں اطلاع دی کہ نہ تو حضرت عامر اطاعت امیر سے گریزاں ہیں – اور نہ ہی انہوں نے مسلمانوں سے کوئی الگ روش اختیار کی ہے لیکن اس سے بھی ان کے خلاف سازشوں کی یلغار ماند نہ پڑ سکی – ان کے خلاف بہت سے من گھڑت قصے تراشے گئے نوبت یہاں تک پہنچ چکی تھی – کہ حضرت عامر کے حامی اور مخالف دو مضبوط گروہوں میں تقسیم ہو چکے تھے قریب تھا کہ کوئی اندوہناک فتنہ سر اٹھا لیتا لیکن امیرالمئومنین حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت عامر کو شام بھیج دیا – اور وہاں انہیں مستقل رہائش فراہم کر دی – اور شام کے گورنر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو ان کی تکریم و تعظیم کا حکم دے دیا –

جس دن حضرت عامر بن عبداللہ بصرے سے کوچ کرنے لگے – بہت سے معتقدین اور شاگرد الوداع کے لیے جمع ہو گئے – اور جم غفیر الوداع کہنے کے لیے بصرہ شہر کے باہر تک گیا – شہر سے باہر نکل کر سب حاضرین سے مخاطب ہوئے اور فرمایا :
لوگو! میں دعا کرتا ہوں اور تم آمین کہنا –
سب لوگ ان کی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے لگے سب مجسمہ حزن و ملال بنے بے حس و حرکت خاموش کھڑے تھے سب کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے –
آپ نے ہاتھ اٹھائے اور باواز بلند کہا:
الٰہی: جس کسی نے مجھ پر الزام لگائے اور مجھے بد نام کرنے کے لیے کوشاں رہا- جو مجھے میرے شہر سے نکالنے کا سبب بنا, میرے اور میرے بھائیوں کے درمیان جدائی کا باعث بنا –
اے اللہ میں نے معاف کیا تو بھی اسے معاف کر دینا –
اسے دین و دنیا میں عافیت عطا کرنا مجھے اور تمام مسلمانوں کو اپنی رحمت احسان اور معافی کی چادر کے پردے میں ڈھانپ لینا – بلاشبہ تو بہت بڑا رحم کرنے والا ہے –
پھر اپنی سواری کو سر زمین شام کو طرف رخ کر کے ایڑ لگائی اور سوئے منزل چل دیئے-




حضرت عامر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے باقی زندگی شام میں بسر کی اور بیت المقدس میں ڈیرے ڈالے رکھے – اور اس کے علاوہ جو سرکاری رہائش فراہم کی گئی تھی اس میں ایک دن بھی قیام نہیں کیا – البتہ شام کے گورنر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان کی تعظیم و تکریم کے لیے کوئی کسر باقی نہ چھوڑی جس سے یہ دلی طور پر بہت متاثر ہوئے –
جب حضرت عامر رضی اللہ عنہ مرض الموت میں مبتلا ہوئے تو کچھ تیمار دار آئے وہ کیا دیکھتے ہیں کہ آپ زارو قطار رو رہے ہیں –
سب نے کہا –
آپ روتے کیوں ہیں : آپ تو زندگی بھر کار ہائے نمایاں اور کارہائے خیر ہی سر انجام دیتے رہے ہیں –
فرمایا :
اللہ کی قسم : مجھے نہ تو دنیا کا لالچ ہے اور نہ موت سے گھبراہٹ میں روتا اس لیے ہوں کہ سفر لمبا ہے اور زاد راہ بہت تھوڑا ہے میں اسی نشیب و فراز اور کشمکش میں مبتلا ہوں یہ کہ جنت ملے گی یا جہنم –
مجھے علم نہیں کہ میں کس سفر پر روانہ ہو رہا ہوں –
پھر ان کی پاکیزہ روح اس حال میں قفص عنصری سے پرواز کر گئی –

ان کی زبان ذکر الٰہی سے تر تھی کیا نصیب ہے اور کیا خوش بختی کہ قبلہ اول, حرم ثالث, معراج رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی منزل اول یعنی بیت المقدس کی قربت میں ہمیشہ کے لیے سکوں کی نیند سو گئے –
اللہ حضرت عامر رضی اللہ عنہ کی قبر کو منور کرے –
اللہ جنت الفردوس میں اس کے چہرے کو تروتازہ کرے –


حضرت عامر بن عبداللہ التمیمی کے مفصل حالات زندگی معلوم کرنے کے لیے درج کتابوں کا مطالعہ کریں –


١- الطبقات الکبریٰ لابن سعد
  ٧/ ١٠٣-١١٢
٢- صفتہ الصفوۃ لابن جوزی
٣/ ٢٠١- ٢١١
٣- حلیتہ الاولیاء لا صفہانی
٨٧-٩٥
٤- تاریخ الطبری لمھمد بن جریر الطبری
٤/ ١٩- ٨٥

٣٠٢-٣٢٧-٣٣٣

 

حوالہ:
“کتاب: حَياتِ تابِعِين کے دَرخشاں پہلوُ”
تالیف: الاستاذ ڈاکتور عبد الرحمان رافت الباشا
ترجمه: محمود غضنفر

Table of Contents