Search
Sections
< All Topics
Print

10. Hazrat Rabee’a Al Raayi (رضی اللہ عنہ)

حضرت ربعیہ الرای رضی اللّٰہ عنہ

 

میں نے ربعیہ سے بڑھ کر سنت گا حافظ کوئی نہیں دیکھا-

ابن ماجشون


 

ہم ٥١ ہجری کے دھانے کھڑے ہیں –
وہ دیکھو اسلامی لشکر بنی نوع انسان کی راہنمائی کے لیے توحید کا پرچم ہاتھ میں لیے, انسانی معاشرے کی اصلاح کے لیے محبت کا ہاتھ بڑھائے اور ایک ایسے دستور حیات کی برکات کو پھیلاتے ہوئے انسان کو انسان کی غلامی سے نجات دلانے کے لیے مشرق و مغرب کی طرف صرف اس ایک ہی دھن میں مسلسل آگے بڑھتا جا رہا ہے کہ یہاں روئے زمیں پر حکم صرف ایک اللّٰہ کا ہی چلے گا جس کا کوئی شریک نہیں –
ادھر دیکھو خراسان کا گورنر سجستان کا فاتح ایک کامیاب جرنیل جلیل القدر صحابی حضرت ربیع بن زیاد حارثی اللّٰہ کی راہ میں جہاد کرنے والے لشکر کی قیادت کرتے ہوئے کس شان سے جا رہا ہے اور اس کے ساتھ اس کا بہادر غلام فروخ بھی ہے –
سجستان اور اس کے نواحی علاقوں کو فتح کرنے کے بعد انہوں نے یہ عزم کر لیا کہ اب اپنی زندگی کا خاتمہ دریائے سیحون عبور کر کے ماوراءالنہر کی بلند چوٹیوں پر توحید کا پرچم لہرا کر کریں گے –
                   



اس عظیم الشان معرکے کے لئے حضرت ربیع بن زیاد رضی اللّٰہ عنہ نے بھر پور تیاری کی اور جنگی سازو سامان سے لشکر کو لیس کیا دشمن کو لڑائی کے وقت اور جگہ سے بھی آگاہ کر دیا جب گھمسان کا رن پڑا تو حضرت ربیع اور اس کے لشکر جرار نے ایسے کارہائے نمایاں سرانجام دئیے –

جنہیں تاریخ میں ہمیشہ سنہری حروف میں خراج تحسین پیش کیا جاتا رہے گا – ان کے غلام فروخ نے میدان جنگ میں بہادری کے وہ جوہر دکھلائے اور دشمن پر تا بڑ توڑ حملے میں ایسے پنیترے بدلے کہ حضرت ربیع یہ منظر دیکھ کر انگشت بدنداں رہ گئے ان کے دل میں اس کی بہادرانہ عظمت کے نقوش بیٹھ گئے اور انہیں پہلی دفعہ اس کی جر ات, شجاعت, بے خوفی اور جنگی مہارت کا اندازہ ہوا اس لڑائی میں مسلمانوں کو عظیم فتح حاصل ہوئی دشمن کے قدم اکھڑ گئے- ان کی صفوں کو مسلمانوں نے بکھیر کر رکھ دیا – پھر لشکر اسلام نے اس دریا کو عبور کیا جو سر زمین ترکی کی طرف پیش قدمی میں رکاوٹ بنا ہوا تھا – اور اسے چین کی طرف رخ کرنے سے روکے ہوئے تھا – جب اس عظیم جرنیل نے دریا عبور کر لیا, تو سب سے پہلے لشکر اسلام نے دریا کے کنارے پر بیٹھ کر وضو کیا, وضو ایسا اچھا ایسا مکمل اور ایسا دل لگا کہ کیا کہنے! پھر قبلہ رخ کھڑے ہو کر مدد دینے اور دشمن پر غلبہ عطا کرنے والے اللّٰہ کا شکر ادا کرنے کے لیے دو رکعت نماز ادا کی پھر اس عظیم جرنیل نے اپنے غلام فروخ کو جنگ میں شاندار کارنامہ سرانجام دینے کی بناء پر تمغہ شجاعت دیتے ہوئے اسے اپنی غلامی سے آزاد کر دیا, اور اسے مال غنیمت میں سے وافر حصہ عطا کیا, اور اس کے علاوہ بھی اور بھی انعامات و اعزازات سے نوازا –
                           



اس روشن چمکیلے اور نورانی دن کے بعد ربیع بن زیاد حارثی زیادہ دیر تک زندہ نہ رہے –

اپنے خواب کے شرمندہ تعبیر ہونے کے دو برس بعد راضی خوشی اپنے رب کی جوار رحمت میں چلے گئے –
*اناللّٰہ و اناالیہ راجعون*
رہا یہ بہادر, جوا نمرد اور بطل جلیل فروخ تو وہ اپنے حصے کا مال غنیمت اٹھائے عظیم جرنیل کی طرف سے دئیے گئے عطیات کو سمیٹتے ہوئے اور ان سب سے بڑھ کر اپنی قیمتی آزادی کا جھومر اپنی جبین نیاز پر لگائے میدان جنگ میں بہادری کی انمٹ یادیں اپنے سینے میں سموئے اور میدان جہاد کی غبار کا تاج اپنے سر پر سجائے مدینہ منورہ کی طرف لوٹ گیا –


فروخ جب مدینہ منورہ پہنچا اس وقت یہ ابھرتا ہوا کڑیل, خوبصورت اور بہادر جوان تھا اس نے ابھی اپنی زندگی کی تیسویں بہار میں قدم رکھا تھا اس کے لیے ایک گھر اور سکونت کے لیے ایک بیوی حاصل کرنے کا ارادہ کیا پہلے اس نے مدینہ منورہ میں متوسط درجے کا ایک گھر خریدا اور اس کے بعد ایک ایسی دانشمند, سلیقہ شعار اور دیگر بہت سی خوبیوں سے متصف بیوی کا انتخاب کیا جو اس کی ہم عصر تھی –

                       


فروخ وہ گھر دیکھ کر بہت خوش ہوا جو اللّٰہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اسے حاصل ہوا تھا – بیوی کی رفاقت میں اسے زندگی کا مزا حسن معاشرت کی خوشبو حیات مستعار کی تروتازگی وہم و گمان سے بڑھ کر میسر آئی گھر کے درو دیوار خوشیوں کے نغمے الا پتے ہوئے محسوس ہوئے –

لیکن وہ چہیتی بیوی جسے اللّٰہ تعالیٰ نے عمدہ صفات اور دلربا عادات سے نوازا تھا – وہ ایک مومن بہادر, جنگجو کے معرکوں میں دیوانہ وار شمولیت کے شوق پر غالب نہ آسکی اور نہ تلواروں کی جھنکار کے سننے کے شوق پر اور اللّٰہ کی راہ میں جہاد کی والہانہ محبت پر غالب آسکی –
جب بھی اسلامی لشکروں کی کامیابی کی خوش کن خبریں مدینہ منورہ میں گشت کرتیں تو ان کا جزبہ جہاد نقطہ عروج پر پہنچ جاتا اور شوق شہادت میں بے پناہ اضافہ ہو جاتا –
بہادر ونڈر فروخ نے مسجد نبوی کے خطیب کو فضائل جہاد پر خطبہ دیتے ہوئے سنا وہ حاضرین کو لشکر اسلام کی میدانہائے جہاد میں کامیابی و کامرانی کی خوشخبری دے رہے تھے – اور شہادت کی امنگ پیدا کرنے کے لیے دلوں کو گرما رہے تھے خطبہ کیا تھا ایک ساحرانہ الفاظ کا مجموعہ, رقت انگیز جملوں کا مرقع اور دلاویز خیالات و افکار کا آمیختہ تھا – سننے والے نمدیدہ تھے ہر فرد جزبہ جہاد سے سرشار نظر آتا تھا – جمعہ سے فارغ ہو کر سیدھے گھر آئے اسلامی لشکر میں شامل ہو کر میدان جہاد کی طرف جانے کا مصمم ارادہ کر لیا چہیتی بیوی کو اپنے ارادے سے آگاہ کیا اس نے کہا :
سرتاج مجھے اور میرے پیٹ میں پلنے والی اپنی امانت کو کس کے حوالے کر کے جا رہے ہیں –
آپ مدینہ میں اجنبی ہیں اور نہ ہی آپ کا یہاں کوئی رشتہ دار ہے

اس نے جواب دیا میں آپ کو اللّٰہ کے سپرد کر کے جا رہا ہوں – یہ تیس ہزار دینار اپنے پاس رکھیں یہ مال غنیمت سے میرے حصے میں آئے تھے انہیں سنبھالو یا تجارت میں لگا دینا خود بھی خرچ کرنا اور معروف انداز میں اپنے ہونے والے بچے پر بھی خرچ کرنا, یہاں تک کہ میں میدان جہاد سے صحیح سالم واپس آ ؤں یا اللّٰہ تعالیٰ مجھے شہادت نصیب کر دے جو میری دلی تمنا ہے پھر الوداعی سلام کہا اور اپنی منزل پر روانہ ہو گیا –

                         


اس معزز سلیقہ شعار, وفادار اور سگھڑ خاتون نے اپنے خاوند کی روانگی کے چند ماہ بعد ایک خوبرو, خوش اطوار اور جاذب نظر بچے کو جنم دیا اسے دیکھ کر بہت خوش ہوئی خیال آیا کہ شاید یہ اپنے باپ کی جدائی کا غم غلط کر دے اور یہ اس کی نشانی اور امانت میرے دل کا سرور اور آنکھوں کی ٹھنڈک بن جائے اس بچے کا نام ربعیہ رکھا گیا, تاکہ اس کا وجود گھر کے آنگن کے لیے سدا بہار کا سماں پیدا کرتا رہے –

                       


اس ننھے بچے کے روشن چہرے پر شرافت و نجابت کی علامت شروع ہی سے آشکار تھی بچپن ہی سے اس کی باتوں اور کاموں سے ذہانت ٹپکتی تھی ماں نے اس کی تعلیم و تربیت کے لیے ماہر اساتذہ کے سپرد کر دیا اور انہیں اچھی طرح تعلیم دینے کی تلقین کی اور تربیت دینے والوں کی خدمت میں استدعا کی کہ وہ اسے اچھے انداز میں ادب سکھلائیں –

تھوڑی ہی دیر میں اس نے لکھنے پڑھنے میں مہارت پیدا کر لی قرآن مجید حفظ کر لیا اور ایسی ترتیل تجوید و خوش الحانی سے پڑھنے لگا جیسا کہ رسول اقدس ﷺ کے قلب مبارک پر نازل ہوا تھا جس قدر ممکن ہو سکا احادیث رسول علیہ السلام کو بھی زبانی یاد کر لیا اور اس طرح کلام عرب کا بھی قابل قدر حصہ زبانی یاد کر لیا – علاوہ ازیں دینی احکامات کی معرفت بھی حاصل کر لی –


ربعیہ کی والدہ اپنے بیٹے کی خاطر اس کے اساتذہ پر مال و دولت نچھاور کرنے لگی اور انہیں انعامات سے نوازنے لگی- جب بھی یہ دیکھتے کہ اس کا بیٹا میدان علم و ادب میں چند قدم آگے بڑھا ہے – وہ اسی قدر انعام و اکرام میں بھی اضافہ کر دیتی- وہ اس کے پردیسی باپ کی واپسی کا انتظار کرتی تھی – اور اس کوشش میں تھی کہ بیٹا بڑا ہو کر ایسے مقام پر فائز ہو کر عوام الناس کی رہنمائی کا باعث بنے جس وقت اس کا باپ سفر سے واپس لوٹے وہ اپنا باادب, مہزب تعلیم یافتہ بیٹا دیکھ کر باغ باغ ہو جائے لیکن اس کے خاوند کی جدائی لمبی ہو گئی دل کے ارماں آنسوؤں میں بہنے لگے – مختلف خیال آرائیاں ہونے لگیں کوئی کہتا دشمن کے ہاتھوں قید ہو گیا ہو گا کوئی کہتا نہیں وہ آزاد ہے اور جہاد میں مشغول ہو گا, میدان جہاد سے واپس لوٹنے والے کہتے اس نے اپنی دلی تمنا کے مطابق جام شہادت نوش کر لیا ہو گا – ام ربعیہ نے اس تیسری بات کو ترجیح دی کیونکہ عرصہ درازے کوئی اس کی خبر نہ تھی –

اس جدائی نے اس کے دل کو ثپر مردہ کر دیا – لیکن اس نے صبرو شکر کے ساتھ اللّٰہ تعالیٰ سے ثواب کی نیت کر لی-

                   


جب ربعیہ نے جوانی میں قدم رکھا, خیر خواہوں نے اس کی والدہ کو مشورہ دیا ربعیہ اب لکھ پڑھ چکا ہے – ضرورت کے مطابق اتنا ہی کافی ہے- بلکہ اپنے ہم عمروں سے کہیں آگے ہے, اور اس پر مزید وہ قرآن و حدیث کا حافظہ بھی ہے – اگر تو اس کے لیے کوئی پیشہ منتخب کر لے وہ بہت جلد اس میں مہارت پیدا کر لے گا پھر وہ منافع سے آپ پر اور اپنی ذات پر خرچ کرنے کے قابل ہو سکے گا- والدہ نے یہ تجویز سن کر کہا:
میں اللّٰہ تعالیٰ سے دعا کروں گی – کہ وہ اس کے لیے ایسا کام تجویز کر دے جو اس دنیا اور آخرت کے لیے بہتر ہو پھر ربعیہ نے اپنے لئے علم کو منتخب کر لیا اور اس نے مصمم ارادہ کر لیا کہ زندگی بھر متعلم یا معلم کی حیثیت میں رہوں گا –
               


ربعیہ اپنے منتخب راستے پر بغیر کسی کو تاہی اور تساہل کے گامزن رہے اور ان علمی حلقوں کی طرف جن کی مسجد نبوی میں چہل پہل تھی اس طرح لپکے جیسے کوئی پیاسا میٹھے پانی کے چشمے کی طرف لپکتا ہے – اور ان صحابہ کرام رضی اللّٰہ عنہا کا دامن پکڑ لیا جو ابھی بقید حیات تھے , اور ان میں سرفہرست خادم رسول ﷺ حضرت انس بن مالک رضی اللّٰہ عنہ تھے –

تا بعین کے پہلے طبقے سے بھی علم حاصل کیا جن میں حضرت سعید بن مسیب مکحول شامی اور سلمہ بن دینار سر فہرست ہیں –
میدان علم میں دن رات کی مسلسل محنت نے اسے جسمانی طور پر بہت کمزور کر دیا تھا ایک ساتھی نے اسے کہا پیارے دوست اپنے آپ پر ذرا رحم کیجئے اس نے جواب میں کہا:
ہم نے اپنے مشائح کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے علم اس وقت تک اپنا معمولی سا حصہ بھی تمہارے سپرد نہیں کرے گا جب تم مکمل اپنا آپ اس کے سپرد نہیں کر دیتے –
تھوڑے ہی عرصے بعد اس کا نام بلند ہوا, مقدر کا ستارہ چمکا اور اس کے چاہنے والوں کی تعداد بڑھ گئی شاگرد اس پر فریفتہ ہونے لگے , اور قوم نے اسے اپنا سردار بنا لیا –
دن کا کچھ حصہ اپنے گھر میں گزارتے – اور باقی دن مسجد نبوی کے علمی حلقوں میں گزرتا, اس کی زندگی کے دن اسی طرح گزر رہے تھے, کہ ایک ایسا واقعہ رونما ہوا جس کا انہیں وہم و گمان ہی نہ تھا –

           


موسم گرما کی چاندنی رات تھی ایک جنگجو شہسوار ہتھیاروں سے لیس, چھٹی ہجری کے آخری ایام میں مدینہ منورہ آیا, وہ اپنے گھوڑے پر سوار مدینہ منورہ کی گلیوں میں اپنا گھر تلاش کر رہا تھا – وہ یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ اس کا گھر موجود ہے یا حواد ثات زمانہ کی نظر ہو چکا ہے کیونکہ انہیں اپنا گھر چھوڑ کر گئے –

تقریباً تیس سال بیت چکے تھے – اس کے نہاں خانہ دل میں یہ تصور بھی جاگزین تھا کہ اس کی جواں سال بیوی پر اس عرصہ میں کیا گزری ہو گی ؟
کن مشکلات کا اسے سامنا کرنا پڑا ہو گا ؟
بھلا اس بچے کا کیا بنا ہو گا جو میری روانگی کے وقت پیٹ میں پل رہا تھا ؟
خدا جانے لڑکا پیدا ہوا یا لڑکی ؟
وہ زندہ ہے یا فوت ہو چکا ہے ؟
اگر زندہ ہے تو وہ کس حالت میں ہو گا ؟
اور اس خطیر رقم کا کیا بنا ہو گا – جو میں نے مال غنیمت سے حاصل کی تھی – اور سمر قندو بخارا کو فتح کرنے کے لیے اسلامی لشکر کے ہمراہ روانہ ہوتے وقت میں نے بیوی کے سپرد کی تھی ؟
مدینہ کی گلیوں میں آنے جانے والوں کی چہل پہل تھی لوگ ابھی نماز عشاء سے فارغ ہوئے ہی تھے لیکن ان آنے والے لوگوں سے کوئی بھی اسے پہنچانتا نہ تھا اور نہ ہی اسے کوئی اہمیت دیتا تھا, اور نہ ہی کوئی اس کے غبار آلود گھوڑے کی طرف بنظر غائر دیکھتا تھا – اور نہ ہی اس کے کندھے پر لٹکنے والی تلوار کی طرف جھانکتا ہی تھا کیونکہ اسلامی شہروں کے باشندے ان مجاہدین سے مانوس ہو چکے تھے , جو اللّٰہ کی راہ میں جہاد کی غرض سے صبح و شام آتے جاتے رہتے تھے –
لیکن مدینہ کے باسیوں کی بے پروائی دیکھ کر شہسوار کے غم و اندوہ میں اضافہ اور خیالات میں مزید وسوسے پیدا ہوئے , شہسوار اپنے خیالات میں ڈوبا ہوا مدینہ کی گلیوں کا رستہ تلاش کرتے ہوئے چلا جا رہا تھا –

آخر کار وہ اپنے گھر کے سامنے پہنچا گھر کا دروازہ کھلا ہوا تھا – وفور شوق میں اہل خانہ سے اجازت لیے بغیر دروازے سے گزر کر گھر کے صحن میں آکھڑا ہوا جب گھر کے مالک نے دروازے پر کسی کے قدموں کی آہٹ سنی تو بالائی منزل سے نیچے جھانکا کیا دیکھتا ہے کہ چاند کی روشنی میں ایک شخص تلوار لٹکائے ہاتھ میں نیزا تھامے گھر کے صحن میں کھڑا ہے اور اس کی نوجوان بیوی اس اجنبی شخص کی نگاہوں سے قدرے دوڑ کھڑی تھی – یہ نوجوان غصے سے اچھلا اور ننگے پاؤ یہ کہتے ہوئے تیزی سے نیچے اترا-
ارے اللّٰہ کے دشمن تو رات کے وقت اپنے آپ کو چھپائے ہوئے میرے گھر میں داخل ہوا معلوم ہوتا ہے تیرے ارادے غلط ہیں وہ اس پر اس طرح جھپٹا جس طرح خونخوار بھوکا شیر اپنے شکار پر جھپٹتا ہے اور اجنبی کو بات کرنے کا وقت ہی نہ دیا- دونوں ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہوگئے, ان کا شورو غوغا سن کر چاروں طرف سے پڑوسی ان کے گھر آجمع ہوئے سب نے اس اجنبی کو یوں گھیرے میں لے لیا جس طرح کنگن کلائی کو گھیرے میں لیے ہوتا ہے اس طرح ان تمام نے اپنے پڑوسی کی مدد کی نوجوان صاحب خانہ نے مسافر کی گردن کو مضبوطی سے اپنے گرفت میں لے رکھا تھا اور غصے سے یہ کہہ رہا تھا اے دشمن خدا اللّٰہ کی قسم میں تجھے یونہی نہیں چھوڑوں گا – بلکہ تجھے حاکم کے پاس لے جاؤں گا –
اس شخص نے کہا :
میں اللّٰہ کا دشمن نہیں اور نہ ہی میں نے اسے کسی گناہ کا ارتکاب کیا ہے –

یہ میرا گھر ہے میں اس کا مالک ہوں – میں نے اس کا دروازہ کھلا ہوا پایا تو اندر آگیا کیا اپنے گھر آنا جرم ہے ‘ پھر حاضرین سے مخاطب ہوا اور کہا –
اے قوم میری بات سنو یہ گھر میرا ہے میں نے اسے خود خریدا ہے – میرا نام فروخ ہے کیا تم میں کوئی ایسا شخص نہیں جو اس فروخ کو جانتا ہو جو آج سے تیس سال پہلے جہاد کے لیے یہاں سے روانہ ہوا تھا, نوجوان صاحب خانہ کی والدہ سوئی ہوئی تھی شورو ہنگامہ سن کر بیدار ہوئی بلاخانے کی کھڑکی سے نیچے جھانکا تو اسے اپنا خاوند نظر آیا جس کی جدائی نے اسے نڈھال کر رکھا تھا – اچانک اس منظر کو دیکھ کر ایسی دہشت طاری ہوئی دانتوں میں انگلی دبائے ٹکٹکی لگا کر دیکھتی رہی پھر بلند آواز سے کہا –
لوگو! اسے چھوڑ دو –
بیٹے ربعیہ تم بھی اسے چھوڑ دو – یہ تیرا باپ ہے لوگو اپنے اپنے گھر واپس چلے جاؤ – اللّٰہ تمہارا بھلا کرے – پھر اپنے خاوند سے مخاطب ہوئی – اور کہا:
اے ابوعبدالرحمان یہ تیرا بیٹا ہے!
تیرا لخت جگر ہے- تیرا نور چشم ہے – جب یہ سنا تو فروخ وفور مسرت سے اچھل کر بیٹے سے بغل گیر ہوا – اور ہونہار بیٹا محبت سے اپنے باپ کے ہاتھوں, گردن اور سر کو چومنے لگا, لوگ یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گئے اور مسکراتے ہوئے اپنے گھروں کو واپس چلے گئے – ام ربعیہ بلاخانے سے نیچے اتری اپنے خاوند کو سلام کیا جس کے متعلق اسے یہ خیال تھا کہ اب روئے زمین پر اس سے ملاقات نہ ہو سکے گی کیونکہ جدائی کو تیس سال گزر چکے تھے اور اس طویل جدائی میں کوئی خبر بھی تو نہ مل رہی تھی –

فروخ اپنی بیوی کے پاس بیٹھا اور اس سے بیتے ہوئے دنوں کے روائداد سننے لگا, اور اپنے متعلق گھر تک خبر نہ پہنچانے کے اصلی اسباب بیان کرنے لگا – لیکن اس کی بیوی یہ سب کچھ بے خیالی میں سن رہی تھی – کیونکہ اس سے ملاقات اور باپ کے اپنے بیٹے کو بچشم خود دیکھ لینے کی خوشی میں اس خوف کی آمیزش بھی شامل ہو چکی تھی کہ کہیں مجھ سے اسی مجلس میں اس خطیر رقم کے متعلق نہ پوچھ لیں جو جاتے وقت میرے سپرد کر گئے تھے – وہ خیالات کی دنیا میں اپنے دل سے کہہ رہی تھی اگر انہوں نے اس مال کے متعلق پوچھ لیا جو میرے پاس امانت چھوڑ گئے تھے – اور یہ تلقین کر گئے تھے کہ میں اسے اچھے انداز میں خرچ کروں اگر میں نے انہیں یہ بتا دیا کہ اس میں سے کچھ باقی نہیں بچا تو پتا نہیں کیا ردعمل ہو گا ؟
اگر میں انہیں یہ بتادوں کہ میں نے تمام مال اس کے بیٹے کی تعلیم و تربیت پر خرچ کر دیا ہے تو کیا یہ سن کر انہیں خوشی ہو گی یا تعجب ؟
کیا میرا یہ جواب ان کے لیے کافی ہو گا ؟
کہیں یہ غصے میں نہ آجائیں کہیں یہ دوبارہ جدائی کا صدمہ برداشت کرنے کے لیے مجھے اکیلا چھوڑ کر سفر پر روانہ نہ ہو جائیں کیا وہ اس بات کو بھی سچ مان لیں گے کہ اس کا لخت جگر بادل سے بھی زیادہ سخی ہے ؟
اس کے ہاتھ میں درہم و دینار میں سے کچھ باقی نہیں رہتا مدینے کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ اس نے دائرہ اسلام میں نئے داخل ہونے والوں پر بے دریغ خرچ کیا ام ربعیہ اپنے ان خیالات میں مستغرق تھی –

خاوند نے اس کی طرف دیکھا اور کہا ام ربعیہ کیا سوچ رہی ہو ؟ کن خیالات میں گم ہو؟
کون سی بپتا آن پڑی ہے ؟
یہ دیکھو میں چار ہزار درہم اور لایا ہوں – تم بھی وہ درہم لاؤ جو جاتے وقت میں تمہارے سپرد کر گیا تھا, تا کہ اس مال سے ہم باغ اور زمین خرید لیں اور زندگی بھر اس کی آمدن سے آسودگی حاصل کریں وہ یہ سن کر خاموش رہی اور اسے کچھ جواب نہ دیا فروخ نے بیوی سے دوبارہ کہا:
لائیے مال کہا ہے تاکہ اسے ایک ساتھ ملادوں بیوی نے کہا:
میں نے اسے وہاں رکھا ہے جہاں اس کا رکھنا مناسب تھا- انشاءاللّٰہ چند دن کے بعد آپ اس کے ثمرات دیکھ لیں گے پھر صبح کی اذان نے ان کا سلسلہ کلام منقطع کر دیا فروخ وضو کرنے کے لیے اٹھا پھر جلدی سے دروازے کی طرف گیا – آواز دی ربعیہ کہا ہے؟
اسے بتایا گیا وہ تہجد کی اذان ہوتے ہی مسجد چلا گیا تھا – اہل خانہ نے کہا ہمارا خیال ہے کہ اب آپ کو جماعت نہیں ملے گی –

                   


فروخ مسجد پہنچا کہ امام ابھی تھوڑی دیر پہلے نماز پڑھا کر فارغ ہوا ہے, انہوں نے فرض نماز ادا کی – پھر روضہ رسول پر گئے صلاۃ و سلام پڑھا پھر ریاض الجنتہ کی طرف مڑے دل میں وہاں نماز ادا کرنے کا شوق تھا –
اس کے معطر اور نورانی ماحول میں دل لگا کر نفلی نماز ادا کی اور گڑ گڑا کر دعائیں مانگیں – جب مسجد سے جانے کا ارادہ کیا دیکھا کہ اس کے صحن میں ایک ایسی علمی محفل جمی ہوئی ہے جو مثالی نوعیت کی تھی اور اس سے پہلے اس قسم کی مجلس کہیں نہیں دیکھی تھی –

لوگ شیخ مجلس کے گرد حلقہ بنا کر بیٹھے ہوئے تھے – رش اتنا تھا کہ تل دھرنے کی جگہ بھی باقی نہ تھی اس نے اہل مجلس پر ایک طائرانہ نگاہ دوڑائی دیکھا کہ اس میں بڑی عمر والے سروں پہ پگڑیاں باندھے باادب انداز میں بیٹھے ہیں – اور ان میں ایسے لوگ بھی ہیں جو بظاہر بڑے معزز دیکھائی دیتے ہیں – بہت سے سجیلے نوجوان قلم ہاتھ میں لیے دوزانو بیٹھے شیخ کی ہر بات کو کاغز پر اس طرح قلمبند کر رہے ہیں جیسے کسی تاج پر قیمتی موتی چنے جاتے ہیں, وہ اپنی کاپیوں میں شیخ کے ارشادات کو اس طرح قلمبند کر رہے تھے جیسے عمدہ چیزوں کو محفوظ کیا جاتا ہے سبھی شیخ کی طرف ٹکٹکی لگا کر دیکھ رہے تھے اس طرح خاموشی, ادب و احترام اور کامل توجہہ سے بلا حس و حرکت سن رہے تھے جیسا کہ ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوئے ہوں حاضرین میں بات کو دور تک پہنچانے کے لیے مکبر شیخ کے بیان کا ایک ایک جملہ باواز بلند دھرا رہا تھا تاکہ دور بیٹھے ہوئے احباب تک ان کی ہر بات آسانی سے پہنچ جائے اور اہل مجلس میں سے کوئی بھی کسی جملے سے محروم نہ رہے فروخ کے دل میں شیخ مجلس کے دیدار کا شوق پیدا ہوا لیکن زیادہ فاصلہ ہونے کی وجہ سے چہرہ صاف دیکھائی نہ دے رہا تھا شیخ کی خوش بیانی, علمی رفعت, حیرت انگیز قوت حافظہ اور لوگوں کی بے پناہ محبت سے اس کے سامنے عاجزی و انکساری نے اس کے دل پر گویا جادو کر رکھا تھا –
تھوڑی دیر بعد شیخ نے مجلس بر خواست کی دی اور اٹھ کھڑے ہوئے – حاضرین مجلس دیوانہ وار اس کی طرف لپکے ان کے پاس لوگوں کی بہت بھیڑ ہو گئی

محبت بھرے انداز میں انہیں اپنے گھیرے میں لے لیا – اور انہیں الوداع کرنے مسجد نبوی کے باہر تک ان کے پیچھے گئے – اس موقع پر فروخ نے اپنے پاس بیٹھے ہوئے ایک شخص سے پوچھا خدارا مجھے یہ تو بتادیں کہ یہ بلند پایہ شیخ کون ہے ؟
اس شخص نے تعجب سے کہا:
کیا آپ مدینہ منورہ میں نہیں رہتے فروخ نے کہا:
کیوں نہیں میں مدینہ کا باسی ہوں – اس شخص نے کہا :
مدینے میں ایسا کون ہے جو اس شیخ کو نہیں جانتا –
فروخ نے کہا :
اگر میں اسے نہیں جانتا تو مجھے معذور سمجھیں کیونکہ میں تیس سال قبل جہاد کے لیے مدینہ سے چلا گیا تھا کل ہی واپس لوٹا ہوں –
اس شخص نے کہا چلو کوئی بات نہیں – آئیے میرے پاس بیٹھئیے میں آپ کو اس شیخ کے متعلق بتاتا ہوں – جس شیخ کا بیان آپ نے مجلس میں سنا ہے – یہ تابعین کے سردار اور امت مسلمہ کے بہت بڑے عالم, اور نو عمری کے باوجود مدینے کے محدث, فقیہہ اور امام ہیں یہ سن کر فروخ نے کہا :
ماشاء اللّٰہ نظربد دور اس شخص نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا :
اس کی مجلس مالک بن انسؒ امام ابو حنیفہؒ سیحی بن سعید انصاریؒ سفیان ثوریؒ عبدالرحمان بن عمرو اوزاعی اور لیث بن سعدؒ جیسے اکابرین کی یاددلاتی ہے فروخ کچھ کہنے لگا لیکن اس شخص نے اسے بات کرنے کی مہلت نہ دی بلکہ اس نے بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا :
ان خوبیوں کے علاوہ شیخ خوش اخلاق, فرشتہ سیرت, منکسر المزاج اور سخاوت کا دھنی بھی ہے, اہل مدینہ نے ان سے بڑھ کر کوئی سخی نہیں دیکھا –

اور نہ ہی ان سے بڑھ کر کوئی متقی و پرہیز گار فروخ نے کہا آپ انکی تعریف ہی کیے جارہے ہو لیکن ابھی تک ان کا نام نہیں بتایا اس شخص نے بتایا اس کا نام ربعیہ الرائی ہے –
فروخ نے تعجب سے پوچھا ربعیہ الرای!!
اس نے کہا ہاں اس کا نام ربعیہ ہے, لیکن مدینے کے علماء و مشائخ اسے ربعیہ الرائی کے نام سے پکارتے ہیں – ان کی علمی شان و شوکت کے کیا کہنے!
جب علمائے مدینہ کو کسی درپیش مسئلہ میں قرآن و سنت سے صریح نص نہیں ملتی تو وہ ان سے رجوع کرتے ہیں – اور وہ اپنے اجتہاد سے اس کا ایک ایسا حل پیش کرتے ہیں – جس سے علماء مطمئین ہو جاتے ہیں فروخ نے پوچھا یہ کس کا بیٹا ہے – اس شخص نے کہا :
یہ اس مجاہد کا بیٹا ہے جس کا نام فروخ ہے یہ اس کے جہاد پہ روانہ ہونے سے چند ماہ بعد پیدا ہوا تھا –
اس کی والدہ نے اس کی تعلیم و تربیت پر پوری توجہ دی میں نے ابھی نماز فجر سے پہلےکچھ لوگوں کی زبانی سنا ہے کہ اس کا باپ تیس سال کے بعد گزشتہ رات مدینہ واپس آیا ہے یہ بات سن کر فروخ کی آنکھوں سے دو آنسو ٹپکے لیکن یہ شخص ان آنسوؤں کے گرنے کا سبب نہ جان سکا, پھر فروخ جلدی سے اپنے گھر پہنچا بیوی نے دیکھا کہ ان کی آنکھیں بھیگی ہوئی ہیں, پوچھا, ابو ربعیہ خدا خیر کرے کیا ہوا ؟
آنکھیں آنسوؤں سے تر کیوں ہیں ؟
کوئی افتاد آن پڑی اس نے کہا گھبرائیے نہیں سب خیر ہے –
آج میں نے اپنے بیٹے ربعیہ کی نرالی شان دیکھی ہے یہ منظر دیکھ کر بے انتہا خوشی میں میری آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑے –

آج اس کے علمی مقام خوش بیانی اور لوگوں کی اس کے ساتھ بے پناہ محبت نے مجھے گھائل کر دیا – میں کس قدر خوش نصیب ہوں کہ مجھے بلند مقام بیٹا ملا –
ام ربعیہ نے اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے کہا –
میرے سرتاج آپ کو ان دو چیزوں میں سے کون سی چیز زیادہ محبوب و مرغوب ہے تیس ہزار دینار یا اپنے بیٹے کا علم و فضل میں یہ بلند مقام –
اس نے کہا اللّٰہ کی قسم مجھے پوری دنیا کے مال سے زیادہ اپنے لخت جگر کا یہ مقام قیمتی اور محبوب دکھلائی دیتا ہے – بیوی نے کہا :
جو مال آپ مجھے بطور امانت دے گئے تھے وہ میں نے اس کی تعلیم و تربیت پر خرچ کر دیا ہے,
کیا آپ اس سے خوش ہیں؟
فرمایا ہاں کیوں نہیں مجھے اس سے بہت خوشی ہوئی ہے- اللّٰہ تعالیٰ آپ کو میری, میرے بیٹے اور تمام مسلمانوں کی جانب سے جزائے خیر عطا کرے-

                       


حضرت ربعیہ بن فروخ الرائی کے مفصل حالات زندگی معلوم کرنے کے لیے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ کریں –

 


١- تزکرۃالحفاظ ١٤٨/١
٢– حلیتہ الاؤلیاء ٣/ ٢٥٩
٣- صفتہ الصفوۃ ٨٣/٢
٤- ذیل المزیل ١٠١
٥- تاریخ بغداد ٤٢٠/٨
٦- میزان الاعتدال ١٣٦/١
٧- التاج ١٤١/١٠
٨- وفیات الاعیان ١٣٨/١
٩- تاریخ طبری دسویں جلد کی فہرست دیکھئے

 

 

حوالہ:
“کتاب: حَياتِ تابِعِين کے دَرخشاں پہلوُ”
تالیف: الاستاذ ڈاکتور عبد الرحمان رافت الباشا
ترجمه: محمود غضنفر

 

Table of Contents