Search
Sections
< All Topics
Print

08. Hazrat Shuraih Al qadhi (رحمہ اللہ)

حضرت شریح القاضی رضی اللّٰہ عنہ

 

قاضی شریح سے پوچھا گیا آپ نے علم کیسے حاصل کیا؟
آپ نے فرمایا: علماء سے مذاکرات کے ذریعے میں نے علم حاصل کیا اور انہیں بھی بعض قیمتی معلومات بہم پہنچائیں۔

سفیان اوسی

 

حضرت امیرالمئومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللّٰہ عنہ نے ایک بدوی سے گھوڑی خریدی اسے قیمت ادا کی اس پہ سوار ہوئے اور چل دیئے ابھی تھوڑی دور ہی گئے تھے کہ وہ لنگڑانے لگی آپ اسے واپس موڑ کر اس شخص کے پاس لے آئے جس سے وہ خریدی تھی –

فرمایا ‘
یہ گھوڑی واپس لے لو یہ لنگڑاتی ہے –
بدوی نے کہا امیرالمئومنین یہ میں واپس نہیں لوں گا کیو نکہ میں نے صحیح حالت میں آپ کے ہاتھ فروخت کی تھی –
امیرالمئومنین حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نے فرمایا :
چلسے فیصلے کے لئیے کسی کو مصنف مقرر کر لیں جو میرے اور آپ کے درمیان عدل و انصاف کی بنیاد پر فیصلہ کر دے –
بدوی نے کہا :
کیا شریح بن حارث کندی کا فیصلہ آپ کو منظور ہو گا –
حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نے فرمایا :
مجھے منظور ہے –

                     


لہذا دونوں فیصلہ کرانے کی غرض سے قاضی شریح کے پاس پہنچے انہوں نے پہلے بدوی کی بات پورے اطمینان سے سنی پھر حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ سے کہا –
امیرالمئومنین کیا یہ گھوڑی جس وقت آپ نے خریدی تھی صحیح سالم تھی –
فرمایا : ہاں

قاضی شریحؒ نے کہا :
امیرالمئومنین جو چیز آپ نے درست حالت میں خریدی اسے اب اپنے پاس رکھئیے یا پھر اسی حالت میں واپس لوٹائیں جس حالت میں آپ نے اسے خریدا تھا –
امیرالمئومنین نے قاضی شریح کی طرف بڑے تعجب سے دیکھا اور فرمایا :
کیا یہ فیصلہ انصاف پر مبنی ہے ؟
قاضی شریح نے کہا :
حق بات اور عدل و انصاف کا تقاضا یہی ہے –
حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نے فرمایا :
مجھے آپ کا یہ فیصلہ سن کر دلی خوشی ہوئی – اب آپ کوفہ تشریف لے جائیں کیونکہ میں نے آپ کو وہاں کا رئیس القصناۃ مقرر کر دیا ہے آپ کے بے لاگ فیصلے نے مجھے متاثر کیا – بلاشبہ آپ جیسا نڈر اور با صلاحیت شخص ہی اس اہم منصب پر فائز ہو سکتا ہے –

                 


جن دنوں امیرالمئومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللّٰہ عنہ نے شریح بن حارث کندی کو رئیس القصناۃ کا منصب سونپا ان دنوں وہ مدنی معاشرے میں گمنام یا غیر معروف نہ تھے بلکہ جلیل القدر صحابہ رضی اللّٰہ عنہا اور عظیم المرتبت تابعین میں خوب جانے پہچانے جاتے تھے – ہر حلقے میں انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اہل فضل و کرم اور مدنی معاشرے کے معزز افراد قاضی شریح کی زود فہمی دانشمندی, خوش اخلاقی , ہمدردی, عدل گستری اور تجربہ کاری سے بے حد متاثر تھے –

جب جزیرہ نمائے عرب نور ہدایت سے چمکا اور اسلام کی روشن کرنیں سر زمین یمن تک پہنچیں تو قاضی شریح ان خوش نصیبوں میں سے ہوئے, جنہوں نے اللّٰہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان لانے کی سعادت حاصل کی اور حق و ہدایت کی دعوت کو قبول کیا –
ان کے فضل و کرم کو جاننے والوں اور اخلاق کریمانہ اور اوصاف حمیدہ کا اندازہ رکھنے والوں کو حد درجہ افسوس تھا کہ انہیں کچھ عرصہ پہلے مدینہ منورہ جانے کی فرصت کیوں نہ ملی , تاکہ یہ رسول اللّٰہ ﷺ کی زیارت کا شرف حاصل کر لیتے اور آپ کے صاف شفاف چشمہ ہدایت سے براہ راست سیراب ہو لیتے اور انہیں ایمان کے ساتھ ساتھ شرف صحابیت بھی حاصل ہو جاتا – اس طرح خیرو بھلائی جمیع اطراف سے انہیں اپنی لپیٹ میں لے لیتی لیکن یہ ان کے مقدر میں نہ تھا –

وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے –

فاروق اعظم رضی اللّٰہ عنہ نے تابعین میں سے ایک شخص کو رئیس القصناۃ کا اہم منصب سونپ کر کوئی جلد بازی کا ارتکاب نہیں کیا بلکہ آپ نے یہ فیصلہ نہایت مناسب انداز میں کیا حلانکہ اس وقت آسمان اسلام پر اصحاب رسول ﷺچمک دار ستاروں کی مانند جگمگا رہے تھے –
حالات و واقعات نے حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ کی فہم و فراست اور مناسب فیصلے کو درست ثابت کر دیا –
قاضی شریح مسلمانوں میں مسلسل ساٹھ سال تک قاضی کی حیثیت سے قابل قدر خدمات سرانجام دیتے رہے –

اس عظیم الشان منصب پر حضرت عمر , حضرت عثمان حضرت علی اور حضرت امیر معاویہ رضی اللّٰہ عنہم نے بدستور برقرار رکھا – امیر معاویہ کے بعد خلفائے بنی امیہ نے بھی انہیں اسی منصب پر قائم رہنے دیا – بلاشبہ یہ بہت بڑی سعادت ہے جو ان کے نصیب میں آئی – البتہ حجاج بن یوسف کے دور حکومت میں آپ اس منصب سے مستعفی ہوگئے –
آپ نے ایک سو سات سال تک لمبی, قابل تعریف, بھر پور اور قابل رشک زندگی پائی –
اسلام میں عدلیہ کی تاریخ کو قاضی شریح کے منفرد اور عمدہ فیصلوں سے چار چاند لگ گئے –
خاص و عام مسلمان اللّٰہ کی شریعت کے نفاذ میں ان دستوری فیصلوں کی پیروی خاص و عام مسلمان کی شریعت کے نفاذ میں ان دستوری فیصلوں کی پیروی کرنے لگے جو قاضی شریح نے صادر فرمائے تھے, اور ان احکام کو قدر کی نگاہ سے دیکھنے لگے جو انہوں نے قاضی کی حیثیت سے نافذ کرنے کی تجویز پیش کی تھی تاریخ کے صفحات قاضی شزیخ کے فیصلوں, دلپذیر اقوال, اور قابل رشک کارناموں سے اٹے پڑے ہیں –

                           


ایک روز حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کی دل پسند اور قیمتی درع گم ہو گئی , تھوڑے ہی عرصے بعد انہوں نے ایک ذمی شخص کو دیکھا کہ وہ درع بازار میں بیچ رہا ہے –

حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ نے اسے دیکھتے ہی پہچان لیا اور فرمایا :
ارے یہ درع میری ہے ایک رات دوران سفر راستے میں مجھ سے گر گئی تھی , ذمی نے کہا, امیرالمئومنین یہ میری درع ہے اس لئیے کہ یہ میرے قبضے میں ہے – حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ نے فرمایا ,
یہ درع میری ہے – میں نے یہ کسی کے ہاتھ فروخت نہیں کی اور نہ ہی میں نے یہ بطور تحفہ دی ہے کہ اس پر حق ملکیت جتائے –
ذمی نے کہا :
میرے اور آپکے درمیان کوئی مسلمان قاضی جو فیصلہ کر دے مجھے منظور ہے –
حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ نے فرمایا,
آپ درست کہتے ہیں چلئے ابھی قاضی کے پاس چلتے ہیں –
دونوں قاضی شریح کے پاس چلے گئے اور وہاں عدالت کے کٹہرے میں جا کھڑے ہوئے-
قاضی شریح رضی اللّٰہ عنہ نے حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ سے پوچھا, آپ کیا کہنا چاہتے ہیں –
حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ نے فرمایا :
میری پسندیدہ اور قیمتی درع پر اس شخص نے ناجائز قبضہ جما رکھا ہے – یہ دوران سفر مجھ سے گر گئی تھی, میرا مطالبہ ہے کہ درع مجھے واپس دلادی جائے –
قاضی شریح نے ذمی سے کہا :
آپ اس کے متعلق کیا کہنا پسند کریں گے –

اس نے کہا :
یہ درع میری ہے چونکہ اس وقت میرے قبضے میں ہے –
اور نہ ہی میں امیرالمئومنین پر کسی قسم کی کوئی تہمت لگانا چاہتا ہوں – قاضی شریح نے حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کی طرف دیکھا اور ارشاد فرمایا :
امیرالمئومنین آپ کے سچا ہونے میں مجھے کوئی شک نہیں یہ درع بلاشبہ آپ کی ہے لیکن چونکہ اس وقت مقدمہ عدالت میں ہے اسے اپنی ملکیت ثابت کرنے کے لئیے آپ کو دو گوا پیش کرنا ہو نگے –
حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ نے فرمایا!
میرا غلام قنبر اور میرا بیٹا حسن میرے حق میں گواہی دیں گے قاضی شریحؒ نے کہا :
امیرالمئومنین غلام کی گواہی آقا کے حق میں اور بیٹے کی گواہی باپ کے حق میں قابل قبول نہیں ہو گی –
حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ نے یہ سن کر ارشاد فرمایا :
سبحان اللّٰہ ایک جنتی آدمی کی شہادت قبول نہیں ہو گی –
کیا آپ نے رسول اقدس ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے نہیں سنا حسن اور حسین جنتی نوجوانوں کے سردار ہیں –
قاضی شریح نے کہا :
امیرالمئومنین یہ درست ہے لیکن میں باپ کے حق میں بیٹے کی گواہی کو جائز نہیں سمجھتا –
حضرت علی نے ذمی کی طرف دیکھا اور فرمایا :
یہ درع اپنے قبضے میں ہی رکھئیے کیونکہ میرے پاس ان کے علاوہ کوئی گواہ نہیں یہ صورت حال دیکھ کر ذمی نے کہا :

امیرالمئومنین میں گواہی دیتا ہوں , کہ یہ درع آپ کی ہے – پھر وہ کہنے لگا ہائے اللّٰہ میں قربان میں صدقے –
آج امیرالمئومنین اپنے ماتحت قاضی سے فیصلہ کرانے کے لئیے پیش ہوا اور قاضی نے سماعت کے بعد فیصلہ میرے حق میں دے دیا –
میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ دین جو اس قسم کے فیصلے کرنے کا حکم دیتا ہے وہ برحق ہے اور میں آج اس سے متاثر ہو کر عدالت کے روبرو صدق دل سے اقرار کرتا ہوں –

لاالہ الا اللّٰہ وان محمد اعبدہ ورسولہ

اللّٰہ کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں اور بلاشبہ محمد صلی اللّٰہ علیہ و سلم اس کے بندے اور رسول ہیں –
کلمہ پڑھا اور مسلمان ہو گیا –
پھر اس عدالت میں اپنا بیان جاری رکھتے ہوئے کہا –
جناب قاضی میں صدق دل سے اعتراف کرتا ہوں کہ یہ درع امیرالمئومنین کی ہے میں ایک رات اس لشکر کے پیچھے پیچھے جا رہا تھا جو صفین کی طرف رواں دواں تھا یہ درع ان کے خاکی رنگ کے اونٹ سے گری جسے میں نے اٹھا لیا –
حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ نے اس کا بیان سن کر ارشاد فرمایا,
چونکہ اب تو مسلمان ہو گیا ہے لہذا یہ درع میں نے تجھے بطور تحفہ دی اور اس کے ساتھ ہی یہ عمدہ گھوڑی بھی تجھے بطور تحفہ پیش کرتا ہوں –
یہ واقعہ پیش آئے زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ یہ بندہ مؤمن جنگ نہروان کے دن حضرت علی کی قیادت میں خوارج کے ساتھ دیوانہ وار لڑائی کرتا ہوا جام شہادت نوش کر گیا –

قاضی شریح کے دلچسپ فیصلوں میں سے ایک یہ عجیب و غریب حیرت انگیز فیصلہ بھی تھا -آپ سنیں گے تو عش عش کر اٹھیں گے ایک دن بیٹے نے کہا :
اباجان میرے اور فلاح قوم کے درمیان آج جھگڑا ہوا ہے, اگر فیصلہ میرے حق میں ہوا تو انہیں گھسیٹ کر عدالت میں لے آؤں اور اگر ان کے حق میں ہو تو میں صلح کر لوں پھر اپنے باہمی جھگڑے کی ساری تفصیل بیان کر دی –
آپ نے کہا,
جاؤ انہیں عدالت میں لے آؤ وہ خوشی خوشی ان کے پاس گیا اور انہیں عدالت میں چلنے کے لئیے کہا :
وہ عدالت میں پیشی کے لئیے تیار ہو گئے –
جب قاضی شریح کی عدالت میں پہنچے انہوں نے مقدمے کی سماعت کے بعد اپنے بیٹے کے خلاف فیصلہ سنا دیا – وہ لوگ خوش و خرم واپس لوٹے اور بیٹا کبیدہ خاطر افسردہ شرمندہ مونہہ لٹکائے ہوئے عدالت سے باہر آیا باپ کا فیصلہ بیٹے کے خلاف , یہ ہے عدل و انصاف کی درخشندہ مثال جب قاضی شریح اور اس کا بیٹا گھر پہنچے بیٹے نے باپ سے کہا – ابا جان آپ نے مجھے رسوا کیا اگر میں نے آپ سے مشورہ نہ لیا ہوتا تو کوئی بات نہ تھی افسوس یہ ہے کہ میں نے آپ سے مشورہ لے کر عدالت کا رخ کیا –

اور آپ نے میرے ہی خلاف فیصلہ صادر کر دیا لوگ میرے متعلق کیا سوچتے ہونگے –
قاضی شریح نے کہا :
بیٹا دنیا بھر کے لوگوں سے تو مجھے عزیز ہے لیکن یاد رکھو اللّٰہ کی محبت میرے دل میں تیرے پیار پر غالب ہے –
مجھے اس بات کا اندیشہ تھا اگر میں تجھے مشورے کے وقت بتا دیتا کہ فیصلہ ان کے حق میں ہو گا تو ان سے صلح کرلیتا اور وہ اپنے حق سے محروم رہ جاتے اس لئیے میں نے تجھے کہا :
کہ انہیں عدالت میں لے آؤ تاکہ عدل و انصاف سے ان کا حق انہیں مل جائے –   


ایک مرتبہ قاضی شریحؒ کے لڑکے نے ایک شخص کی ضمانت دی جو منظور کر لی گئی وہ شخص بروقت عدالت میں حاضر ہونے کی بجائے بھاگ گیا قاضی شریح نے اپنے لڑکے کو اس کے بدلے گرفتار کر لیا اور پھر جیل میں ہر روز خود کھانا پہنچایا کرتے تھے –
کبھی کبھی کسی گواہی میں جب قاضی شریحؒ کو شک و شبہ پیدا ہوتا , اور گواہی دینے والے عدالت کے کٹہرے میں آ کھڑے ہوتے آپ انہیں جھوٹی گواہی سے باز رکھنے کے لیے یہ ارشاد فرماتے گواہی دینے والو میری بات کو غور سے سنو اللّٰہ تمہیں ہدایت دے –
آج اس شخص کے خلاف فیصلہ دینے کا باعث تم بنو گے – میں تمہاری وجہ سے جہنم کی آگ سے بچ جاؤں گا –
تمہیں بھی جہنم کی آگ سے بچنے کی فکر کرنی چاہیے-

اب بھی تمہارے اختیار میں ہے کہ گواہی نہ دو اور چلے جاؤ –
اگر وہ گواہی دینے پر اصرار کرتے تو آپ اس شخص کی طرف متوجہ ہوتے جس کے حق میں یہ گواہی دینا چاہتے اسے مخاطب ہو کر فرماتے –
خوب اچھی طرح جان لو میں تمہارے حق میں فیصلہ ان کی گواہی کی بنا پر دے رہا ہوں –
مجھے دکھائی دیتا ہے لیکن ظن و تخمینہ کی بنا پر فیصلہ صادر نہیں کر سکتا میں تو گواہوں کی شہادت پر ہی فیصلہ دے سکتا ہوں – لیکن میرا یہ فیصلہ اس چیز کو تیرے لیے حلال نہیں کر سکتا جسے اللّٰہ تعالیٰ نے تیرے لئیے حرام کر دیا ہے –       


قاضی شریحؒ کرسی عدالت پر بیٹھے فیصلہ صادر کرتے وقت یہ کلمات بار بار دھرایا کرتےتھے-
* ظالم کل ضرور جان لے گا کہ نقصان اٹھانے والا کون ہے ؟
* نفسیاتی طور پر ظالم سزا کا منتظر رہتا ہے اور مظلوم عدل و انصاف کا انتظار کرتا ہے –
میں حلفیہ کہتا ہوں کہ جو شخص اللّٰہ کے لیے کسی چیز سے دستبردار ہو جائے اسے چیز کے اپنے ہاتھ سے نکل جانے کا کوئی غم نہیں ہوتا –


قاضی شریح اللّٰہ ، رسول اور قرآن مجید کے احکامات کی فقط تبلیغ کرنے والے ہی نہ تھے بلکہ خاص و عام مسلمانوں کو رشد و ہدایت کا راستہ اختیار کرنے کی نصیحت کرنے والے بھی تھے ۔
ایک شخص بیان کرتا ہے۔
قاضی شریح نے مجھے دیکھا کہ میں حزن و ملال اور غم و اندوا کا شکوہ اپنے ایک دوست کے پاس کر رہا ہوں ۔
آپ میرا ہاتھ پکڑ کر ایک طرف لے گئے ۔اور فرمایا:
اے میرے بھائی کے بیٹے اللّٰہ کے سوا کسی کے پاس شکوہ شکایت کرنے سے بچو جس کے پاس بھی تم شکوہ کرو گے وہ تمھہارا دوست ہو گا یا دشمن دوست یہ شکوہ سن کر غمگین ہو گا اور دشمن خوش ہوگا ۔
پھر آپ نے اپنی ایک آنکھ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: میری اس آنکھ کی طرف دیکھو ۔ خدا کی قسم میں نے گزشتہ پندرہ برس سے اس آنکھ سے نہ کوئی شخص دیکھا اور نہ راستہ لیکن میں نے کسی کو بتایا تک نہیں صرف آج تجھے محض سمجھانے کے لیے بتا رہا ہوں ۔ کیا تو نے اللّٰہ کے برگزیدہ بندے حضرت یعقوب علیہ السلام کا جملہ نہیں سنا جسے قرآن مجید میں درج کر دیا گیا ہے ۔

انما اشکو بثی و حزنی الی اللّٰہ
میں اپنا شکوہ و غم اللّٰہ کے حضور پیش کرتا ہوں ۔

ہر مصیبت کے وقت اپنے حزن وملال اور غم و اندوا کا شکوہ اللّٰہ ہی کے دربار میں پیش کیا کرو۔
وہی سوالیوں کی عزت رکھنے والا ہے اور بے کسوں کی التجائیں سننے والا ہے اور دعائیں مانگنے والوں کے قریب تر ہے ۔


ایک دن کسی شخص کو دوسرے سے کچھ مانگتے ہوئے دیکھا تو بڑے پیار سے فرمایا:
میرے بھتیجے جو کسی انسان سے اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے مانگے گویا اس نے اپنے آپ کو غلامی کے سپرد کر دیا ۔ اگر اس نے سوالی کی ضرورت کو پورا کر دیا تو اس نے گویا اسے اپنا ذہنی غلام بنا لیا ۔ اور اگر اسے جواب دے دیا تو دونوں ذلیل وخوار ہو کر واپس لوٹے ۔ ایک بخل کی ذلت کے ساتھ اور دوسرا ناکامی کی ذلت ورسوائی کے ساتھ جب بھی تجھے کچھ مانگنا ہو اپنے اللّٰه سے مانگو اور جب بھی مدد طلب کرو تو اپنے اللّٰہ سے مدد طلب کرو خوب اچھی طرح یہ بات جان لو ۔
برائی سے بچنے اور نیکی کرنے کی توفیق اور مدد دینے کا حقیقی اختیار اللّٰہ کے سوا کسی کے پاس نہیں ۔


کوفہ میں ایک بار طاعون کی وبا پھوٹ پڑی قاضی شریح کا ایک دوست اس وبا سے بچنے کی خاطر نجف چلا گیا ۔

قاضی شریح نے اس کی طرف ایک خط لکھا ۔
جس جگہ کو تم چھوڑ گئے ہو اس نے تیری موت کو قریب نہیں کر دینا تھا اور نہ تیری باقی زندگی کے دن چھین لینے تھے اور جس جگہ تم نے جا کر پڑاؤ کیا ہے وہ جگہ بھی اسی ذات کے قبضے میں ہے جسے کوئی طلب عاجز نہیں کر ستی اور نہ ہی بھاگنے والا اس کے دائرہ اختیار سے باہر نکل سکتا ہے، یاد رکھو ہم اور آپ ایک ہی بادشاہ کے دسترخوان پر بیٹھے ہیں ۔ بلاشبہ نجف قدرت والے خدا کے بہت قریب ہے ۔


ان بے بہا خوبیوں کے علاوہ قاضی شریح ایک ایسے مستند شاعر تھے جس کے اشعار بطور دلیل پیش کیے جاتے ان کی طرز ادا دلرباو دلاویز تھی اور اظہار خیال کے لیے موضوعات نہایت عمدہ اور اچھوتے ہوا کرتے تھے ان کا دس سالہ ایک بیٹا کھیل کود کا بڑا ہی دلدادہ تھا ۔ ایک دن اسے غیر حاضر پایا۔ چونکہ وہ سکول چھوڑ کر کتوں کی لڑائی دیکھنے چلا گیا جب گھر واپس آیا تو آپ نے بیٹے سے پوچھا نماز پڑھی ہے؟ اس نے کہا نہیں۔ آپ نے کاغذ قلم منگوایا اور اس کے استاذ کی طرف یہ اشعار لکھ بھیجے جن کا ترجمہ درج ذیل ہے
* یہ چند آوارہ اور بے ہودہ لڑکوں کے ساتھ مل کر کتوں کی لڑائی دیکھتا رہا ان کے پیچھے بھاگتا رہا اور اس نے نماز
چھوڑ دی۔

*آپ کے پاس یہ ایک رقعہ لےکر آئے گا جو خاص طور پر اس کےلیے لکھا گیا تھا۔

۝ جب یہ آپ کے پاس آئے تو اس کا علاج لعن، طعن اور ملامت سے کرنا اور ایک دانشمند ، لائق ادیب کی مانند اسے نصیحت کرنا۔

۝ آگر اسے آپ مارنا چاہیں تو کوڑے سے مارنا اور جب تین کوڑے مار لیں تو پھر رک جانا۔

۝ یقین کیجیے جو سلوک بھی آپ اس سے روا رکھیں گے اس میں اس لڑکے کا ذاتی فائدہ ہے ، باوجود یکہ میں اس کی وجہ سے غم کے کڑوے گھونٹ پی رہا ہوں پھر بھی مجھے یہ سب سے زیادہ عزیز ہے۔


اللّٰہ سبحانہ وتعالی فاروق اعظم سیدنا عمر بن خطاب رضی اللّٰہ عنہ پر راضی ہو انہوں نے اسلامی عدالت کی پیشانی کو ایک قیمتی چمکیلے اور دلکش موتی جڑے ہوئے جھومر سے مزین و آراستہ کیا۔
انہوں نے مسلمانوں کو ایک ایسا روشن چراغ دیا جس کی ضیاء پاشیوں سے شریعت الہیٰ پر چلنے کے راستے روشنی حاصل کر تے رہیں گے اور رسول خدا ﷺ کی سنت مطہرہ پہ گامزن رہنے کے لیے ان کی فہم و فراست کے نور سے راہنمائی حاصل کرتے رہیں گے۔
قیامت کے دن امتی قاضی شریح کے موجود پر فخر کریں گے اللّٰہ تعالیٰ قاضی شریح پر رحم فرمائے اس نے لوگوں میں پورے ساٹھ سال عدل و انصاف قائم کیا۔

اس نے کسی ایک شخص پر بھی ظلم نہ کیا اور نہ ہی کبھی فیصلہ دیتے وقت کسی بادشاہ اور عام لوگوں میں فرق کیا۔عام لوگوں میں کوئی امتیاز برتا۔


قاضی شریح کے مفصل حالات زندگی معلوم کرنے کے لیے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ کریں ۔

 

١- الطبقات الکبر ( ابن سعد)
٢/ ٩٤- ١٠٨- ١٠٩
١٧٠- ٢٠٦- ٢٦٨
٢-صفتہ الصفو ابن جوزی
٣/ ٣٨
٣- حلیتہ الاولیاء اصفہانى
٤/ ٢٥٦- ٢٥٨
 ٤- تاریخ طبری ابن جریر طبری
٤- ٥- ٦
٥- تاریخ خلیف بن خیاط صفحہ
١٢٩- ١٥٨- ١٨٤- ٢١٧
٢٥١- ٢٦٦- ٢٩٨- ٣٠٤
٦- شزرات الزاھب جلد
١/ ٨٥- ٨٦
٧- فوات الوفیات
٢/ ١٦٨- ١٦٩
٨- کتاب الوفیات
٨٠- ٨١
٩- المحجر ( محمد بن حبیب)
٣٠٥- ٣٨٧
١٠- وائرہ المعارف ( فرید وجدی)
٥/ ٣٧٣- ٤٧٣

 

 

حوالہ:
“کتاب: حَياتِ تابِعِين کے دَرخشاں پہلوُ”
تالیف: الاستاذ ڈاکتور عبد الرحمان رافت الباشا
ترجمه: محمود غضنفر
Table of Contents