03. Hazrat Hazrat Urwah bin Zubair (رحمہ اللہ تعالی)
حضرت عروہ بن زبیر(رحمہ اللہ تعالی)
جسے دنیا میں
جتنی شخص دیکھنے کا شوق ہو وہ عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہا کو دیکھ لے –
(عبدالملک بن مروان)
آفتاب اپنی سنہری رو پہلی کرنوں کو بیت اللہ سے سمیٹتے ہوئے اپنے رخ زیبا کو پردہ غروب میں چھپا کر شبنم سے لبریز ہوا کے خنک جھونکوں کو خانہ خدا کے پاکیزہ صحن میں رقصاں و خراماں رہنے کا اعلان عام دے چکا ہے – اس سہانی و دلفریب فضا میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اور تابعین ذی وقار اللہ اکبر اور لاالہ الا اللہ کے دلاویزو پر کیف نغموں سے اور بارگاہ ایزدی میں دلگراز آہوں سسکیوں اور پر سوز دعاؤں سے بیت اللہ کی فضا کو معطر کر رہے تھے –
لوگوں ہبیت و جلال کے مظہرو استقلال کے پیکر بیت اللہ کے اردگرد گروہ در گروہ حلقے بنا کر بیٹھ گئے – اور اپنی آنکھوں کو خانہ خدا کی زیارت سے خیرہ کرنے لگے – اور ساتھ ہی محبت بھرے انداز میں ایک دوسرے سے محو گفتگو بھی تھے , رکن یمانی کے قریب خوبرو, خوش شکل اجلے سفید اور صاف ستھرے کپڑے پہنے ہوئے چار کڑیل جوان بیٹھے باتیں کر رہے تھے – یوں دکھائی دیتا تھا کہ ان کا تعلق کسی معزز گھرانے اور عالی مرتبت خاندان سے ہے ‘ دریافت کرنے پر پتا چلا کہ وہ عبداللہ بن زبیر رحمتہ اللہ علیہ مصعب بن زبیر رحمتہ اللہ علیہ, عروہ بن زبیر رحمتہ اللہ علیہ اور عبدالملک بن مروان ہیں –
ان چار نیک فطرت نوجواں کے درمیان دھیمے گداز اور نرم لہجے میں تبادلہ خیال ہونے لگا- ان میں سے ایک نے کہا – آج ہم میں سے ہر ایک اللہ رب العزت کی بارگاہ سے اپنی دلپسند چیز کا مطالبہ کرے , یہ بات سن کر وہ خیالات کی غیبی دیا میں اور تمناؤں کے سر سبز و شاداب خیالی باغات میں طواف کرنے لگے –
پھر تھوڑی دیر بعد ان میں سے ایک نوجوان عبداللہ بن زبیر رحمتہ اللہ علیہ اپنے سر کو جٹھک کر چوکس ہوا اور کہنے لگا : میری دلی خواہش ہے کہ میں حجاز کا حکمران بنوں اور خلافت کا تاج میرے سر پر ہو-
ان کے بھائی مصعب بن زبیر رحمتہ اللہ علیہ نے کہا : میری دلی تمنا ہے کہ میں کوفہ اور بصرہ کا حکمران بنوں – اور کوئی بھی میرا مخالف نہ ہو –
تیسرے نوجوان عبدالملک بن مروان نے کہا : اگر تم دونوں اتنے ہی پر اکتفا کر بیٹھے ہو تو تمہیں مبارک , سنو میری دلی خواہش ہے کہ میں پوری دنیا کا حکمران بنوں اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بعد خلافت مجھے ملے لیکن حضرت عروہ بن زبیر رحمتہ اللہ علیہ خاموش بیٹھے رہے اس نے کچھ نہ کہا : تینوں نوجوان اس کی طرف لپکے, کہنے لگے , خاموش کیوں بیٹھے ہو آپ کچھ بولتے نہیں – کیا ارادے ہیں – کچھ تو دل کی بات ظاہر کرو ؟
اس نے کہا : جو تم نے مانگا وہ تمہیں مبارک ہو میری دلی تمنا یہ ہے – کہ میں عالم باعمل بنوں لوگ مجھ سے قرآن و حدیث کا علم سیکھیں اور مجھ سے دینی احکامات معلوم کریں اور پھر آخرت اللہ کی رضا اور جنت کو میرا مقدر بنا دیا جائے –
دن گزرتے گئے, گردش زمانہ سے وہ وقت بھی آگیا کہ یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد حجاز, مصر, یمن, خراسان اور عراق پر حکومت کرنے کے لیے خلافت کا تاج حضرت عبداللہ بن زبیر رحمتہ اللہ علیہ کے سر پر رکھا گیا –
پھر چشم فلک نے وہ لخراش منظر بھی دیکھا کہ انہیں بیت اللہ کے قریب اس جگہ سے چند قدم کے فاصلے پر قتل کر دیا گیا جہاں انہوں نے خلیفہ بننے کی تمنا کا اظہار کیا تھا حضرت مصعب بن زیبر کو ان کے بھائی حضرت عبداللہ بن زبیر نے عراق کا گورنر مقرر کر دیا تھا۔
اور پھر انہیں بھی خلافت کے دفاع کی آڑ میں قتل کر دیا گیا
پھر عبداللہ الملک بن مروان اپنے باپ کی وفات کے بعد خلیفہ بنے حضرت عبداللہ بن زبیر اور ان کے بھائی مصعب بن زبیر کے قتل کے بعد تمام مسلمان عبدالملک کے خلافت کو بخشی تسلیم کرلیا –
پھر وہ اپنے دور میں دنیا بھر کے حکمرانوں سے زیادہ اہمیت اختیار کر گئے اور ان کی حکومت بھی سب سے زیادہ وسیع و عریض علاقے پرتھی اس طرح تینوں نوجوانوں کی تمنائیں پوری ہوئی لیکن حضرت عروہ بن زبیر کی تمنا کا کیا بنا آئیں اب ہم ان کی نصیحت آموز داستان کا آغاز کرتے ہیں
حضرت عروہ بن زبیر حضرت فاروق عظیم رضی اللہ تعالی عنہ کی وفات سے ایک سال پہلے ایک عالی شان اور معزز گھرانے میں پیدا ہوئے ان کے والد محترم حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ تعالی عنہا حواری رسول معظم صلی اللہ علیہ وسلم تھے اور انہیں اسلام کی سربلندی کے لئے سب سے پہلے تلوار اٹھانے کا اعزاز حاصل ہوا اور یہ ان دس صحابہ کرام میں سے تھے جنہیں زندگی میں جنت کی بشارت دی
کی۔ان کے والدہ ماجد حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی بیٹی حضرت اسماء تھیں جو ذات النطاقین کہ کب سے مشہور ہوئیں ان کے نانا حضرت ابوبکر صدیق اعظم تھے جنہیں خلیفہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور رفیق غار ہونے کا اعراف حاصل ہوا
ان کی دادی حضرت صفیہ بنت عبدالمطلب تھیں جو رسول اللہ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی اور ان کی خالہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ کی وفات ہوئی۔ انہیں دفن کرنے کا وقت آیا تو پہلے یہ قبر میں اترے لحد کو اپنے ہاتھوں سے درست کیا
کیا اس سے بڑھ کر کوئی حسب و نسب حضرت عروہرضی اللہ تعالی عنہا کو میسر آیا کہ اس سے بڑھ کر بھی کوئی غزہ شرف ہے جو انہیں حاصل ہوا
غرضیکہ عروہ بن زبیر بیت اللہ کے پاس بیٹھ کر جس دلی تمنا کا اظہار کیا تھا وہ انہیں میسر آئی ۔
یہ علم حاصل کرنے کی طرف متوجہ ہوئے وہ جلیل القدر صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ جو اس وقت زندہ تھے انہیں غنیمت سمجھتے ہوئے ان کے گھروں کو چکر لگانے لگے ان کے پیچھے نمازیں پڑھتے ان کی مجلسوں میں بیٹھے ان سے کتاب و سنت کا علم حاصل کرتے انہوں نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ تعالی عنہا حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالی عنہ حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالی عنہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہا حضرت عبداللہ بن
عباس رضی اللہ تعالی عنہا حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالی عنہ اور اپنی خالہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ قرآن حدیث کا علم حاصل کیا اور ان کے حوالے سے متعدد احادیث کی روایت کا اعزاز کیا یہاں تک کہ مدینہ منورہ کے ان سات فقہاء میں ان کا شمار ہونے لگا جن سے لوگ دینی مسائل دریافت کرنے کے لیے رجوع کیا کرتے تھے۔
اور حکمران رعایا سے متعلق دینی اور دنیاوی امور نپٹانے کے لیے ان سے تعاون لیا کرتے تھے ۔
جب حضرت عمر بن عبدالعزیز کو ولید بن عبدالملک مدینے کا گورنر بنا کر بھیجا تو لوگوں نے انہیں خوش آمدید کہا اور ان کا والہانہ استقبال کیا نماز ظہر ادا کرنے کے بعد فقہاء مدینہ کو مد عو کیا ۔ ان میں سے سر فہرست حضرت عروہ بن زبیر تھے ۔ جب وہ تشریف لائے تو عمر بن عبد العزیز نے انہیں خوش آمدید کہا اور بڑی عزت و اکرام سے انہیں اپنے ساتھ بٹھایا پھر اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کے بعد ارشاد فرمایا: میں نے جس کام کے لیے تمہیں اپنے پاس بلایا یقینا اس پرتمہیں اجر و ثواب ملے گا ‘ میں امید رکھتا ہوں کہ تم حق و صداقت میں میرے مددگار بنو گے’ میں چاہتا ہوں کے ہر کام آپ کے مشورے سے پایہ تکمیل کو پہنچاؤں ‘ اگر آپ دیکھیں کوئی کسی پر زیادتی کر رہا ہے یا آپ کو یہ اطلاع ملتی ہے کہ کسی حکومت کے نمائندے نے کسی پر کوئی ظلم روا رکھا ہے تو برائے مہربانی مجھے ضرور بتائیں۔ اس سلسلے میں مجھے آپ کی مدد کی ضرورت ہے امید ہے آپ ضرور میرے ساتھ دیں گے۔
حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ علم و عمل کے پيكر تھے موسم گرما میں کثرت سے روزے رکھتے شب زندہ دار اور ذکر الہی سے رطب اللسان رہتے علاوہ ازیں کتاب القران مجید کے ساتھ ان کی دوستی مثالی تھیں اکثر وبیشتر اس کی تلاوت میں منہمک رہتے ۔ روزانہ قرآن مجید کے چوتھائی حصے کی تلاوت دیکھ کر کیا کرتے تھے پھر رات کے وقت یہی حصہ نوافل زبانی پڑھتے عنفوان شباب سے وفات تک ان کا یہی معمول رہا ایک مرتبہ ناغہ ہوا۔ وہ دلخراش اور عبرت ناک واقعہ سن کر آپ کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے۔
حضرت عروہ بن زبیرنماز کو اپنے دل کا سکون اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک خیال کیا کرتے تھے نماز کی حالت میں یوں معلوم ہوتا ہے کہ زمین پر انہیں جنت نصیب ہوگئی ہے لہٰذا نماز خوب دل لگا کر پڑھتے اس کے تمام شعائر انتہائی اطمینان و تسلی سے ادا کرتے اور ہر رکعت ممکن حد تک طویل کرتے انہوں نے ایک مرتبہ کسی شخص کو جلدی نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو اسے اپنے پاس بلایا اور محبت بھرے انداز میں فرمایا ۔ بیٹے کیا تجھے کوئی ایسی ضرورت لاحق نہیں جو رب تعالیٰ کی دربار میں پیش کرو ؟
رب کائنات کی قسم میں تو اللہ تعالی سے ہر چیز مانگتا ہوں اور لجاجت سے مانگتا ہوں یہاں تک کہ نمک بھی
حضرت عروہ بن زبیر نہایت نرم مزاج خوش اخلاق اور بہت بڑے سہخی تھے ان کا مدینہ منورہ میں سب سے بڑا باغ تھا جس میں میٹھے پانی کے چشمے گھنے سایہ دار اور پھل دار درخت تھے درختوں کی حفاظت کے لیے سال بھر اس باغ کا ارد گرد دیوار بنائے رکھتے تا کہ موشی اور بچے نقصان نہ پہنچائیں جب پھل پک کر تیار ہو جاتا نگاہیں اس کی طرف اٹھتی اور دل لپکتے تو یہ اپنے باغ کی دیوار مختلف مقامات سے گرا دیتے تاکہ آسانی سے لوگ باغ میں داخل ہوکر اور پکا ہوا لذیذ پھل کھا کر دل شاد کریں لوگ آتے جاتے باغ میں داخل ہوتے۔ اور جو پھل انہیں پسند آتا وہ کھاتے اور جاتے ہوئے جتنا چاہتے اپنے ہمراہ گھر لے جاتے حضرت عروہ بن زبیر جب بھی اپنے باغ میں داخل ہوتے تو قرآن مجید کی یہ آیات بار بار پڑھتے
وَلَو لا اِذْ دَخَلْتَ جَنَّتَكَ مَاشَآءَاللہُ لَا قُوَّۃَ اِلابِاللہ
ولید بن عبدالملک کے دور حکومت میں حضرت عروہ بن زبیر کو ایک ایسی آزمائش سے گزرنا پڑا کہ جس میں کوئی ایسی عظیم ہستی ہی ثابت قدم رہ سکتی ہے جس کا دل ایمان و یقین سے لبریز ہو۔ خلیفہ المسلمین ولید بن عبدالملک نے بڑی محبت اور اشتیاق سے انہیں دار الخلافہ و مشق میں
ملاقات کے لیے دعوت دی۔ انہوں نے بصد شوق دعوت قبول کی اپنے بڑے بیٹے کو ہمراہ لیا اور دمشق روانہ ہوگئے جب وہاں پہنچے تو خلیفہ نے والہانہ انداز میں ان کا استقبال کیا اور انہیں شاہی مہمان کا اعزاز دیا گیا۔
پھر وہی ہوا جو اللہ تعالی کو منظور تھا بسااوقات ہوائیں مخالفت سمیت چلنے لگتی ہیں۔ ہوا یہ کہ حضرت عروہ بن زبیر کا بیٹا سواری کے شوق میں شاہی اصطبل میں داخل ہوا جو نہی وہ ایک مونہہ زدر گھوڑے کے قریب آیا تو اس نے زور سے لات ماری جو اس کے سینے میں لگی اور جان لیوا ثابت ہوئی پھر غموں سے نڈھال باپ جب اپنے لاڈلے بیٹے کی قبر پر مٹی ڈال رہا تھا تو اس دوران ان کے پاؤں میں اچانک شدید درد ہونے لگا پاؤں میں ورم پیدا ہوئی اور وہ بڑی تیزی سے پنڈلی کی طرف پھیلنے لگا حالت تشویش ناک حد تک بگڑ گئی خلیفہ المسلین ولید بن عبدالملک پریشان ہوگئے فوری طور پر شاہی اطبا کو کہا علاج پر پوری توجہ دی جائے اور اس میں ایک لمحہے کی غفلت بھی نہ برتی جائے۔ معائنے کے بعد تمام اطباء نے متفقہ فیصلہ دیا کہ ٹانگ کاٹ دی جائے ورنہ مریض کی موت کا سبب بن جائے گا۔
جب ٹانگ کاٹنے کے لئے ایک ماہر جراح اپنے اوزار لے کر حاضر ہوا تو طیب نے حضرت عروہ سے کہا ہم آپ کو تھوڑی سی شراب پلائیں گے تاکہ ٹانگ کٹنے کی زیادہ تکلیف محسوس نہ ہو آپ نے یہ بات سن کر فرمایا: ایسا قطعا نہیں ہو سکتا میں حرام کے ذریعے سے اپنی عافیت کی امید نہیں رکھتا
طیب نے کہا تو پھر کوئی نشہ آور چیز آپ کو پلا دیتے ہیں ورنہ تکلیف ناقابل برداشت ہو گئی۔
آپ نے فرمایا میں نہیں چاہتا کہ میرے جسم کا کوئی عضو اس حالت میں کاٹا جائے کہ مجھے درد کا کوئی احساس بھی نہ ہو آپ بغیر کوئی نشہ آور چیز دیئے اسے کاٹیں اس درد میں بھی انشاءاللہ مجھے ثواب ملے گا ۔
جب جراح ٹانگ کاٹنے کے لئے تیار ہوا تو بہت سے آدمی حضرت عروہ کے قریب آئے آپ نے پوچھا : یہ جمگھٹا کیا ہے تو آپ کو بتایا گیا کہ ان افراد کو اس لئے بلایا گیا کے جب آپ کی ٹانگ کاٹنے لگے تو مضبوطی سے آپ کو تھامے رکھیں گے ہوسکتا ہے آپ شدید درد سے سنبھل نہ سکيں۔
اور علاج میں رکاوٹ پیدا ہو جائے جو آپ کے لیے نقصان دہ ہو یہ سن کر آپ نے فرمایا ان افراد کو پیچھے ہٹا دیں ان کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ میرے لئے اس اندوہناک وقت میں صرف اللہ کی یاد اور اس کی حمد و ثناء اور تسبیح تقدیس کا نغمہ الاپنا ہی کافی ہوگا بسم اللہ پڑھ کر آپ اپنا کام شروع کریں۔ میری فکر نہ کریں میرا اللہ حامی و ناصر ہو گا جراح نے پہلے قینچی کے ساتھ ٹانگ کا گوشت کاٹا اور پھر ہڈی پر آری چلائی ادھر حضرت عروہ نے بلند آواز سے لا الہ الا اللہ اللہ اکبر مسلسل پڑھنا شروع کر دیا جراح اپنے کام میں مشغول رہا اور حضرت عروہ ذکر الہی میں محو رہے۔ ٹانگ کٹ گئی اور جب وہ خون بند کرنے کے لئے کھولتے ہوئے تیل میں ٹانگ کو ڈبویا تو آپ بے ہوش ہوگئے ان کی پوری زندگی میں یہی وہ موقع ہے جس میں قرآن مجید کی
منزل پڑھنے میں ناغہ ہوا
جب حضرت عروہ بن زبیر علیہ الرحمہ صحت یاب ہوگئے اسے پکڑ غور سے دیکھنے لگے اور اسے اپنے ہاتھوں سے الٹانے پلٹانے لگے۔ پھر درد بھرے لہجے میں فرمایا: اے ٹانگ گواہ رہنا مجھے اللہ کی قسم جس نے تجھے پیدا کیا اور تیرے ذریعے چل کر میں مساجد میں جاتا رہا وہ خوب اچھی طرح جانتا ہے میں کبھی تجھے کسی حرام کام کی طرف چلا کر نہیں لے گیا پھر بنوں حزینہ کے ایک معروف شاعر معن بن اوس کے برجستہ یہ اشتہار پڑھیے.
لعمرک ما اھویت کفی لریه
ولا حملنتی نحو فاحشه رجلی
و لا فاد نی سعی و لابصری لما
و لا دلنی رائی علیھا ولا عقلی
و أعلم انی لم نصیبی مصیبه
من الدھر الا قد اصابت فقی تسلی
خلیفہ المسلین ولید بن عبدالملک کو اپنے معذز مہمان کی مصیبت کو دیکھ کر بہت دلی رنج ہوا کے چند دنوں میں یہ اپنے لاڈلی نوجوان بیٹے اور اپنی ایک ٹانگ سے محروم ہو گئے۔ ایک دن یہ مہمان خانہ میں انہیں دیکھنے کے لیے جانے لگے تو اچانک بنو عبس قبیلے کا ایک وفد ملاقات کے لیے پہنچ گیا ؛آپ نے اس سے اندر بلا لیا ۔
کیا دیکھتے ہیں کہ وفر میں ایک نابینا شخص بھی شامل ہے ۔خلیفہ نے اس سے پوچھا کہ آپ کی نظر کو کیا ہوا اس نے بتایا :
امیرالمومنین قبیلہ بنو عبس میں سب سے زیادہ مال و منال اور اہل و عیال
میرے پاس تھا ۔ میں اپنا سب کچھ ہمراہ لے کر اپنے قبیلے کے علاقے میں گیا اور ایک نشیبی جگہ پڑاؤ کیا رات کے وقت اچانک ہولناک سلاب آیا۔ اور وہ سب کچھ بہا کر لے گیا۔ صرف ایک نومولود بچہ اور ایک اونٹ میرے ہاتھ لگے ۔ اونٹ مونہہ زور تھا ۔ وہ رسی چھڑا کر بھاگ نکلا میں بچے کو زمین پر لٹا کر اونٹ پکڑنے کے لیے اس کے پیچھے بھاگا ۔ تو مجھے بچے کی چیخنے کی آواز آئی مڑ کر دیکھا تو یہ دہشت ناک منظر دکھائی دیا کے ایک خونخوار بھیڑیا بچے کے سر کو اپنی خونی مونہ میں دبائے کھڑا ہے ۔ اور بچہ زور سے چلا رہا ہے میں اسے چھڑانے کے لیے سرپٹ اس کی طرف دوڑا لیکن میرے وہاں پہنچنے سے پہلے وہ میرے لخت جگر کا سرچباچکا تھا ۔جب میں اسے وہیں چھوڑ کر اونٹ پکڑنے کے لیے بھاگا ؛ابھی اونٹ کے قریب پہنچا ہی تھا کہ اس نے زور سے مجھے لات ماری جو میری پیشانی پر لگی اور اس کی ہڈی ٹوٹ گئی ۔اور نظر جاتی رہی ۔تو اس طرح میں ایک ہی رات میں اہل و عیال مال و منال اور بصارت جیسی عظم نعمت سے محروم ہو گیا۔
خلیفہ المسلمین ولید بن عبدالملک نے یہ درد بھری داستان سن کر آہ بھری اور اپنے دربان سے کہا :اسے ہمارے معزز مہمان عروہ بن زبیر کے پاس لے جاؤ ۔ تاکہ وہ ان کی داستان غم سن کر اندازہ لگائیں کہ ان سے بھی بڑھ کر اس دنیا میں دکھی اور مصیبت ذده انسان موجود ہیں.
جب حضرت عروہ بن زبیر کو شاہی سواری پر اعزاز و اکرام
کے ساتھ مدینہ منورہ لے جایا گیا آپ نے اپنے گھر میں داخل ہونے سے پہلے اہل خانہ کو مخاطب ہوکر کہا :جو تم دیکھ رہے ہو اس سے گھبرانا نہیں اللہ تعالی نے مجھے چار بیٹے عطا کیے ایک اس نے لے لیا تین ابھی باقی ہیں اس کا شکر ہے۔ اللہ نے مجھے چار اعضاء عطا کیے ایک اس نے لے لیا ابھی تین باقی ہیں۔
اس کا شکر ہے ۔واللہ!اس نے تھوڑا لیا ہے اور زیادہ میرے پاس باقی رہنے دیا ہے اس نے زندگی میں صرف ایک ہی مرتبہ آزمائش میں ڈالا ہے اور بے شمار آفات سے مجھے بچایا ہے.
جب اہل مدینہ کو اپنے ہردلعزیز امام اور جيد عالم دین ؛فقيد المثال محدث ؛اور قابيل رشک فقيہ کی آمد کا پتا چلا تو جوق درجوق ان کی زیارت کے لئے حاضر ہوۓ۔
سب نے بیٹے کی تعزیت کی اور انہیں ٹانگ کی محرومی پر دلاسہ دیا۔ حاضرین میں سب سے بہترین تعزیتی کلمات ابراہیم محمد بن طلحہ کے تھے؛اس نے ملاقات کے وقت درد بھرے انداز میں کہا۔
جناب من! آپ کے جسم کا ایک حصہ اور آپ کی اولاد میں سے ایک بیٹا آپ سے پہلے جنت میں پہنچ چکے ہیں اور باقی ماندہ بھی انشاءاللہ جنت میں جائیں گے لیکن اللہ تعالی نے آپ کی جانب سے ہمارے لئے وہ چیز باقی رہنے دی جس کے ہم محتاج تھے؛ اور اس سے ہم کبھی بھی مستغنی نہیں ہو سکتے تھے ۔ اور وہ ہے آپ کا علم؛ فقہ اور جپی تلی ہوئی رائے اللہ تعالی آپ کو اور ہمیں ان قیمتی اوصاف سے فائدہ پہنچائے – اللہ آپکو اجرو ثواب دینے پر قادر ہے – اور آپ کے حسن حساب کا ضامن ہے –
حضرت عروہ بن زبیر رحتمہ اللہ علیہ زندگی بھر مسلمانوں کے لیے مینارہ ہدایت فلاح و بہبود کے سنگ میل اور خیرو بھلائی کے داعی رہے – انہوں نے اپنی اولاد کی تربیت کا خصوصی طور پر اور ابنائے اسلام کی تربیت کا عمومی طور پر اہتمام کیا – اور انہیں پندو نصائح کرنے میں کوئی وقیقہ فرد گزاشت نہیں کیا کرتے تھے – یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹوں کو علم حاصل کرنے کی بار بار ترغیب دلائی – آپ اکثر یہ کہا کرتے تھے –
میرے پیارے بیٹوں علم حاصل کرو اور اس کا حق ادا کرو اگر تم اپنی قوم میں کمزور بھی ہوئے تو اللہ تعالیٰ علم کی برکت سے تمہیں ممتاز بنا دے گا – پھر آہ بھر کر کہنے لگے –
ہائے افسوس ‘ کیا دنیا میں جاہل سے بڑھ کر کوئی بدبخت ہو گا – ہر گز نہیں!
وہ اپنی اولاد کو اس بات کی تلقین کیا کرتے تھے, کہ اللہ کی راہ میں صدقہ اس طرح دیا کرو جس طرح ہدیہ یا تحفہ کسی عزیز کو پیش کیا جاتا ہے –
میرے پیارے بیٹو کبھی بھی راہ خدا کوئی ایسی چیز بطور صدقہ نہ دینا جو تم اپنی قوم کے عزیز کو دیتے ہوئے شرماؤ –
اللہ تو بڑی عزت, شان و شوکت اور جاہ و جلال والا ہے اس کی عظمتوں کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ وہ چیز بھی اس کے نام پر دی جائے , وہ بھی قابل قدر دلربا, پسندیدہ اور ہر لحاظ سے عمدہ اور دیدہ زیب ہو –
وہ اپنے بیٹوں کی راہنمائی معاشرے میں بسنے والے لوگوں کی مثالیں دے دے کر کیا کرتے تھے – اور ان میں قابل جوہر کے اوصاف اپنانے کی تلقین کیا کرتے تھے –
وہ اکثر یہ فرمایا کرتے –
میرے پیارے بیٹو : جب کسی شخص کو اچھا کام کرتے دیکھو- تو تم اس سے خیرو بھلائی کی ہی امید رکھا کرو – اگرچہ وہ شخص لوگوں کی نظروں میں برا ہی کیوں نہ ہو – کیونکہ اس سے مزید اچھے کاموں کی توقع رکھی جا سکتی ہے – اور جس شخص کو برا کام کرتے دیکھو اس سے اجتناب کرواگرچہ وہ لوگوں کی نظر میں اچھا آدمی کیوں نہ ہو – کیونکہ اس سے کسی وقت بھی کوئی اور بھلائی سرزد ہو سکتی ہے –
میرے پیارے بیٹو! خوب اچھی طرح یہ بات دلنشین کر لو , کیونکہ ایک نیکی مزید بہت سی نیکیوں کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے اور ایک برائی مزید کئی ایک برائیوں کو جنم دینے کا باعث بنتی ہے –
وہ اپنے بیٹوں کو تواضع , انکساری, حسن سلوک خوش گفتاری اور خندہ پیشانی سے رہنے کی تلقین کیا کرتے تھے وہ یہ بھی فرمایا کرتے –
میرے بیٹو : حکمت و دانائی کے ضمن میں یہ بات طے شدہ ہے جس کی بات میں مٹھاس ہو, چہرے پہ مسکراہٹ کی ہر دم چمک ہو وہ لوگوں میں اس شخص سے زیادہ پسند کیا جاتا ہے جو ان پر بے دریغ مال خرچ کرتا رہتا ہے جب دیکھتے کہ لوگ عیش و عشرت کی طرف مائل ہو رہے ہیں ‘ اور نازو نعم کے دلدادہ ہو چکے ہیں تو انہیں شاہ امم سلطان مدینہ ﷺکی سادہ اور مصائب و مشکلات سے بھر پور زندگی یاد دلاتے , مدینہ منورہ میں رہنے والے ایک معروف تابعی جناب محمد بن منکرر بیان کرتے ہیں کہ حضرت عروہ بن زبیر رحمتہ اللہ علیہ مجھے ملے انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور فرمایا –
اے ابو عبد اللہ –
میں نے کہا جی –
*فرمایا :*
میں ایک دفعہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا – انہوں نے مجھے دیکھ کر فرمایا :
بیٹا : میں نے کہا جی اماں حضور !
*فرمایا :*
اللہ کی قسم شاہ امم سلطان مدینہ ﷺکے گھر چالیس چالیس راتیں آگ نہیں جلتی تھی نہ چراغ روشن ہوتا اور نہ چولہا جلتا میں نے ادب سے عرض کیا – اماں حضور تو پھر کس طرح آپ کا گزارہ ہوا کرتا تھا –
*فرمایا :*
بس کھجور اور پانی سے ہم گزارہ کیا کرتے تھے –
حضرت عروہ بن زبیر رحمتہ اللہ نے زندگی کی اکہتر بہاریں دیکھیں جو اللہ کے فضل و کرم سے خیرو برکت امن و آشتی اور نیکی و بھلائی سے بھر پور تھیں – آپ زندگی بھر تقوے کا زریں تاج زیب سر کئے رہے, جب آخری وقت آیا – تو آپ کا روزہ تھا – ایل خانہ نے روزہ افطار کرنے کے لیے کہا لیکن آپ نہ مانے –
آپ کی دلی خواہش تھی , کہ میں روزہ حوض کوثر کے پانی سے شیشے کے جلتی برتن میں حورعین کے ہاتھ سے لے کر افطار کروں –
ان کی یہ تمنا پوری ہوئی اللہ اس پہ راضی اور وہ اپنے اللہ پہ راضی –
حضرت عروہ بن زبیر رحمتہ اللہ کے مفصل حالات زندگی معلوم کرنے کے لیے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ کریں –
١- الطبقات الکبری ابن سعد۔
١-٤٠٦
٢-/ ٣٨٢- ٣٨٧
٣-/ ١٠٠
٤-/ ١٦٧
٥-/ ٣٣٤
٨-/ ١٠٢
٢- حلیتہ الاولیاء ابو نعیم اصفہانی , ٢/ ١٧٦
٣- صفتہ الصفوۃ ابن جوزی,
٢/ ٨٧
٤- وفیات الاعیان ابن خلکان, ٣/ ٢٥٥
٥- انساب الاشراف علامہ بلاذری, دیکھیے فہرست
٦- جمھرۃ انساب العرب : ابن حزم
حوالہ:
“کتاب: حَياتِ تابِعِين کے دَرخشاں پہلوُ”
تالیف: الاستاذ ڈاکتور عبد الرحمان رافت الباشا
ترجمه: محمود غضنفر