19A. Hazrat Taoos Bin Kaisan (رحمہ اللہ)
حضرت طاووس بن کیسان رضی اللّٰہ عنہ
ہمراہ محمد بن یوسف ثقفی
میں نے طاووس بن کیسان جیسا نڈر جید عالم کوئی نہ دیکھا-
(عمر و بن دینار)
وہ ہدایت کے درخشندہ ستاروں میں جگمگایا نورانی کرنوں نے اسے اپنے جلو میں لیا دل میں نور زباں پہ نور اوپر نور نیچے نور دائیں نور بائیں نور اور زندگی بھر نور ان کے آگے رقصاں رہا –
حضرت محمد ﷺ کے مدرسہ سے فراغت حاصل کی اور علم و عمل کے اعلی مقام پر فائز ہوئے, ایمان کی پختگی بات کی صداقت, فانی دنیا سے بے رغبتی, رضائے الٰہی کے لیے مر مٹنے اور حق بات ببانگ دہل کہنے میں صحابہ کے نقش قدم پر گامزن تھے – محمدی مدرسہ نے اسے یہ تعلیم دی کہ دین خیر خواہی کا نام ہے, وہ خیر خواہی اللّٰہ تعالیٰ, اسکی کتاب اس کے رسول, مسلمان حکمرانوں اور عوام الناس کے لیے ہے, تجربے نے اسے یہ بتایا کہ اصلاح کی ابتداء حکمرانوں سے ہوتی ہے اور انہیں پر انتہا –
حکمران اگر درست ہو جائے تو رعایا بھی درست ہو جاتی ہے, اگر حکمران خراب ہو جائے تو رعایا کا سنورنا بہت مشکل ہو جاتا ہے یہ ہیں ذکوان بن کیسانؒ علیہ الرحمۃ جن کا لقب طاووس تھا, انہیں یہ لقب اس بنا پر دیا گیا کہ وہ حقیقتاً اپنے دور میں تمام علماء سے ممتاز تھے جس طرح مور تمام پرندوں میں اپنے حسن و جمال کی وجہ سے ممتاز ہوتا ہے –
طاووس بن کیسان یمن کے رہنے والے تھے ان دنوں یمن کا گورنر حجاج بن یوسف کا بھائی محمد بن یوسف ثقفی تھا- حجاج بن یوسف نے حضرت عبد اللّٰہ بن زبیر رضی اللّٰہ عنہ کی تحریک خلافت کو کچل کر پورے حجاز اور گردونواح پر اپنی گرفت مضبوط کر لی تھی, سارے علاقے میں رعب و دبدبہ اور شان و شوکت قائم ہو جانے کے بعد اس نے اپنے بھائی محمد بن یوسف کو یمن کا گورنر مقرر کر کے بھیجا اس میں اپنے بھائی حجاج کی بہت سی برائیاں تو پائی جاتی تھیں لیکن اس کی کسی بھی خوبی سے آراستہ نہ تھا –
موسم سرما کے ایک خشک دن صبح سویرے حضرت طاؤوس بن کیسان وہب بن منبہ کے ہمراہ یمن کے گورنر محمد بن یوسف ثقفی سے ملنے گئے دیوان میں پہلے ہی بہت سے لوگ اس کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے حضرت طاووس نے آتے ہی وعظ و نصیحت شروع کر دی, گورنر نے اپنے ایک دربان کو حکم دیا کہ ایک قیمتی اور فاخزانہ جبہ لاو- اور اس واعظ مہمان کے کندھوں پر ڈال دو- دربان نے شاہی حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ایک قیمتی عالیشان جبہ حضرت طاووس کے کندھوں پر ڈال دیا, لیکن انہوں نے کمال حکمت عملی کا مظاہرہ کرتے ہوئے وعظ و نصیحت کے دوران اپنے کندھوں کو جھٹکا دینا شروع کیا, جس سے دھیرے دھیرے جبہ کندھوں سے سر کتا ہوا نیچے گر گیا – آپ اسے وہیں چھوڑ کر دربار سے باہر چلے گئے -اور اسے دیکھا تک نہیں جیسے طبیعت پر اس کا وجود بہت گراں گزرا ہو – بے نیازی کا یہ منظر دیکھ کر گورنر ورطہ حیرت میں پڑ گیا – درباریوں کی موجودگی میں ایک واعظ کے ہاتھوں اپنی سبکی سے شرمندہ ہوا – غصے سے چہرے کا رنگ سرخ ہو گیا لیکن زبان سے کچھ نہ کہا : جب طاووس اور اس کے ساتھی مجلس سے باہر گئے تو اس نے طاووس سے کہا بخدا ہمیں گورنر کو غصہ دلانے کی چنداں ضرورت نہ تھی, اگر آپ قیمتی شاہی جبے کا تحقہ قبول کر لیتے تو کیا حرج تھا, اگر آپ اسے اپنے پاس رکھنا نہیں چاہتے تھے, تو اسے بیچ کر فقراء مساکین کی مدد کر دیتے – حضرت طاووس بولے آپ مجھے یہ کیسا مشورہ دے رہے ہیں -اگر آج میں اسے قبول کر لیتا اور فقراء و مساکین میں اسے تقسیم بھی کر دیتا تو کل علماء اپنے حکمرانوں سے تحائف قبول کرنے کے لیے یہ دلیل پیش کرتے کہ طاووس نے بھی تو تحفہ قبول کیا تھا لیکن وہ فقراء و مساکین میں تقسیم کرنے کی بجائے خود اپنے مصروف میں لاتے-
یمن کے گورنر محمد بن یوسف نے اسے اپنی توہین سمجھا, اور طاووس سے بدلہ لینے کا پختہ ارادہ کر لیا -اس نے انہیں شکار کرنے کے لیے ایک خطرناک جال پھینکا, وہ یہ کہ سونے کے سات سو دینار تھیلی میں بند کیے اور اپنے درباری کارندوں میں سے ایک نہایت ہی ذہین ہوشیار اور چاق و چوبند شخص کو بلا کر کہا : کہ یہ دیناروں کی تھیلی طاووس کو سپرد کر آئے – اگر وہ اسے قبول کرنے سے انکار کرے تو ہر حلیہ استعمال کرنا جس سے وہ یہ تھیلی لینے کے لیے تیار ہو جائے – اگر تم اس مشن میں کامیاب ہو گئے اور اس نے یہ تھیلی قبول کر لی تو میں تجھے اپنا مقرب بنالوں گا – اور تجھے انعام و اکرام اور طلعت فاخرہ سے نوازوں گا – وہ شخص تھیلی لے کر اس بستی کی طرف روانہ ہوا جس میں حضرت طاووس رہائش پذیر تھے اور یہ بستی یمن کے دارالحکومت صنعاغہ کے قریب ہی واقع تھی, یہ شخص وہاں پہنچا حضرت طاووس کے پاس حاضر ہو کر سلام عرض کیا اور نہایت ہی مودبانہ انداز میں سپاس گزار ہوا کہ جناب والا گورنر نے یہ کچھ رقم آپکے لیے بھیجی ہے –
اسے شرف قبولیت بخش کر شکریہ کا موقعہ دیں – آپ نے بڑی بے نیازی سے فرمایا : مجھے اس کی ضرورت نہیں – اس نے یہ تھیلی دینے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا, لیکن انہوں نے اسے قبول کرنے سے قطعا انکار کر دیا, اب قاصد بے بسی کے عالم میں بیٹھا ہے – بے نیازی دیکھ کر ورطہ حیرت میں ہے- اپنی ناکامی سے حیران و پریشان ٹکٹکی لگائے مسلسل انہیں دیکھے جارہا ہے –
جب اس نے دیکھا کہ حضرت طاؤوس کی توجہ کسی دوسری طرف ہو چکی ہے وہ چپکے سے اٹھا ان سے آنکھ بچا کر تھیلی دیوار کے ایک طاقچے میں رکھی اور چلا گیا, گورنر کو جا کر بتایا کہ طاووس نے تھیلی قبول کر لی ہے – وہ یہ خبر سن کر بڑا خوش ہوا کہ اب ہمارے دام میں شکار پھنسا اب اس سے پوچھوں گا کہ جناب اب آپ کی بے نیازی کدھر گئی ‘کیا محض دربار میں مجھے رسوا کرنے کے لیے تقوے کا ڈھونگ رچا رکھا تھا, لیکن وہ خاموش رہا اور اس راز سے اسے آگاہ نہ کیا جب چند دن گزر گئے – تو دربار کے دو قابل اعتبار کارندوں کو طاؤوس کی طرف روانہ کیا اور انکے ہمراہ اس شخص کو بھی بھیجا جو پہلے انہیں تھیلی دے آیا تھا, انہیں یہ حکم دیا کہ طاووس سے میرا سلام قبول کہنا, اور انہیں یہ پیغام دینا کہ چند دن پہلے گورنر کی طرف سے دیناروں کی ایک تھیلی غلطی سے آپکے پاس گئی, دراصل وہ کسی اور کیلئے تھی اور قاصد غلطی سے آپکے سپرد کر گیا وہ برائے مہربانی واپس لوٹا دیجئے تاکہ اسے اصل مقام تک پہنچا دیا جائے حضرت طاؤوس نے یہ سن کر فرمایا :
میں نے کوئی تھیلی لی ہی نہیں اسے لوٹاوں کیسے, دونوں نے بیک زبان کہا آپ نے چند دن پہلے یہ تھیلی وصول کی تھی اور یہ شخص آپکو تھیلی دے کر گیا ہے –
حضرت طاؤوس نے غضب آلودہ نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا اور غضبناک لہجے میں اس سے پوچھا :
ارے بتاؤ کیا میں نے کوئی چیز تجھ سے لی ہے ؟
یہ منظر دیکھ کر اس شخص کے جسم میں کپکپی طاری ہو گئی اور کہنے لگا ہر گز نہیں بلکہ میں نے آپ سے آنکھ بچا کر تھیلی اس طاقچے میں رکھ دی تھی انعام اور قرب کے لالچ میں گورنر کو جا کر یہ رپورٹ دی کہ آپ نے یہ تھیلی قبول کر لی ہے آپ کا اس میں کوئی قصور نہیں یہ میری غلطی ہے جس کا میں کھلے دل سے اعتراف کرتا ہوں –
آپ نے فرمایا : جاؤ اس طاقچے میں جا کر دیکھو وہ دونوں سرکاری نمائندے کیا دیکھتے ہیں کہ طاقچے میں ایک تھیلی پڑی ہوئی ہے اور مکڑی نے اس پر جالا بن رکھا ہے – انہوں نے وہ تھیلی پکڑی اور گورنر کے پاس واپس چلے گئے وہ یہ روئیداد سن کر انگشت بدنداں رہ گیا –
اللّٰہ تعالیٰ نے بھی یمن کے گورنر کو سر عام رسوا کرنے اور چالا کی کا بدلہ چکانے کی ٹھان لی –
بھلا یہ واقعہ کس طرح پیش آیا؟
حضرت طاؤوس بن کیسان بیان کرتے ہیں –
جب میں حج کرنے کے لیے مکہ معظمہ گیا, حجاج بن یوسف بھی وہاں موجود تھا – میری موجودگی کا سن کر ملاقات کے لیے اس نے مجھے بلایا, میں اس کے دیوان میں پہنچا, اس نے مجھے خوش آمدید کہا, اور اپنے قریب بٹھایا آزاد مجلس کا خیال کرتے ہوئے اس نے گاو تکیہ مجھے پیش کیا تا کہ میں ٹیک لگا کر آرام سے بیٹھ سکوں- پھر وہ مجھ سے حج کے مسائل پوچھنے لگا, ہم محو گفتگو تھے کہ حجاج نے کسی تلبیہ کہنے والے کی سریلی آواز سنی اس کی آواز میں ایک جادو تھا- ہر سننے والا اس کی طرف بے ساختہ متوجہ ہو جاتا حجاج نے کہا اس شخص کو میرے پاس لاو اسے لایا گیا –
حجاج نے پوچھا تم کون ہو ؟
اس نے کہا میں ایک مسلمان ہوں-
حجاج نے کہا میری مراد یہ ہے کہ تم کہاں کے رہنے والے ہو-
اس نے کہا میں یمن کا باشندہ ہوں-
حجاج نے پوچھا اپنے گورنر کو کیسا پایا؟
اس نے کہا وہ بڑا موٹا تازہ ہے فاخرانہ لباس پہنتا ہے, بار بار لباس
گھوڑے پر سوار کبھی آتا ہے کبھی جاتا ہے۔ اس کے کیا کہنے۔
حجاج نے کہا میں نے تم سے یہ نہیں پوچھا:
اس نے کہا : پھر آپ نے کیا پوچھا ہے ؟
حجاج نے کہا میں اس کے کردار اور اخلاق کے متعلق پوچھتا ہوں –
اس نے کہا, وہ بڑا ہی ظالم جابر ہے. مخلوق کی اطاعت کرنے والا اور اپنے خالق کا نافرمان ہے.
یہ جواب سن کر حجاج بن یوسف کا چہرہ غصے کی وجہ سے سرخ ہو گیا-
حجاج نے اس شخص سے کہا تجھے یہ سب کچھ کہنے کی جرات کیسے ہوئی؟ کیا جانتے ہو گورنر کا میرے ساتھ کیا رشتہ ہے؟
اس نے بڑی ہی بے نیازی سے کہا:
اسکا قرب تجھ سے اور میرا قرب اللّٰہ تعالیٰ سے ہے. کیا تم اس کے رشتے کو میرے اس تعلق سے بڑا سمجھتے ہو؟
سنو: میں اللّٰہ کے اس عظیم گھر کا مہمان ہوں . میں اس کے نبی علیہ السلام کی تصدیق کرنے والا ہوں . اور میں اس کا وہ قرض چکانے والا ہوں جو دینی اعتبار سے میرے ذمے ہے. یہ سن کر حجاج خاموش ہو گیا – حضرت طاؤوس بیان کرتے ہیں کہ وہ جرات مندانہ بات کرتے ہی بغیر اجازت لیے وہاں سے چلا گیا – میں ابھی اس کے پیچھے ہو لیا, میں نے اپنے دل میں کہا, یہ شخص بہت نیک ہے – اس سے ملاقات کرنی چاہئے کہیں یہ لوگوں کی بھیڑ کی وجہ سے نگاہوں سے اوجھل نہ ہو جائے –
لہذا میں اس کے پیچھے ہو لیا-
میں نے دیکھا کہ وہ غلاف کعبہ سے چمٹا ہوا اللّٰہ کے حضور آہ وزاری کرتے, ہوئے کہہ رہا ہے –
الٰہی : میں تیری پناہ چاہتا ہوں-
الٰہی : میں تیرے حضور گناہوں کی بخشش کے لیے التجا کرتا ہوں –
الٰہی : اپنی سخاوت کے صدقے اور اپنی کفالت کے طفیل مجھے بخیلوں کی نوک جھونک اور روک ٹوک سے محفوظ فرما- اور جو کچھ دنیا والوں کے قبضے میں ہے اس سے بے نیاز کر دے-
الٰہی : میں تیری بارگاہ میں خوشحالی و فراوانی کا طلبگار ہوں اور تیری رحمت کا سوالی ہوں-
الٰہی : میں تیری جانب سے نازل کردہ خیرو برکت کا فقیر ہوں پھر طواف کرنے والوں کا ایک ریلا اسے بہالے گیا – اور پلک جھپکتے ہی اسے میری آنکھوں سے اوجھل کر دیا –
مجھے یقین ہو گیا کہ اب اس سے ملاقات نہیں ہو سکے گی لیکن پھر میں نے میدان عرفات میں شام کے وقت اسے دیکھا کہ لوگوں کے شانہ بشانہ مزدلفہ کی طرف جا رہا ہے – میں اس کے قریب ہوا وہ اپنے اللّٰہ سے محو گفتگو تھا, اور کہہ رہا تھا –
الٰہی : اگر تو نے میرا حج قبول نہ کیا تو میرا کیا بنے گا ؟
الٰہی : اس مبارک سفر کے اجروثواب سے مجھے محروم نہ کرنا-
پھر وہ رات کی تاریکی میں میری نگاہوں سے اوجھل ہو گیا – جب میں تلاش بسیار کے باوجود اسے نہ دیکھ سکا – اس کی ملاقات سے مایوس ہو گیا,
تو میں اپنے اللّٰہ سے التجا کرنے لگا-
الٰہی : میری اور اس شخص کی دعا کو قبول فرما –
الٰہی میری اور اس کی امیدوں کو برلانا-
الٰہی مجھے اور اسے قیامت کے دن ثابت قدم رکھنا جس دن اکثر لوگوں کے قدم ڈگمگا رہے ہونگے – اے کرم کرنے والے خدایا میری اور اس کی ملاقات حوض کوثر پر کرنا-
اب ہم آئندہ سطور میں جلیل القدر تابعی حضرت ذکوان بن کیسان جو طاؤوس کے لقب سے مشور تھے کی زندگی کے مزید چند دلچسپ حالات بیان کریں گے – اللّٰہ ان پر راضی اور انہیں اللّٰہ نے راضی کر دیا –
اور انہیں بہشت بریں میں جگہ عطا کی –
حوالہ:
“کتاب: حَياتِ تابِعِين کے دَرخشاں پہلوُ”
تالیف: الاستاذ ڈاکتور عبد الرحمان رافت الباشا
ترجمه: محمود غضنفر