04. Hazrat Rabee’ bin Khusaym (رحمہ اللہ تعالی)
حضرت ربیع بن خثیم (رحمہ اللہ تعالی)
اے ابو یزید
اگر تجھے رسول ﷺ دیکھ لیتے تو ضرور تجھ سے پیار کرتے۔
(عبد اللّٰہ بن مسعود رضی اللہ عنہ)
حضرت ہلال بن اسافؒ نے اپنے مہمان منزربن یعلی ثوری ؒ سے کہا: کیا میں آپ کو شیخ ربیع بن خثیم کی زیارت کے لیے نہ لے چلوں؟
تاکہ چند گھڑی ان سے ایمان و یقین کی باتیں ہوں۔
منزرؒ نے کہا کیوں نہیں ضرور چلیں ، میں تو کوفہ آیا ہی اس لیے ہوں تاکہ آپ کے محترم شیخ ربیع بن خثیم کی زیارت کر سکوں اور کچھ عرصہ ایمان و یقین کے دلآویز ماحول میں گزارنے کی سعادت حاصل ہو سکے لیکن کیا ہمیں زیارت کی اجازت بھی مل سکے گی؟ کیونکہ مجھے پتہ چلا ہے کہ جب سے ان پہ فالج کا حملہ ہوا ہے۔ وہ اپنے گھر کے ہی ہو کر رہ گئے ہمیشہ وہیں یاد الٰہی میں مصروف رہتے ہیں اور لوگوں سے ملاقات میں قدرے دلچسپی نہیں رکھتے ۔
ہلال بن اساف بولے ! بات تو آپ کی درست ہے جب سے وہ کوفہ میں فروکش ہوئے ہیں ان کا طرز عمل ایسا ہی دیکھنے میں آیا ہے لیکن بیماری نے چنداں کوئی تبدیلی نہیں کی ہے۔
حضرت منزرؒ نے کہا تو پھر ان کے پاس جانے میں کوئی حرج نہیں لیکن آپ کو معلوم ہونا چاہیئے ان مشائخ کے مزاج بڑے ہی نرم و نازک ہوا کرتے ہیں آپ کی رائے کیا ہےکہ دوران ملاقات ہم شیخ سے سوالات
کریں یا خاموشی سے بیٹھیں اور وہ جو اپنی مرضی سے بات کریں وہی سنیں۔
حضرت ہلال بن اساف بولے۔
اگر آپ ربیع بن خثیمؒ کے پاس مکمل ایک سال تک بھی بیٹھے رہیں وہ نہیں بولیں گے جب تک تم خود ان سے بات نہیں کرو گے وہ قطعاً گفتگو میں پہل نہیں کریں گے کیونکہ ان کا کلام ذکر الہٰی پر مشتمل ہوتا ہے۔اور خاموشی غور و فکر پر مبنی ہوتی ہے۔
حضرت منزرؒ نے کہا پھر آئیے اللّٰہ کا نام لے کر ان کے پاس چلتے ہیں ۔ دونوں شیخ کے پاس گئے سلام عرض کی اور پوچھا جناب شیخ کیا حال ہے؟
فرمایا:حال کیا پوچھتے ہو ایسا ناتواں ، کمزور اور گنہ گار ہوں جو اپنے اللہ کا رزق کھاتا ہوں اور اپنی موت کا منتظر ہوں حضرت ہلال ؒ بولے کوفہ میں ایک ماہر طبیب آیا ہے اجازت ہو ، تو علاج کے لیے بلالیں؟
فرمایا: ہلال ؒ میں جانتا ہوں کہ دواء برحق ہے علاج کرانا سنت ہے ، لیکن میں نے عاد ، ثمود ، اصحاب رس اور انکے درمیان آنے والی قوموں کے حالات کا بغور جائزہ لیا ہے ۔ میں نے دنیا میں ان اقوام کے لالچ اور دنیاوی سازو سامان میں ان کی حریصانہ دلچسپی کو دیکھا ہے وہ ہم سے زیادہ طاقت ور اور صاحب حیثیت تھے ان میں ماہر اطباء بھی موجود تھے ۔ وہ لوگ بیمار بھی ہوتے تھے ۔ اب دیکھئے نہ کوئی معالج رہا نہ کوئی مریض سب فنا ہوگئے ان کا نام و نشان نہ رہا پھر گہری اور لمبی سوچ کے بعد فرمایا : ہاں ایک بیماری ایسی ضرور ہے جس کا علاج ضرور کرانا چاہیے حضرت منزرنے مئودبانہ انداز میں پوچھا وہ کونسی بیماری ہے۔
فرمایا: اس روحانی بیماری کا نام ہے “گناہ”
پوچھا:۔ اس کا علاج کس دواء سے کیا جائے۔
فرمایا: استغفار سے۔
حضرت منزرؒ نے پوچھا شفا کیسے ہو گی؟
فرمایا: ایسی سچی توبہ کی جائے کہ وہ پھر گناہ دوبارہ نہ ہو ۔ پھر ہماری طرف غور سے دیکھا اور بڑے زوردار انداز میں فرمایا پوشیدہ انداز میں کیے گئے گناہ لوگوں کی نظروں سے تو مخفی رہتے ہیں۔لیکن اللّٰہ تعالیٰ کے سامنے تو وہ ظاہری ہوتے ہیں ، کیونکہ اس کے سامنے تو کوئی چیز مخفی نہیں وہ علام الغیوب ہے ، وہ سینوں کے بھید خوب اچھی طرح جانتا ہے۔
چھپ کر گناہ کرنا ایک خطرناک روحانی بیماری ہے ۔ اس کی دواء تلاش کرو ۔ حضرت منزرؒ نے پوچھا : آپ خود ہی بتا دیجیے اس کی دواء کیا ہے
فرمایا : خالص اور سچی توبہ ہے جسے تو بتہ النصوح کہتے ہیں ، پھر زارو قطار رونے لگے یہاں تک کہ ان کی داڑھی مبارک آنسوؤں سے بھیگ گئی۔
حضرت منزرؒ نے یہ عجیب منظر دیکھ کر کہا ۔ محترم بڑا تعجب ہے آپ رو رہے ہیں ، حالانکہ آپ کی عبادت ، تقوی خشیت اور اخلاص کا ہر طرف چرچا ہے۔
فرمایا : صدافسوس ہا ئے غم۔
بھلا میں کیوں نہ روؤں میں نے بچشم خود ایسی عظیم قوم کو دیکھا ہے کہ ہم ان کے مقابلے میں بونے نظر آتے ہیں ۔ یعنی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی مقدس جماعت حضرت ہلال بیان کرتے ہیں ، کہ ہم بیٹھے شیخ محترم سے بات کر رہے تھے ۔
اتنے میں ان کا بیٹا اندر آیا پہلے اس نے ادب سے سلام کیا پھر کہا۔
ابا جان امی نے آپ کے لیے بہت عمدہ میٹھا اور لزیز پکوان تیار کیا ان کی دلی خواہش ہےکہ آپ اس میں سے کچھ ضرور تناول کریں ۔ اجازت ہو تو میں لے آؤں فرمایا لے آؤ ۔ جب بیٹا وہ عمدہ پکوان لانے کے لیے کمرے سے باہر نکلا تو ایک سوالی نے دروازہ کھٹکھٹایا آپ نے کہا اسے اندر بلا لو میں نے دیکھا کہ ایک پراگندہ حال بوڑھا آدمی پھٹے پرانے کپڑے پہنے جھومتا ہوا اندر آرہا ہے اور اس کے مونہہ سے رالیں ٹپک رہی ہیں چہرے مہرے سے وہ مجذوب نظر آرہا تھا ۔ وہ صحن میں کھڑا ہو گیا ۔ میں ابھی حیرت و استعجاب میں ڈوبا ہوا اس بیچارے کو دیکھ رہا تھا اتنے میں شیخ کا بیٹا ایک بڑے تھال میں میٹھا پکوان لے آیا شیخ نے اپنے بیٹے سے کہا یہ تھال اس سوالی مجذوب کے سامنے رکھ دو ۔ اس نے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے تھال اس کے سامنے رکھ دیا ۔ تو وہ شخص اس پر ٹوٹ پڑا حالت یہ تھی کہ اس کی رالیں کھانے پر گر رہی تھیں اور بدستور کھانے میں جتا ہوا تھا یہاں تک کہ وہ تھال کو چٹ کر گیا ۔ بیٹے نے بڑی افسردگی سے کہا : اباجان اللّٰہ کی بے پناہ رحمتیں آپ پر نازل ہوں امی نے تو بڑے جتن سے یہ پکوان آپ کے لیے تیار کیا تھا ہماری دلی خواہش تھی کہ آپ تناول کرتے لیکن آپ نے ایک ایسے شخص کو یہ کھلا دیا جسے اتنا بھی پتہ نہیں کہ اس نے کیا کھایا اور اس کا مزا کیا تھا۔
شیخ نے فرمایا:
بیٹا اگر یہ شخص نہیں جانتا تو کیا ہوا ہمارا پروردگار اللّٰہ تو جانتا ہے پھر قرآن مجید کی کی یہ آیت تلاوت کی ۔
*لن تنالوا البر حتی تنفقوا مما تحبون،*
آل عمران ۔٩٢
یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ شیخ کا ایک قریبی رشتہ دار آیا اور اس نے یہ اندوہناک خبر دی کہ حضرت حسینؓ کو میدان کربلا میں شہید کر دیا گیا ہے ، شیخ نے یہ غمناک خبر سن کر کہا:
انا للّٰہ وانا الیہ راجعون اور ساتھ ہی قرآن مجید کی یہ آیت پڑھی۔
*قُلِ اللّٰہُمَّ فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ عٰلِمَ الۡغَیۡبِ وَ الشَّہَادَۃِ اَنۡتَ تَحۡکُمُ بَیۡنَ عِبَادِکَ فِیۡ مَا کَانُوۡا فِیۡہِ یَخۡتَلِفُوۡنَ ﴿۴۶﴾-الزمر-٤٦*
شیخ کی زبان مبارک سے صرف اتنی سی بات سن کر تسلی نہ ہوئی ۔ تو اس نے دریافت کیا: حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے۔
فرمایا : ان سب کو اللّٰہ ہی کی طرف لوٹنا ہے اور وہی ان کا حساب لے گا۔ حضرت ہلالؒ فرماتے ہیں میں نے دیکھا کہ ظہر کا وقت قریب آرہا ہے سلسلہ کلام منقطع ہو جائے گا میں نے عرض کیا : جناب مجھے کوئی نصیحت کیجئے ۔
آپ نے فرمایا ، اے ہلال لوگوں کے منہہ سے اپنی تعریف سن کر کہیں دھوکہ نہ کھا جانا ، لوگ تو صرف تیرے ظاہر کو دیکھتے ہیں تیرے باطن کا ان کو کیا علم : دیکھو میری یہ بات پلے باندھ لو تم اپنے عمل کی جانب رواں دواں رہو ، اور ہر وہ عمل جو اللّٰہ کی رضا کے لیے نہ کیا جائے وہ بے کار ہے وہ اکارت جائے گا اس کی کوئی قدرو قیمت نہیں ۔
حضرت منزرؒ نے کہا مجھے بھی کوئی نصیحت کیجئے اللّٰہ آپ کو جزائے خیر عطا کرے۔
فرمایا: اپنے علم کے مطابق اللہ سے ڈرو جس چیز کا تجھے علم نہ ہو اسے کسی عالم کے سپرد کرو اور خود بھی اسی کی طرف رجوع کرو۔
اے منزر کبھی ایسا نہ کہنا کہ میں اللّٰه کی طرف رجوع کرتا ہوں ۔ اگر رجوع نہ کیا یہ جھوٹ لکھا جائے گا ۔ بلکہ ہمیشہ یہ دعاکرو۔
اے اللّٰه میری طرف رجوع فرما میں درماندہ و بے کس ہوں مجھے معاف کردے اور اس طرح کبھی تو جھوٹا نہ ہو گا۔
اے منزر خوب اچھی طرح جان لو: انسانی گفتگو میں لا الہ الا اللّٰہ الحمدللہ ، اللّٰہ اکبر سبحان اللہ ، خیر کی طلب ، شر سے پناہ، نیکی کے حکم برائی سے روکنے اور قرآن مجید کی تلاوت کے علاوہ کسی اور بات میں خیروبرکت نہیں ہے ۔ دین کی بات کرو ورنہ خاموش رہو۔
حضرت منزرؒ بولے : جناب ہم اتنی دیر آپ کے پاس بیٹھے آپ کی قیمتی باتوں اور دلپذیر نصیحتوں سے فیضیاب ہوئے ۔ لیکن آپ نے اپنی گفتگو کے دوران کوئی شعر نہیں پڑھا حالانکہ آپکے ہم عصر بطور استدلال گفتگو کے دوران شعر پڑھتے ہیں ۔ اس کی کیا وجہ ہے؟
شیخ نے فرمایا ، جو بھی اس دنیا میں کہا جاتا ہے اسے فوراً لکھ لیا جاتا ہے اور وہ قیامت کے دن پڑھ کر سنایا جائے گا میں نہیں چاہتا کہ میرے نامہ اعمال میں شعر لکھا جائے ، اور قیامت کے دن وہ مجھے پڑھ کر سنایا جائے ۔
پھر فرمایا: سنو ! اپنی موت کو کثرت سے یاد کیا کرو ۔ وہ پردہ غیب میں ہر دم تمھاری منتظر ہے ، جب نگاہوں سے اوجھل کسی پیارے کی غیر حاضری طویل ہو جاتی ہے تو اس کا واپس لوٹنا قریب ہو جاتا ہے اور گھر والے ہر دم اس کی راہیں تکتے رہتے ہیں ، یہ کہہ کر وہ اتنا روئے کی آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی ، پھر فرمایا:
کل جب شدید زلزلے میں زمین کو ریزہ ریزہ کر دیا جائے گا پروردگار غیض و غضب میں ہوگا فرشتے صف باندھے کھڑے ہونگے ، اور جہنم کو لا حاضر کیا جائے گا بتاؤ پھر ہم کیا کر سکیں گے ، حضرت ہلال بیان کرتے ہیں کہ جب شیخ ربیع ؓ نے بات ختم کی ادھر ظہر کی اذان ہونے لگی بیٹے سے کہا آؤ چلیں اللّٰہ کا بلاوا آگیا ہے بیٹے نے ہم سے کہا اباجی کو سہارا دینے میں میرا ساتھ دیجیے ، دائیں طرف سے بیٹے نے سہارا دیا اور بائیں طرف سے میں نے اور ہم انہیں کے کر مسجد کی طرف چلے حالت یہ تھی کہ شیخ کے دونوں پاؤں زمین میں گھسٹتے جا رہے تھے۔
حضرت منزر ؒ نے کہا :
جناب ابو یزیدؒ آپ معذور ہیں اللہ کی طرف سے آپ کو رخصت ہے ۔ آپ نماز گھر میں ہی پڑھ لیتے فرمایا :
آپ ٹھیک کہتے ہیں ۔ لیکن میں نے مؤزن کو یہ کہتے ہوئے سنا ، آؤ کامیابی کی طرف دوڑو کامرانی کی طرف جو شخص کامیابی و کامرانی کی طرف بلائے اس کی آواز پہ لبیک کہتے ہوئے جانا چاہیے خواہ گھٹنوں کے بل چل کر کیوں نہ جانا پڑے۔
کیا آپکو معلوم ہے کہ ربیع بن خشیم ہیں کون ؟
یہ کبار تابعین میں سے تھے یہ اپنے دور میں آٹھ افراد میں سے تھے جن میں زہدو تقی انتہا درجے کا پایا جاتا تھا –
یہ خالص عربی تھے , اور خاندانی اعتبار سے مضر پہ جا کر ان کا سلسلہ نسب نبی اکرمﷺکے ساتھ مل جاتا تھا بچپن سے ان کی تربیت اللّٰہ کی اطاعت کے ماحول میں ہوئی لڑکپن تقوی کے ماحول میں گزرا رات کے وقت ان کی والدہ سو جاتی صبح اٹھتی تو کیا دیکھتی کہ اس کا بیٹا گھر کے ایک کونے میں ہاتھ باندھے کھڑا اللّٰہ تعالیٰ سے سرگوشیاں کرنے میں محو ہے , دنیا دمافیھا سے بے نیاز نماز میں مستغرق ہے , محبت و شفقت سے بھر پور لہجے میں آواز دیتی بیٹے ربیع تجھے کیا ہوا ؟
کیا نیند نہیں آتی : میرے پیارے بیٹے اب تو سو جاؤ – وہ جواب دیتے اماں جان !
بھلا وہ شخص کیسے ہو سکتا ہے جس پہ رات کی تاریکی چھا گئی ہو – اور اسے دشمن کے حملے کا اندیشہ ہو یہ سن کر بوڑھی اماں کے آنسو بہنے لگے اور اس نے بیٹے کو دعائیں دیں –
جب حضرت ربیعؒ جوان ہوئے تو ان کے ساتھ تقوی بھی توانا و جوان ہوا – اور خشیت الٰہی کا جزبہ بھی اسی طرح پروان چڑھا –
رات کی تاریکی میں جبکہ لوگ گہری نیند سوئے ہوئے تھے وہ اس قدر گڑ گڑاتے اور گریہ زاری کرتے کہ ان کی گھگھی بندھ جاتی – بوڑھی اماں کو اپنے لاڈلے بیٹے کی حالت پر ترس آنے لگتا :
اور اندیشہ ہائے دروں میں مبتلا ہو کر آواز دیتی : میرے پیارے بیٹے ماں صدقے تجھے ہوا کیا ہے ؟
کیا کوئی جرم کر بیٹھے ہو کیا کسی کو قتل کیا ہے :
ماں نے گھبراہٹ میں پوچھا بیٹا مجھے بتاؤ مقتول کون ہے , بتاؤ کسے قتل کر بیٹھے ہو – تاکہ ہم اس کے ورثاء کی منت سماجت کریں – ہو سکتا ہے وہ تجھے معاف کر دیں – بخدا اگر مقتول کے وارث تیری آہوں سسکیوں اور گریہ زاریوں کو دیکھ لیں مجھے امید ہے وہ تجھے معاف کردیں گے –
اس نے کہا – اماں جان آپ ان سے بات نہ کریں میں نے اپنے آپ کو قتل کیا ہے – ماں نے پوچھا کیسے ؟
فرمایا گناہوں سے اپنے آپ کو قتل کیا ہے –
حضرت ربیع بن خشیمؒ حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ عنہ کے شاگرد رشید تھے – اور حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ عنہ خوب صورت اور شکل و صورت میں تمام صحابہ سے بڑھ کر رسول اقدس ﷺ سے مشاہبت رکھتے تھے حضرت ربیع رضی اللّٰہ عنہ کے اپنے استاذ عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ عنہ کے ساتھ تعلقات و روبط ایسے ہی تھے جیسے ایک فرمانبردار بیٹے کے اپنے والد سے ہوتے ہیں – استاذ بھی اپنے شاگرد سے ایسے ہی پیار کرتے جیسے باپ اپنے اکلوتے بیٹے سے پیار کرتا ہے –
لہذا حضرت ربیعؒ اپنے استاذ کے ہاں بلا اجازت آجایا کرتے تھے , حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللّٰہ عنہ جب ربیع بن خشیم کے دل کی صفائی – اخلاص اور حسن عبادت کو دیکھتے تو دل میں حسرت پیدا ہوتی – کاش میرا یہ شاگرد نبی اکرم ﷺ کی زندگی میں ہوتا , انہیں اس تا خیر زمانی کا افسوس ہوتا , یہ فرمایا کرتے تھے :
اے ابو یزید اگر تجھے رسول اللّٰہﷺ بچشم خود دیکھ لیتے تو یقینا تجھ سے محبت کرتے – اور یہ بھی فرمایا کرتے –
اے ربیع جب بھی تجھے دیکھتا ہوں اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں خشوع خضوع کرنے والے لوگ یاد آجاتے ہیں –
اس سلسلہ میں حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ عنہ کوئی مبالغہ آرائی سے کام نہیں لیتے تھے – بلکہ واقعہ یہ ہے کہ حضرت ربیع بن خشیم رحمتہ اللّٰہ خشیت الٰہی , تقوی و پاکیزگی کے اس اعلی وارفع مقام پر فائز تھے کہ اس طبقے میں کوئی بھی اس کا ثانی نہ تھا – ان سے اس سلسلے میں ایسے واقعات منقول ہیں جو ہمیشہ اسلامی تاریخ کے صفحات میں مثل آفتاب و مہتاب چمکتے دمکتے رہیں گے ان کا ایک مخلص قریبی ساتھی بیان کرتا ہے میں حضرت ربیع بن خشیم کے ساتھ بیس سال رہا میں نے اسے ہمیشہ وہی بات کرتے سنا جسے فرشتے احترام سے لے کر آسمان کی طرف چڑھتے ہیں پھر یہ آیت تلاوت کی –
الیہ یصعد الکلم الطیب والعمل الصالح یرفعہ-
عبدالرحمان بن عجلان بیان کرتے ہیں میں ایک رات حضرت ربیعؒ کے پاس سویا جب انہیں یقین ہو گیا کہ میں گہری نیند سو گیا ہوں انہوں نے نماز پڑھنا شروع کر دی اور نماز میں یہ آیت اونچی آواز میں پڑھنے لگے-
ام حسب الذین اجترحوا السیات ان نجعلھم کالالذین آمنو وعملوا الصالحات سواء محیاھم ومماتھم ساء ما یحکمون –
ترجمہ :
وہ لوگ گمان کرتے ہیں جنہوں نے گناہ کئے کہ ہم ان کو بنا دیں گے ان لوگوں جیسا جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے – برابر ہے ان کا جینا اور مرنا بہت برا ہے جو کہتے ہیں –
وہ رات بھر نماز میں بار بار یہی آیت پڑھتے رہے اور زارو قطار روتے رہے –
حضرت ربیعؒ کے خوف خدا اور خشیت الٰہی کے متعلق بھی بہت سے واقعات مشہور ہیں ان میں سے ایک دردانگیز یہ واقعہ ان کے قریبی ساتھیوں نے بیان کیا فرماتے ہیں کہ ہم دریائے فرات کے کنارے پر پہنچے وہاں ایک جلتی ہوئی لوہے کی بھٹی کو دیکھا جس میں سے آگ کے شرارے اوپر اٹھ رہے تھے آگ میں تیزی پیدا کرنے کے لیے پتھر کا کوئلہ اس میں استمعال کیا جا رہا تھا , جب حضرت ربیع نے آگ کا یہ منظر دیکھا تو وہیں ٹھر گئے, جسم میں لرزہ طاری ہو گیا – اس طرح کپکپائے کہ ہم گبھرا گئے –
اس منظر سے متاثر ہو کر وہ قرآن مجید کی یہ آیت پڑھنے لگے –
اذا راتھم من مکان بعید سمعو الھا تغیظا و زفیرا و اذ لقوا فیھا مکانا ضیقا مقرنین دعوا ھنالک ثبورا ۔
پڑھتے پڑھتے غشی کھا کر گر پڑے ہوش آنے تک ہم وہیں بیٹھے رہے،پھر ہم نے انہیں گھر پہنچایا ۔
حضرت ربیع بن خشیمؒ نے اپنی پوری زندگی موت کے انتظار میں گزار دی ، اور اللّٰہ تعالیٰ سے ملاقات کے لیے ہمہ دم تیار رہے ، جب موت کا وقت قریب آیا ، تو ان کی بیٹی آہ وذاری کرنے لگی اسے روتا دیکھ کر فرمایا : چپ کرو بیٹا روتی کیوں ہو ، تیرے باپ کو تو بہت بہتر چیز مل رہی ہے ، پھر انکی روح قفص عنصری سے پرواز کر گئی ۔
حضرت ربیع بن خشیمؒ رحمہ اللّٰہ کے لیے مفصل حالات زندگی معلوم کرنے کے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ کیجئے ۔
١-تہزیب التہذیب ابن حجر
٢-حلیتہ الاولیاء ابو نعیم اصفہانی ٢/ ١٠٥- ١١٨
٣-صفتہ الصفوة ٣/ ٥٩- ٦٨
٤- کتاب الزھد – احمد بن حنبل ٣٣٦
٥-العقد الفرید
٢-المعارف ابن قتیبہ دیکھئے فہرست
٧-جمہرة انساب العرب. ٢٠١
٨-الطبقات الکبریٰ ابن سعد ٦/ ١٠
حوالہ:
“کتاب: حَياتِ تابِعِين کے دَرخشاں پہلوُ”
تالیف: الاستاذ ڈاکتور عبد الرحمان رافت الباشا
ترجمه: محمود غضنفر