06. Hazrat Umar bin Abdul aziz aur uska farzand Abdul Malik (رحمہ اللہ تعالی)
حضرت عمر بن عبد العزیز
اور
اس کا فرزند عبد المالك( رضي الله عنه)
کیا آپ جانتے ہیں کہ ہر قوم میں ایک یکتائے روزگار شخصیت ہوتی ہے اور بنو امیہ کی یہ نادر شخصیت عمر بن عبدالعزیز ہے قیامت کے دن اس اکیلے کو امت کی صورت میں اٹھایا جائے گا۔
( محمد بن علی بن حسین)
جلیل القدر تابعی عمر بن عبد العزیز اپنے پیش رو خلیفہ عبد المالک بن سلیمان کی قبر پر مٹی ڈال کر ابھی اپنے ہاتھ جھاڑ ہی رہے تھے۔ کہ انہوں نے اپنے ارد گرد زمین پہ تھر تھراہٹ کی آواز سنی پوچھا یہ کیا ہے؟ پاس. کھڑے لوگوں نے بتایا: جناب آپکی سواری کے لئے یہ سرکاری گاڑیوں کی نقل و حرکت ہے۔ حضرت عمر بن عبد العزیز نے ان کی طرف ایک طائرانہ نگاہ ڈالی۔ اور اس شخص کی مانند کپکپاتی ‘ لرزتی اور دھیمی آواز سے بولے جسے تھکاوٹ نے لاغر کر دیا ہو یا مسلسل بیداری نے مضمحل کر دیا ہو۔ فرمایا۔ میرا ان گاڑیوں سے کیا واسطہ ۔ انہیں یہاں سے پیچھے ہٹا دو۔ میرے لئے میری ٹیچر کافی ہے وہ لاؤ میں اس پر سوار ہوں گا۔ ابھی ٹیچر پر بیٹھنا ہی چاہتے تھے کہ سیکورٹی گارڈ کا چاق و چوبند کمانڈر آپکے آگے آگے چلنے کے لئے آدھمکا۔ اور اس کے دائیں بائیں حفاظتی دستے کے گھبرو جوان تھے ‘ جن کے ہاتھوں میں چمکدار نیزے پکڑے ہوئے تھے ‘ ان کی طرف دیکھا اور فرمایا میرا ان سے کیا کام؟
میں امت مسلمہ کا ایک فرد ہوں ویسے ہی صبح و شام زندگی بسر کرتا ہوں۔ جس طرح دوسرے مسلمان بسر کرتے ہیں ‘ یہ کہہ کر آپ چل پڑے لوگ بھی آپ کے ہمراہ چل پڑے آپ مسجد میں آئے۔ اعلان کیا گیا کہ سب لوگ مسجد میں جمع ہو جائیں۔ اعلان سنتے ہی لوگ مسجد کی طرف روڑے اور ہر طرف سے گروہ در گروہ مسجد میں داخل ہونے لگے۔ جب مجمع بھر گیا تو آپ خطاب کے لئے کھڑے ہوئے حمد و ثنا اور صلوۃ و سلام کے بعد فرمایا لوگو! میری رائے لئے بغیر میرے ناتواں کندھوں پر خلافت کا بوجھ لاد دیا گیا ہے ‘ نہ میں نے کبھی اس کا مطالبہ کیا۔ نہ مسلمانوں سے اس کے متعلق مشورہ لیا گیا۔ اور نہ ہی خلافت کی اس اہم ذمہ داری کو اپنے لئے پسند کرتا ہوں۔
میری طرف سے تمہیں کھلی چھٹی ہے جسے چاہو اپنا خلیفہ منتخب کر لو۔ یہ سن کر مجمع بیک وقت باواز بلند پکار اٹھا۔ اے امیر المئومنین ہم آپ کو اپنا خلیفہ مانتے ہیں۔ ہم آپ پر راضی ہیں۔ آپ حکومت کی باگ ڈور سنبھالیں اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو گا۔ جب آپ نے یہ صورت حال دیکھی کہ کوئی ایک بھی آواز اس کے خلاف نہیں اٹھی سب اس پر مطمئن ہیں کہ میں مسند خلافت پر بیٹھوں ‘ ابھی لوگوں کا شور تھا۔ آپ نے دوبارہ حمد و ثناء اور درود و سلام پڑھا اور لوگوں کو تقوی اختیار کرنے ‘ دنیا سے بے نیازی برتنے اور آخرت کی فکر کرنے کی تلقین کی لوگوں کو اپنی موت یاد دلانے کے لیئے ایسے دلسوز لہجے میں تلقین کرنے لگے ‘ جس سے پتھر دل بھی موم ہو جائیں ‘ گنہگار آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑیں۔ انکی زبان مبارک سے نصیحت اموز کلمات نکل کر سننے والوں کے دلوں میں پیوست ہو رہے تھے۔ پھر آپ نے دلسوز ‘ تھکاوٹ نما لیکن قدرے بلند آواز میں کہا: جو حکمران اللہ کا فرمانبردار ہو اسکا کہا مانو اور جو اللہ کا نافرمان ہو اس کی بات ماننا تمہارے لئے ضروری نہیں، لوگو: سنو! جب میں اللہ تعالی کا فرمانبردار رہوں میری بات مانتے رہنا اور جب کبھی اللہ کی نافرمانی پر اتر آؤں تو تم میرے احکامات کو ٹھکرا دینا پھر منبر سے اترے سیدھے گھر گئے۔ اپنے کمرے میں جاکر کچھ دیر ستانے کے لئے بستر پر دراز ہوگئے ‘ چونکہ اپنے پیش رو خلیفہ کی وفات اور اس کے کفن دفن کی وجہ سے آپ بہت تھک چکے تھے۔
امیر المئومنین عمر بن عبد العزیز ابھی اپنے بستر پر پہلو کے بل لیٹے ہی تھے کہ ان کا سترہ سالہ فرزند ارجمند عبدالمالک کمرے میں داخل ہوا۔ اس نے کہا: امیر المئومنین آپ کیا کرنا چاہتے ہیں؟ فرمایا: بیٹا میں تھوڑی دیر سونا چاہتا ہوں بہت تھک چکا ہوں ‘ بیٹے نے کہا: امیر المئومنین کیا آپ مظلوم لوگوں کی داد رسی کے بغیر ہی سو جانا چاہتے ہیں؟ ان کا وہ مال جو ظلم و استبداد سے چھینا گیا ہے انہیں واپس کون دلائے گا؟ فرمایا: بیٹا چونکہ میں خلیفہ سلیمان کی وفات کی وجہ سے گذشتہ ساری رات جاگتا رہا۔ تھکاوٹ کی وجہ سے میرے جسم میں سکت نہیں۔ ان شاءاللہ تھوڑا آرام کرنے کے بعد نماز ظہر لوگوں کے ہمراہ پڑھوں گا اور پھر یقینا ؟مظلوموں کی داد رسی ہوگی اور ہر ایک کو اس کا حق دیا جائے گا کوئی محروم نہیں رہے گا۔ بیٹے نے کہا: امیر المئومنین اسکی کون ضمانت دیتا ہے کہ آپ ظہر تک زندہ رہیں گے۔ بیٹے کی یہ بات سن کر عمر بن عبد العزیز تڑپ اٹھے ، آنکھوں سے نیند جاتی رہی تھکے ہوئے جسم میں دوبارہ توانائی لوٹ آئی اور یکدم جست لگا کر بیٹھ گئے۔ اور فرمایا: بیٹا ذرا میرے قریب آؤ۔ بیٹا قریب ہوا تو اسے گلے لگا کر ماتھے کو چومنے لگے۔ اور فرمایا اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے ایسا ہونہار فرزند عطا کیا جو دینی اعتبار سے میرا معاون بنے گا۔ پھر آپ اٹھے حکم دیا کہ یہ اعلان کر دیا جائے جس پر کوئی ظلم ہوا ہے وہ اپنا مقدمہ خلیفہ کے سامنے آکر پیش کرے۔
یہ عبد الملک کون ہے؟ اس نوجوان کی داستان کیا ہے جس کے متعلق لوگوں کا خیال ہے کہ اس نے اپنے والد کو عبادت گذاری پر اکسایا زاہدوں کی راہ پر چلایا اور اولیاء کی صف میں لا کر کھڑا کر دیا۔ آئیے اب صالح نوجوان کی کہانی ابتدا سے آپکو سناتے ہیں۔
امیر المئومنین عمر بن عبد العزیز کے بارہ بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں ‘ تمام اولاد متقی پرہیز گار اور ہونہار تھی ‘ اپنے بہن بھائیوں میں عبدالملک درخشاں ستارہ اور گوہر آبدار تھا۔ علاوہ ازیں وہ بہت ذہین اور ماہر ادیب تھا۔ یوں تو وہ نوخیز جوان تھا لیکن عقل و دانش میں بوڑھوں کو بھی مات کرتا تھا۔ اس نے نیکی اور تقوے کے ماحول میں پرورش پائی ‘ اس میں خاندان فاروق اعظم کے اوصاف پائے جاتے تھے ‘ خاص طور پر تقوے پاکیزگی اور خشیت الہی میں حضرت عبد اللہ بن عمر کے ہم پلہ تھا۔
اس کا چچا زاد بھائی عاصم بیان کرتا ہے کہ میں ایک دفعہ دمشق کیا
اور وہاں اپنے چچیرے بھائی عبد الملک کے پاس ٹھرا ‘ ابھی اس کی شادی نہیں ہوئی تھی۔ ہم نے عشاء کی نماز پڑھی اور سونے کے لیے دونوں اپنے اپنے بستر پر دراز ہو گئے عبد الملک نے چراغ گل کر دیا ‘ .ہم دونوں نے اپنی آنکھیں نیند کے حوالے کیں۔ جب آدھی رات کو میری آنکھ کھلی تو کیا دیکھتا ہوں کہ عبد الملک اندھیرے میں کھڑا نماز پڑھ رہا ہے اور قرآن مجید کی یہ آیت تلاوت کر رہا ہے:
*افرايت ان مـتـعـنـاهـم سنين ○ ثم جاء هم ما كانوا يوعدون ○ ما أغنى عنهم ما كانوا يـمـتـعـون ○*
( الشعراء ۲۵ – ۲۷)
بھلا دیکھو تو اگر ہم انہیں برسوں فائدہ دیتے رہے۔ پھر ان پر وہ عذاب آواقع ہو جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا رہا، تو جو فائدے یہ اٹھا رہے، ہیں انکے کس کام آئیں گے.
میں نے دیکھا کہ وہ دل کو ہلا دینے والی گڑ گڑاہٹ اور آہ و زاری کے ساتھ بار بار اس آیت کی تلاوت کر رہا ہے اور زار و قطار روئے جا رہا ہے ‘ جب میں نے محسوس کیا کہ یہ آہ و زاری اس کا کام تمام کر دے گی۔ تو میں نے قدرے اونچی آواز سے لا الہ الا اللہ والحمد للہ کہا:
میں نے یہ جملہ اس انداز میں کہا جیسے کوئی نیند سے بیدار ہوتے وقت کہتا ہے۔ میری نیت یہ تھی کہ وہ میری آواز سن کر رونا بند کر دے ایسے ہی ہوا جب اس نے میری آواز سنی وہ خاموش ہو گیا ایسی چپ سادھ لی جیسے وہ کمرے میں موجود ہی نہیں۔
اس ہو نہار آل فاروق اعظم کے نوخیز جوان نے اپنے دور کے اکابر علماء سے کتاب و سنت کا علم حاصل کیا۔ قرآن و حدیث کے علوم سے اپنے سینے کو منور کیا دینی مسائل میں قیمہ کی مسند پر فائز ہوئے اور نو عمری کے باوجود شامی علماء و فقہاء پر فوقیت حاصل کی ایک مرتبہ امیر المومنین عمر بن عبد العزیز نے شامی علماء و فقہا کو اکٹھا کیا اور ان سے یہ مسئلہ دریافت کرتے ہوئے فرمایا: اے علماء کرام اور فقہائے عظام: میں تمہیں خوش آمدید کہتا ہوں۔
میرے خاندان میں سے جن اشخاص نے لوگوں کا مال ظلم و استبداد سے چھینا ہے ان کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟
سب نے یہ جواب دیا اے امیر المومنین یہ کام آپکے دور حکومت میں نہیں ہوا اس کی ذمہ داری آپ یہ نہیں آتی اس کا گناہ اس پر ہو گا۔ جس نے مال غصب کیا آپ بری الذمہ ہیں ‘ لیکن علماء کے اس بیان سے آپ مطمئن نہ ہوئے۔ ایک عالم جو دیگر علماء سے مختلف رائے رکھتا تھا۔ کہنے لگا امیر المومنین آپ اپنے فرزند ارجمند عبد الملک کو بلائیں۔ وہ ماشاء اللہ علم قصہ اور عقل و دانش میں ممتاز مقام رکھتا ہے۔ اس مسئلہ میں اس کی رائے دریافت کریں۔
اسے بلایا گیا۔ جب عبد الملک پیغام کے مطابق دربار خلافت میں پہنچا تو امیر المومنین نے کہا:
بیٹا ان اموال کے متعلق تیری کیا رائے ہے ‘ جو ہمارے چچا کے بیٹوں نے لوگوں سے چھینے ہیں؟ کیونکہ مظلوم لوگ اس وقت اپنا حق وصول کرنے کے لیے میرے پاس آئے ہوئے ہیں۔
بیٹے نے جواب دیا : ابا جان ان مظلوموں کی داد رسی کرتے ہوئے ان کا مال واپس لوٹانا آپ کا فرض ہے۔ اگر آپ نے ایسا نہ کیا۔ تو آپ بھی اس ظلم میں برابر کے شریک سمجھے جائیں گے۔ کیونکہ آپ کو اس ظلم کا علم ہو چکا ہے۔ لہذا اس سے گلو خلاصی آپ کا فرض ہے۔ یہ بات سن کر امیر المومنین عمر بن عبد العزیز کا چہرہ کھل اٹھا دلی اطمینان ملا اور وہ غم کافور ہوا جس نے آپ کو نڈھال کر رکھا تھا۔
خاندان فاروق اعظم کے عظیم سپوت نے دمشق کے پر رونق بازار لہلہاتے ہوئے ترو تازہ باغات ‘ سہانے دلکش ٹھنڈے سایہ دار درخت اور بل کھاتی ہوئی رواں دواں ندیوں کے دلفریب مناظر کو چھوڑ کر سنگلاخ سرحدی علاقے کو اپنی رہائش کے لئے منتخب کیا تاکہ ہر دم ہر گھڑی حالت جہاد میں رہنے کی سعادتیں حاصل ہوں۔ امیر المئومنین عمر بن عبد العزیز کو اس بات کا علم ہونے کے باوجود کہ اس کا بیٹا ہو نہار ‘ متقی مودب اور پر ہیز گار ہے پھر بھی انہیں اندیشہ لاحق رہتا کہ کہیں شیطان کے داؤ میں نہ آجائے وہ جوانی کی خرمستیوں سے بہت خوفزدہ تھے، وہ اپنے فرزند کے متعلق ہر طرح کی معلومات رکھتے اور اس سے کبھی غفلت نہ برتتے۔
میمون آپ ابھی دمشق جائیں۔ اور اچھی طرح اس چیز کا جائزہ لیں۔ کہیں میرے بیٹے کے دل میں تکبر نخوت اور خود پسندی جیسی قباحتیں تو نہیں پائی جاتیں۔ کیونکہ ابھی وہ بچہ ہے ‘ کہیں شیطان اس پر اپنا پنجہ نہ جمالے۔
جناب میمون بیان کرتے ہیں۔ میں دربار خلافت سے حکم پاکر دمشق کی طرف روانہ ہوا۔ راستوں کے نشیب و فراز سے گذرتا ہوا عبد الملک کے گھر پہنچا۔ اندر آنے کی اجازت طلب کی۔ میں نے دیکھا کہ خوبرو جوان رعنا بڑی انکساری کے ساتھ سفید قالین پر جلوہ افروز ہے۔ یوں معلوم ہو تا تھا جیسے آسمان سے زمین پر متلب اتر آیا ہے۔ اس نے آگے بڑھ کر مجھے خوش آمدید کہا: جب میں اس کے پاس بیٹھ گیا تو اس نے کہا میں نے ابا جان سے آپکی تعریف سنی ہے ‘ مجھے امید ہے کہ اللہ تعالی آپ کے ذریعے امت کے افراد کو فائدہ پہنچائے گا۔
میں نے کہا آپ کا کیا حال ہے؟ اس نے جواب دیا اللہ کا احسان اور شکر ہے میں بالکل ٹھیک ہوں لیکن مجھے ہر وقت یہ کھٹکا لگا رہتا ہے کہ کہیں مجھ سے کوئی ایسا کام سرزد نہ ہو جائے جس سے میرے والد محترم کے دل کو تھیں پہنچے اور مجھے یہ بھی اندیشہ ہے کہ کہیں ان کی میرے ساتھ محبت میرے متعلق درست معلومات حاصل کرنے میں رکاوٹ نہ بن جائے۔ اور
میں نے پوچھا کیا تیرے دل میں خود پسندی کے جذبات پائے جاتے ہیں؟
اس نے بتایا : ہاں میرے دل میں خود پسندی کے جذبات پائے جاتے تھے۔ لیکن جب سے ابا جان نے مجھے سمجھایا اور شفقت بھرے انداز میں مجھے اس قباحت سے باز رہنے کی تلقین کی۔ میں نے اسے اپنے دل سے بالکل نکال دیا ہے۔ اب میرا دل بالکل صاف ہے اور یہ ابا جان کا مجھ پہ بہت بڑا احسان ہے۔ اللہ میرے ابا جان کو جزائے خیر عطا کرے۔ میں عبد الملک کے پاس کافی دیر بیٹھا کھل کر باتیں ہوئیں ‘ دوران گفتگو بہت ہی مفید اور قیمتی معلومات حاصل ہوئیں میں نے اپنی زندگی میں اس سے بڑھ کر
میں پوچھا یہ کس کام سے فارغ ہوئے ہیں؟
اس نے بتایا: حمام سے۔
میں نے پوچھا وہ کیسے؟
اس نے بتایا۔ کہ انہوں نے میرے لیے غسل خانہ خالی کروایا ہے ، اب میں اس میں نہاؤں گا۔
میں نے کہا: جناب یہ سن کر مجھے حیرت ہوئی ہے۔ آپ سے مجھے یہ توقع نہ تھی۔
میرا یہ انداز دیکھ کر وہ ڈر گیا اس نے انا للہ وانا الیہ راجعون کہا۔ اور پوچھا چچا جان اللہ آپ پر رحم کرے کیا ہوا؟
میں نے اسے کہا: یہ غسل خانہ تیرا ہے؟
اس نے بتایا: نہیں۔
میں نے کہا۔ پھر آپکو اسے خالی کرانے کا کیا حق پہنچتا ہے۔ کیوں تم اپنے آپ کو دوسرے لوگوں سے بلند تر سمجھتے ہو۔ کیا تمہیں کوئی سرخاب کے پر لگے ہوئے ہیں۔ تم نے غسل خانے کے مالک کو بھی نقصان پہنچایا ہے اور جو لوگ غسل خانہ استعمال کرنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں ان کو بھی تیری وجہ سے دشواری اٹھانا پڑی یہ سب کچھ کیا ہے؟
تجھے یہ بات قطعا زیب نہیں دیتی۔ وہ میری تلخ باتیں سن کر پہلے
میں نے کہا: اس طرح تم ایسے اسراف کا ارتکاب کرو گے جس میں تکبر کی آمیزش سے بھی پائی جاتی ہے۔
یاد رکھو تم بھی دوسرے مسلمان جیسے ہو ‘ عام لوگوں کی طرح تم بھی حمام استعمال کرنے کے لئے جایا کرو۔
اس نے کہا چچا جان دراصل بعض اوقات گنوار قسم کے لوگ برہنہ حمام میں نہاتے ہیں مجھے اس سے گھن آتی ہے اس لیے میں اکیلا نہانا پسند کرتا ہوں ‘ اور یہی ایک طریقہ ہے جس سے ستر کو ملحوظ خاطر رکھا جا سکتا ہے۔ یا آپ مجھے کوئی تدبیر بتائیں کہ میں کیا کروں؟
میں نے کہا آپ لوگوں کی فراغت کا انتظار کیا کریں۔ جب وہ حمام میں غسل کر کے از خود چلے جائیں تو پھر آپ نہانے کے لیے جایا کریں۔اس نے کہا : میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں آئندہ ایسے ہی کیا کروں گا۔ آج کے بعد کبھی بھی دن کے وقت حمام کا رخ نہیں کروں گا۔ دراصل اس علاقے کی سردی اور رات کی خنکی کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں پہلے بھی دن کو حمام کا رخ نہ کرتا۔ پھر وہ سر نیچا کر کے کچھ سوچنے لگا۔ پھر سر اوپر اٹھایا اور مجھے کہا۔ بخدا یہ بات میرے ابا جان کو نہیں بتانا نہیں یہ سن کر ولی کوفت ہوگی۔میں نہیں چاہتا کہ وہ مجھ پر ناراض ہو اور اسی حالت میں ان کا دم نکل جائے اور میں دور ہونے کی وجہ سے معافی بھی نہ مانگ سکون ممیون بیان کرتے ہیں کہ میں
میں نے کہا اگر امیرالمومنین نے مجھ سے پوچھا کیا دیکھ کر آئے ہو؟
تمہارا کیا خیال ہے میں ان کے سامنے جھوٹ بولوں؟
اس نے کہا: چچا جان آپ جھوٹ نہ بولیں۔ اس سے اللہ بچائے جب ابا جان یہ سوال کریں تو آپ پوری وضاحت سے یہ کہہ دینا میں نے ایک ناگوار عادت دیکھی تھی۔ لیکن میں نے اسے سمجھا دیا اور وہ باز آ گیا۔ مجھے امید ہے کہ اباجان پوشیدہ عیب کو کریدیں گے نہیں کیونکہ اللہ تعالی نے انہیں پوشیدہ عیوب کو کرید نے سےمحفوظ رکھا ہے۔
جناب میمون کہتے ہیں کہ میں نے عمر بن عبدالعزیز جیسا باپ نہیں دیکھا اور نہ ہی عبدالملک جیسا کوئی بیٹا اللہ دونوں پر اپنی بے پایاں رحمت کرے کرے۔
اللہ پانچويں خلیفہ رشید امیر المومنین عمر بن عبدالعزیز پر راضی ہو۔ اور اسے اپنے خصوصی انعامات سے نوازا کر خوش کردے اس کی اور اس کے لخت جگر عبدالملک کی قبرکو تروتازہ باغیچہ بنا دے۔ جب یہ باپ بیٹا اپنے رب سے ملے تو انہیں سلام کیا جائے۔ جب یہ نئے لوگوں کے ساتھ قیامت کے دن اٹھائے جائیں۔تو انہیں سلام پیش کیا جائے۔آمین۔
امیرالمومنین عمر بن عبد العزیز اور انکے بیٹے عبدالملک کے مفصل حالات زندگی معلوم کرنے کے لیے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ کریں ۔
ا۔ سیرت عمر بن عبد العزیز ابن جوزی
۲- سیرت عمر بن عبد العزیز ابن عبد الحلیم
٣-الطبقات الكبرى ابن سعد جلد
٨-٧-٦-٥-٤-٣-٢-١
٤-صفته الصفوة ابن جوزی جلد
٢ /١١٣-١٢٦-١٢٧
۵- ملیتہ الاولیاء ابو نعیم اصفهانی جلد
٥/ ٢٠٣-٣٥٣-٣٦٤
٦-وفیات الاعیان ابن خلکان جلد
٥-٤-٣-٢-١
۷۔ تاریخ طبری جز:
٨-٧-٦-٥-٤-٣-٢-١
٨-العقد الفريد ابن عبد ربه جز:
٨-٧-٦-٥-٤-٣-٢-١
۹- البیان و التسین جاخط جزء :
١-٢-٤٣
۱٠ تاریخ مدینہ دمشق ابن عساکر جلد :
٢-/١١٥-١٢٧
١١-تهذیب التهذیب ابن حجر عسقلانی
٦/ ٤٧٥- ٤٧٨
حوالہ:
“کتاب: حَياتِ تابِعِين کے دَرخشاں پہلوُ”
تالیف: الاستاذ ڈاکتور عبد الرحمان رافت الباشا
ترجمه: محمود غضنفر