Search
Sections
< All Topics
Print

19B. Hazrat Taoos Bin Kaisan (رحمہ اللہ) Hamrah Qutaibah Bin musalim Al Baahli

حضرت طاؤوس بن کیسان رضی اللہ تعالی عنہا بحثییت واعظ وراھنما

 

اے ابوعبدالرحمان میں نے تجھے خواب میں دیکھا کہ توبیت اللہ کے اندر نماز پڑھا رہا ہے اور دروازے پر کھڑے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمارہے تھے اے طاؤوس اونچی آواز سے قرآن مجید پڑھو۔

                 (مجاھد)

 

خلیفتہ المسلمین سلمان بن عبدالملک بیت اللہ کی ایک جانب پڑاؤ کیے ہوے اسے شوق بھری نگاہوں سے دیکھ رہا تھا اس نے اپنے دربان سے کہا جیدعالم کو بلا کر لائے تاکہ وہ ہمیں ان مبارک دنوں کی مناسبت سےحج کے مسائل بتائے۔ دربان حباج اکرام سے امیرالمومنین کی خواہش کے مطابق کسی جید عالم کے متعلق پوچھنے لگا۔ اسے بتایا گیا کہ طاؤوسبن کیسان اس دور کے فقہاء و علما کے سردار ہیں’ دعوت و ارشاد کے میدان میں اس کا اندازہ سب سے زیادہ دلپذیر ہے ‘ آپ بے فکر ہو کر اسے ساتھ لے جائیں۔
دربان نے جناب طاؤوس کی خدمت عالیہ میں حاضر ہو کر مئودبانہ المتاس کی کے امیر المومنین نے آپ کو یاد فرمایا ہے آپ بغیر کسی تاخیر کے دربان کے ہمراہ امیر المومنین کے پاس جانے کے لیے تیار ہوگئے۔
آپ کا نظریہ یہ تھا ‘ کے ہر مبلغ پر لازم ہے کہ دعوت و ارشاد کے لیے ہر مناسب موقع کو غنیمت جانے۔ اور اسے کسی صورت ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ اور انہیں اس بات پر پختہ یقین تھا کہ وہ بات سب سے افضل ہے جو کسی بادشاہ کو درست کرنے کے لئے یا اس سے ظالم و جور سے باز رکھنے کے لیے یا اسے اللہ کے قریب کرنے کے لیے کی جائے ۔


حضرت طاؤوس دربان کے ہمراہ چلے جب وہ امیرالمومنین کے پاس گئے اسے سلام کہا تو اس نے والہانہ استقبال کیا اور بڑی عقیدت سے سلام کا جواب دیا اور نہایت ہی عزت و کرام کے ساتھ اپنے پاس بٹھا یا پھر وہ آپ سے حج کے مسائل دریافت کرنے لگے ۔‌ اور بڑے ادب و احترام سے ان کے جوابات سننے لگا۔‌
حضرت طاوؤس فرماتے ہیں ۔
جب میں نے محسوس کیا کہ امیرالمومنین اپنا مقصد حاصل کر چکے ہیں اور اب کوئی سوال باقی نہیں رہا ‘ تو میں نے اپنے دل میں سوچا یہ ایک ایسی مجلس ہے کہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں مجھ سے اس کے متعلق پوچھا جائے گا پھر تم نے سربراہ مملکت کو کوئی نصیحت کیوں نہیں کی ‘ یہ سوچ کر میں اس کی طرف متوجہ ہوا ‘ اور کہا ۔
اے امیر المومنین ‘ جہنم کے گرے گڑھے میں کنوئیں کی منڈھیرپر ایک پتھر تھا ‘ وہ اس میں گرا اور ستر سال کنوئیں کی تہہ تک پہنچا۔
اے امیرالمومنین کیا تم جانتے ہو جہنم کا یہ ہولناک کنواں اللہ تعالی نے کس کے لئے تیار کر رکھا ہے اس نے جواب دیا مجھے علم نہیں۔
پھر اس نے جھنجلاتے ہوئے دریافت کیا ۔ آپ ہی بتائیں وہ بھلا کس کے لیے تیار کیا گیا ہے۔
فرمایا :اللہ تعالی نے کنواں اس شخص کے لئے تیار کیا ہے کہ جسے اس نے مسلمانوں کا حک
مران بنایا لیکن اس نے اپنی رعایا پر ظالم و تشدد کیا۔
یہ سن کر خلیفہ سلیمان کے جسم میں لرزہ طاری ہوگیا مجھے یوں محسوس ہوا جیسے اس کے جسم سے روح پرواز ہوا چاہتی وہ زار و قطار رونے لگا اور رونے کی وجہ سے اس قدر ہچکی بندھی ہوئی تھی کہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ اب ان کا آخری وقت ہے . اس حالت میں میں نے اسے چھوڑا اور واپس آ گیا ‘ وہ مجھے واپس ہوتے ہوئے دیکھ کر جزائے خیر کہہ رہا تھا ۔
             


حضرت عمر بن عبدالعزیز مسند خلافت پر فروکش ہوئے تو انہوں نے حضرت طاؤوس بن کیسان کی طرف پیغام بھیجا کے از راہ کرم مجھے کوئی وصیت کیجئے . حضرت طاؤوس نے انہیں لکھا جو صرف ایک سطر پر مشتمل تھا اس میں یہ جملہ لکھا ہوا تھا ۔
اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا تمام کام خیر و برکت ہو تو کاروبار حکومت کی ذمہ داریاں نے ایک لوگوں کے سپرد کیجیے۔
جب حضرت عمر بن عبدالعزیز نے خط پڑھا ۔تو پکار اٹھے اور بار بار کہنے لگے ۔
اتنی ہی نصیحت کافی ہے
اتنی ہی نصیحت کافی ہے


جب ہشام بن عبدالملک مسند خلافت پر جلوہ گر ہوا تو حضرت طاؤوس کیسان نے اسے حق نصیحت ادا کرتے ہوئے کئی مواقع پر مومنانہ جرات و بصیرت کا ثبوت دیا ۔

جو ہر خاص و عام میں مشہور معروف ہوا ‘ ان جملہ واقعات میں سے یہ واقعہ پیش خدمت ہے ۔
جب ہشام حج کرنے کی گردوں سے بیت اللہ پہنچا ‘ حرم میں بیٹھے ہوئے اس نے اپنے حکومت کے ان ذمہ دار ان افسران سے کہا جو مکہ معنلمہ میں متعین تھے کہ کسی صحابی رسول علیہ السلام کو ڈھونڈ کر لے آئیں۔
انہوں نے کہا: امیرالمومنین صحابہ کرام تو یکے بعد دیگرے اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں ‘ اب تو ان میں سے کوئی باقی نہیں رہا ۔
تو اس نے کہا تابعين میں سے کسی کو لے آئیں۔
حضرت طاؤوس بن کیسان اللہ تعالی عنہا کو اس کی پاس لیا گیا۔
جب آپ اس کی پاس آئے تو اپنا جوتا اس کے تخت کے ایک طرف اتار دیا۔
اسے سلام کہا اور امیرالمومنین کے لقب سے اسے یاد نہ کیا ‘ بلکہ سیدھا اس کا نام لے کر مخاطب ہوئے لیکن ان کی جانب اور اس کی اجازت لئے بغیر بیٹھ گئے یہ منظر دے کر ہشام کی آنکھیں غصے سے سرخ ہو گئیں۔
اس نے طرزعمل کو شاہی دربار کے آداب کے منافی سمجھااور درباریوں کی موجودگی میں اسے اپنی بے ادبی اور گستاخی گروانا ‘ لیکن اس نے بیت اللہ کی حرمت کی پیش نظر اس غصے کا اظہار نہ کیا بلکہ نہایت ہی دھیمے انداز میں کہا۔
اے طاؤوس ایسا کرنے پر آپ کو کس چیز نے برانگیختہ کیا؟

آپ نے فرمایا: میں نے کیا کہا ہے؟
خلیفہ کو پھر غصہ آیا اور کہا:
تم نے میرے تخت کی ایک جانب جوتے اتارے اور شاہی دربار کے آداب کا کچھ خیال نہ کیا۔اور پھر تم نے امیرالمومنین کہہ کر سلام نہیں کیا
مزید برآں تم نے میرا گستاخانہ انداز میں میرا نام لیا اور کنیت بھی نہ لی پھر تم بغیر میری اجازت کے بیٹھ گئے۔ حضرت طاؤوس نام بڑے ہی نرم اور دھیمے انداز سے فرمایا:
جہاں تک تیرے تخت کے نزدیک جوتے اتارنے کا تعلق ہے ذرا میری بات دھیان سے سنو! میں روزانہ پانچ مرتبہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں اپنے جوتے اتارتا ہوں اس نے آج تک نہ مجھے ڈانٹا ہے اور نہ ہی آج تک کبھی وہ مجھ سے ناراض ہوا ۔
رہی یہ بات کہ میں نے آپ کو امیر المومنین پکار کر سلام نہیں کیا ‘ تو اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ آپ کی امارت پر تمام مسلمان متفق نہیں۔
رہی یہ بات کے تمہارا نام لیا ہے اور اور كینت سے نہیں پکارا تو سنو اللہ تعالٰی نے اپنے مہبوب انبیاءکو نام لے کر پکارا ہے جس طرح کہ قرآن مجید نے ارشاد فرمایا۔

یانوح۔۔۔۔۔۔۔یا داؤ د ۔۔۔۔۔
یایحی ۔۔۔۔۔یا موسیٰ ۔۔۔۔
یاعيسی اور اپنے دشمنوں کو كینت سے پکاراہے ۔

جیسا کے تبت یدا ابی لهب و تب سے ظاہر ہے۔ رہی یہ بات کے میں آپ کی اجازت کے بغیر ہی بیٹھ گیا اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ میں نے امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو یہ فرماتے ھوئے سنا : اگر کسی جہنمی کو دیکھنا چاہیں تو اس شخص کو دیکھ لیں جو خود بیٹھا ہو اور دوسرے لوگ دست بستہ اس کے ارد گرد کھڑے ہوں۔
مجھے نا گوارا گزارا کے آپ وہ شخص ہو جسے اہل جہنم میں شمار کیا جائے۔ ہشام نے یہ سن کر شرمندگی سے اپنا سر جھکایا۔ پھر اس نے اپنا سر اٹھایا اور کہا اے ابو عبدالرحمان مجھے کوئی نصیحت کیجیے۔
آپ نے فرمایا میں نے امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا۔
جہنم میں لمبے اور موٹے ستونوں کی مانند خوف ناک سانپ ہوں گے اور خچروں کی مانند بچھو جو ہر اس حکمران کو ڈسیں گے جو آپنی رعایا میں انصاف نہیں کرتا یہ کہہ کر آپ وہاں سے اٹھے اور چلے گئے۔
حضرت طاؤوس ؓ بعض حکمرانوں کے پاس نصیحت اور تلقين کرنے کے لئے بخوشی چلے جایا کرتے تھے۔
اور بسااوقات تنبیہہ کے طور پر بلانے پر بھی حکمران کے پاس نہیں جاتے تھے ان کا فرزند ارحمند بیان کرتا ہے۔
کہ ایک سال میں ابا جان کے ساتھ حج کرنے کے لئے یمن سے روانہ ہوا ہم نے دوران سفر ایک شہر میں قیام کیا یہاں حکومت کی طرف سے ابن نبیح عامل مقرر تھا اور اس کی شہرت اچھی نہ تھی ‘ یہ حق کو پامال کرنے اور باطل کی طرفداری کرنے کی بنا پر بدنام ہو چکاتھا۔
ہم نماز ادا کرنے کے لئے مسجد میں گئے وہاں ابا جان کی آمد کا سن کر یہ بھی انہیں ملنے کے لیے آگیا ‘ اور اس نے آپ کے سامنے باادب ہو کر بیٹھ کر سلام عرض کی ‘ آپ نے اس کے سلام کا جواب نہ دیا بلکہ نفرت کی بنا پر اس سے اپنا مونہ پھیر لیا۔
اس نے آپکی دائیں طرف ہو کر بات کی آپ رو گردانی کرتے ہوئے بائیں مڑ گئے۔ اس نے بائیں جانب ہو کر بات کی تو آپ بدستور اس سے اعراض برتا۔ جب میں نے یہ منظر دیکھا تو میں نے آگے بڑھ کر اسے سلام کیا۔ اور عرض کی جناب میرے ابا جان نے آپ کو پہچانا نہیں۔
اس نے کہا: آپ کے ابا جان مجھے پہچانتے ہیں۔ یہ جو آپ مشاہدہ کر رہے ہیں یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے یہ مجھے اچھی طرح پہچانتے ہیں۔
پھر وہ خاموشی سے چلا گیا۔
جب ہم واپس اپنے کمرے میں آئے تو اب جانے غصے سے مجھے کہا۔ ارے احمق تم غیر حاضری میں ان لوگوں کے خلاف باتیں کرتے ہو اور جب یہ سامنے آتے ہیں تو تم بھیگی بلی بن جاتے ہو۔
 یہ منافقت نہیں تو اور کیا ہے؟

حضرت طاؤوس بن کیسان صرف حکمرانوں کو ہی وعظ و نصیحت نہیں کیا کرتے تھے بلکہ ہر اس شخص کو پندونصائح سے نواز تے جو آپ سے مانوس ہوتا یا کسی ضرورت پر آپ کے پاس آتا۔
مشور و معروف تالبعی حضرت عطا بن رہاح فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت طاؤوس نے مجھے ایک حکمران کے پاس جاتے ہوئے دیکھ لیا تو آپ نے مجھے ارشاد فرمایا :عطاء میری بات غور سے سنو اپنی کوئی ضرورت ایسے شخص کے سامنے پیش نہ کرو جس نے اپنے دروازے بند کر رکھے ہوں ‘ اپنے دروازوں پر دربانوں کو بٹھا رکھے ہوں بلکہ اپنی ہر ضرورت اس کے سامنے پیش کروں جس نے ہر دم اپنے دروازے اپنے بندوں کے لئے کھلے رکھے ہوئے ہیں۔ وہ تم سے مطالبہ کرتا ہے کہ مجھ سے مانگو اور یہ وعدہ کررکھا ہے کہ میں اپنے بندوں کی دعا کو قبول کروں گا.


اپنے بیٹے کو مخاطب کرکے یہ ارشاد فرمایا:
میرے لخت جگر عقلمندوں کی مجلس میں بیٹھا کریں۔
تجھے بھی لوگ عقلمند کہیں گے اگر تم عقل و دانش کے اس معیار پر نہ بھی ہو۔
یاد رکھو جاہلوں کی صحبت سے بچو ورنہ لوگ تجھے بھی جاھل کہیں گے ۔

گے۔ اگرچہ جہالت کے ساتھ تیرا دور کا بھی واسطہ نہ ہو۔
خوب اچھی طرح جان لو ہر چیز کا کوئی نہ کوئی بنیادی مقصد ہوتا ہے۔
اور انسان کا مقصد اپنے فرائض کو پورا کرنا اور اپنی سیرت کو کمال درجہ تک پہنچانا ہے۔
ان کا فرزند ارحجند عبداللہ اپنے باپ کے نقش قدم پر چلا اور ان کے اخلاق حسنہ کو اپنایا۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور نے حضرت طاؤوس کے بیٹے عبداللہ اور مالک بن انس کو ملاقات کے لیے بلایا جب یہ دونوں اس کے دربار میں گئے تو اس نے عبداللہ بن طاؤوس کی طرف دیکھا اور کہا۔
ہمیں کوئی ایسی نصیحت آموز بات بتلائیں جو آپ نے اپنے جان سے سنی ہو۔
اس نے کہا: مجھے ابا جان نے یہ حدیث سنائی ہے کہ قیامت کے دن سب سے زیادہ اس شخص کو عذاب ہوگا ‘ جسے اللہ تعالی نے لوگوں کا حکمران بنایا لیکن اس نے ظلم و تشدد سے کام لیا۔
حضرت مالک بن انس فرماتے ہیں کہ میں نے یہ بات سنتے ہی اس اندیشے سے اپنے کپڑے سمیٹ لیے کے خلیفہ غصے سے آگ بگولا ہو کر اس کی گردن اڑا دے گا اور کہیں خون کے چھینٹے میرے کپڑوں پر نہ پڑ جائیں۔ لیکن خلاف توقع ابوجعفر یہ تلخ حقیقت سن کر خاموش رہااور پر امن انداز میں ہمیں واپس جانے کی اجازت دی۔

حضرت طاؤوس بن کیسان نے سو سال سے کچھ زیادہ عمر پائی اس بڑھاپے میں بھی ان کا ذہن تروتازہ رہا ‘ فکرودانش میں بد ستور تيزی اور تازگی رہی ‘ گفتگو میں بے ساختگی ‘ کی طاقت اور روانی رہی ۔
عبداللہ شامی بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت طاوؤس کا چرچا سن کر ان سے علم حاصل کرنے کے لئے ان کے گھر حاضر ہوا۔ پہلے میں نے آپ کو نہیں دیکھا تھا۔ میں نے دروازہ کھٹکھٹایا اندر سے ایک بڑی عمر کے شیخ برآمد ہوئے۔ میں نے انہیں سلام کہا: اور پوچھا کیا آپ طاوؤس بن کیسان ہیں ‘ انہوں نے فرمایا: نہیں میں ان کا بیٹا ہوں ‘ میں نے یہ سن کر کہا ، سبحان اللہ ‘ اگر آپ ان کے بیٹے ہیں تو وہ تو انتہائی بڑھاپے کی وجہ سے اپنا حافظ کھو بیٹھے ہونگے ‘ میں تو بہت دور سے علم حاصل کرنے کے لئے ان کی خدمت میں حاضر ہوا تھا۔
اس نے کہا: آپ غمگین نہ ہو وہ بالکل ٹھیک ہے قرآن مجید کے عالم کا حافظ آخر دم تک خراب نہیں ہوتا۔ آپ اندر تشریف لائیں ‘ ان سے ملاقات کريں ۔ میں اندر گیا سلام عرض کی اور اپنی آمد کا مقصد بیان کیا کہ میں بڑی دور سے چند غلطی مسائل سمجھنے کے لئے حاضر ہوا ہوں۔ آپ نے فرمایا: ٹھیک ہے سوال کیجئے لیکن مختصر ۔
میں نے عرض کی میں
انشاءاللہ حتی المقدور مختصر سوال کرنے کی کوشش کروں گا۔ میں ابھی سوال کرنے کے لئے پر تول ہی رہا تھا کہ آپ نے

ارشاد فرمایا :کہاں میں آپ کے سامنے تورات ‘ زبور ‘ انجیل اور قرآن کا خلاصہ نہ بیان کر دوں؟
میں نے کہا کیوں نہیں زہے قسمت ارشاد فرمائیے۔
اللہ تعالی سے اتنا ڈرو کےاس کے خوف پر کسی اور کا خوف کا غلبہ نہ ہونے پائے۔
اور اس سے اس قدر سے امید وابستہ رکھو کہ یہ امید اس کے خوف پر غالب آجائے۔
اور لوگوں کے لئے وہی پسند کرو جو تم خود اپنے لئے پسند کرتے ہو۔
۱۰ ذی الحجہ ۱۰۶ ھجری کی شام کو حضرت طاوؤس بن کیسان حجاج کرام کے ہمراہ میدان عرفات سے مزدلفہ کی جانب لوٹ رہے تھے یہ ان کا چالیسواں حج تھا۔ جب مزدلفہ پہنچے اس کی پاکیزہ فضا میں پڑاؤ کیا مغرب اور عشاء ملا کر نماز ادا کی : آرام کی غرض سے ابھی زمین پر دراز ہوئے ہی تھے کہ موت نے آپ کو آلیا اور اپنے خاندان اور وطن سے دور اس حال میں اللہ تعالی کو جا ملے کے آپ نے احرام باندھا ہوا تھا ‘ زبان پر لبیک اللھم لبیک کا دلفریب ترانہ تھا اللہ تعالٰی سے ثواب کی امید نہاں خانہ دل میں سمائی ہوئی تھی۔ حج کی وجہ سے گناہوں سے یوں پاک ہو چکے تھے جیسے آج ہی والدہ نے انہیں جنم دیا ہو۔
جب صبح ہوئی زیارت کرنے والے لوگوں کا اسقرر ہجوم ہو چکا تھا .
کہ جنازہ اور دفن کے لیے امیر مکہ کو پولیس کی مدد لینا پڑی تاکہ وہ لوگوں کو پیچھے ہٹانے کا فریضہ سرانجام دے تاکہ آپ کے کفن د فن کا اہتمام آسانی سے کیا جا سکے۔بڑی بھاری تعداد میں لوگ جنازے میں شریک ہوئے نماز جنازہ پڑھنے والوں میں خلیفہ وقت ہشام بن عبدالمالک بھی موجود تھا۔

 

حضرت طاوؤس بن کیسان کےمفضل حالات زندگی معلوم کرنے کے لئے درج ذیل کتابوں کا مطالع کریں.

 

1طبقات بن سعد. 537/5
2طبقات خلیفہ بن خیاط 287
3تاریخ خلیفہ بن خیاط 236
 4التاریخ الکبیر 365/4
5تاریخ الفسی. 705/1
6البحرح والعدیل 500/4
7حلیتہ الاؤلیاء. 233/4
8طبقات النقاءلشیرازی 73
9اللباب 241/1
10تہذت اتمزیب 101/2
11تاریخ الاسلام 162/4
12تذکرة الفہاظ. 90/1
13العبر. 130/1
14طبقات القراء 341/1
15النجوم الزاہدة 24/1
16شزرت الذاھب 133/

 

 

حوالہ:
“کتاب: حَياتِ تابِعِين کے دَرخشاں پہلوُ”
تالیف: الاستاذ ڈاکتور عبد الرحمان رافت الباشا
ترجمه: محمود غضنفر
Table of Contents