Search
Sections
< All Topics
Print

28. Hukmaran-e-Habshah Ashamatul Najashi رحمہ اللہ.

حکمران حبشہ اصحمتہ النجاشی رحمہ اللّٰہ

 

 

جب نجاشی کی وفات ہوئی تو ہم یہ باتیں کر رہے تھے کہ اس کی قبر پر ہمیشہ انوار کی تجلیات دیکھی جائیں گی۔

( سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنھا)

 

حبشے کے حکمران نجاشی کا شمار تابعین ؒ میں بھی ہوتا ہے اور صحابہ رضی اللّٰہ عنہ میں بھی تابعین ؒ میں اس لئے کہ ان کی ملاقات ان صحابہ کرام کے ساتھ ہوئی جو قریش مکہ کے ظلم و ستم سے تنگ آکر ترک وطن کرکے حبشہ میں پناہ گزین ہوئے تھے اور نجاشی کو صحابی کا درجہ اس لئے حاصل ہے کہ اس کی نبی کریم ﷺ کے ساتھ خط و کتابت ہوئی تھی اور جب یہ فوت ہوا تو نبی اکرم ﷺ نے اس کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھائی جبکہ کسی اور کی آپ نے غائبانہ نماز جنازہ نہیں پڑھائی۔

اس کا نام اصحمہ بن اجبر تھا اور نجاشی کے لقب سے مشہور و معروف تھے ۔

آئیے چند مبارک لمحات اس نابغہ روزگار کی یاد میں گزار دیں جو اپنے دور کی ایک نامور شخصیت تھا۔


اصحمتہ کا والد حبشے کا حکمران تھا اور اس کا صرف یہی ایک بیٹا تھا۔
زعمائے حبشہ نے آپس میں مشورہ کیا کہ ہمارے حکمران کا صرف ایک ہی بیٹا ہے جو ابھی بچہ ہے اگر یہ حکمران فوت ہو گیا تو دستور کے مطابق یہ بچہ ہمارا حکمران بن جائیگا جو ہماری لٹیا ڈبودے گا اگر ہم اس حکمران کو قتل کردیں اور اس کے بھائی کو اپنا حکمران بنالیں تو بہت بہتر ہو گا کیونکہ اسکے بارہ بیٹے ہیں اس طرح طویل مدت تک وہ یکے بعد دیگرے حکمران بنتے رہیں

گے اور اپنے باپ کی زندگی میں بھی اس کے دست و بازو بنے رہیں گے اس طرح شیطان انہیں اکساتا رہا اور مسلسل ان کے دلوں میں وسوسے ڈالتا رہا یہاں تک کہ انہوں نے اپنے حکمران کو قتل کر دیا اور اس کے بھائی کو اپنا کو حکمران بنا لیا ۔


باپ کے قتل ہو جانے جے بعد اصحمہ اپنے چچا کی نگرانی میں پرورش پانے لگا جب اس ہونہا تر بروے کے چکنے چکنے پات واضح ہونے لگے اور اس کی دلکش خوبیاں نمایاں ہونے لگیں تو چچا کا دل اس کی طرف کھینچے لگا اور وہ اسے اپنے بیٹوں پر ترجیح دینے لگا۔

شیطان کے ورغلانے سے حبشی سرداروں کے دلوں میں خیال پیدا ہوا کہ ہمارا یہ حکمران اس نوجوان کی طرف مائل ہوتا دیکھائی دیتا ہے اگر اس نے حکومت کی باگ ڈور اس کے سپرد کر دی تو یہ ہم سے بری طرح اپنے باپ کا انتقام لے گا ہو سکتا ہے یہ اپنے باپ کے بدلے ہم سب کو قتل کرادے اس اندیشے کی بناء پر یہ حبشی سردار اپنے بادشاہ کے پاس گئے اور کہنے لگے بادشاہ سلامت ہم بڑے افسردہ ہیں ہمارا دل صرف ایک ہی صورت میں مطمئن ہو سکتا ہے اور وہ یہ کہ اس نوجوان کو قتل کردیں یا اسے ملک بدر کردیں کیوں کہ یہ جوان ہوتا جا رہا ہے ہمیں اندیشہ ہے کہ یہ حکومت کی باگ ڈور سنبھال لے گا اور حکمران بنتے ہی ہم سے اپنے باپ کا انتقام لے گا ۔ بادشاہ نے یہ بات سن کر غصے سے پھنکارتے ہوئے کہا تم بہت برے لوگ ھو پہلے تم نے اس کے باپ کو قتل کیا اور اب اس معصوم کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑھ گئے ہو کچھ شرم کرو، کچھ حیا کرو ، کچھ عقل کے ناخن لواللّٰہ کی قسم میں اس جرم کاارتکاب ہرگز نہیں کروں گا ۔

سرداروں نے کہا اگر تم ہماری بات نہیں مانو گے تو ہم خود اسے پکڑ کر ملک بدر کر دیں گے آپ ہمارا کیا بگاڑ سکتے ہیں سردار ان حبشہ کا انداز دیکھ کر بادشاہ خوفزدہ ہو گیا اور اپنے بھتیجے کو دل پر پھتر رکھ کر ملک بدر کرنے پر مجبور ہو گیا ۔

ابھی اصحمتہ کو ملک بدر کئے ہوئے دن کا کچھ حصہ ہی گزار تھا کہ ایک ایسا ہولناک واقعہ پیش آیا جوان کے وہم و گمان میں ہی نہیں تھا ہوا یہ کہ آسمان پر کالی گھنگور گھٹائیں چھاگئیں بجلی کڑ کنے لگی ، اچانک آسمانی بجلی بادشاہ پر گری اور اس نے اس کے جسم کو جلا کر بھسم کر دیا اور وہ موقعے پر ہی دم توڑ گیا ۔

حبشی سرداروں نے بادشاہ کے بیٹوں کی طرف رجوع کیا تاکہ وہ ان میں سے کسی کو اپنا بادشاہ بنا لیں لیکن ان میں سے کسی میں بھی یہ ذمہ داری سنبھالنے کی صلاحیت ہی نہیں تھی ۔ بڑی مایوس ہوئی اور یہ صورت حال دیکھ کر سب دل گرفتہ ہوئے سب سر پکڑ کر بیٹھ گئے اب کیا ہو گا ؟
دن بدن حالات بگڑنے لگے گردونواح کے حکمرانوں کو حبشے کی گرتی ہوئی ساکھ کا پتہ چلا تو اس پر قبضہ کرنے کا سوچنے لگے ۔ ان ناگفتہ بہ حالات میں بعض حبشی دانش وروں نے مشورہ دیا کہ جب تک ملک بدر کیے

 

ہوئے نوجوان اصحمتہ کو واپس لا کر تخت پر فروکش نہیں کیا جائے گا ملک کے حالات بہتر نہیں ہونگے ۔ اگر اپنا ملک حبشہ بچانا چاہتے ہو تو اسے ڈھونڈ کر واپس لانا ہو گا۔

حبشی قوم کے چند افراد اس کی تلاش میں نکلے بڑی کاوش اور تگ و دو کے بعد اس تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔
بڑی منت سماجت کر کے اسے واپس اپنے وطن آنے پر آمادہ کیا۔
واپس لاکر تاج اس کے سر پر رکھا اس کے ہاتھ پر بیعت کی اور اسے نجاشی کے لقب سے پکارنے لگے ۔

اس نے بڑی حکمت ، دانائی اور احتیاط سے کاروبار حکومت چلانا شروع کیا۔ اور ملک کے باشندوں کو بے چینی ، اضطراب اور اقتصادی بد حالی سے نکال کر عدل و انصاف کا گہوارہ بنا دیا ۔

               


نجاشی کرسی ء اقتدار پر متمکن رہا یہاں تک کہ اللّٰه تعالیٰ نے رشد ہدایت اور دین حق دے کر حضرت محمد ﷺ کو نبی بنا کر بھیجا اسلام قبول کرنے میں سبقت لے جانے والے ہدایت پانے والے آپ کی دعوت کو یکے بعد دیگرے قبول کرنے لگے اور قریش انہیں درد ناک سزائیں دینے لگے اور انہیں نقصان پہنچانے کے درپے ہوئے ۔
جب سر زمیں مکہ کی فضا کشادہ ہونے کے باوجود ان ، پر تنگ ہو گئی اور مشرکین نے ان پر تکالیف و مصائب کے ایسے تاز یانے برسائے جس سے مضبوط پہاڑ بھی لرز اٹھیں۔

مضبوط پہاڑ بھی لرز اٹھیں –
رسول اقدسﷺ نے اپنے جان نثاروں کی حالت زار دیکھ کر ارشاد فرمایا :
سر زمین حبشہ کا حکمران ایسا رحم دل اور مصنف مزاج ہے کہ اس کے ہاں کسی پر ظلم نہیں کیا جاتا تم وہاں چلے جاؤ, اس کے ہاں جا کر پناہ گزین ہو جاؤ, یہاں تک کہ اللّٰہ تعالیٰ تمہارے لئے راہیں کشادہ کر دے اور تمہارے لئے تنگی سے نکلنے کی راہ بنا دے-

             


اس طرح پہلے مرحلے پر ٨٠ افراد پر مشتمل مہاجرین کا قافلہ حبشہ روانہ ہوا جن میں چند خواتین بھی شامل تھیں – انہوں نے وہاں پہنچ کر امن چین اور سکون کا سانس لیا –
وہاں وہ تقوی اور عبادت کی حالاوت سے فیضیاب ہوئے بغیر اس اندیشے کے کوئی ان کے رنگ میں بھنگ ڈالے یا ان کی ایمانی حالاوت میں کوئی زہر گھولے, قریش کو جب پتا چلا کہ ٨٠ افراد پر مشتمل مسلمانوں کا قافلہ حبشہ میں امن و سکون کے ساتھ زندگی بسر کر رہا ہے تو وہ آپس میں مشورے کرنے لگے کہ کس طرح ان کا کام تمام کیا جا سکتا ہے یا انہیں مکے واپس لایا جا سکتا ہے –

             


 

قریش نے نجاشی کی طرف اپنے دو ایسے جگر گوشے بھیجے جو حکمت و دانائی اور سیاسی سمجھ بوجھ میں ید طولی رکھتے تھے – ان میں سے ایک عمرو بن عاص رضی اللّٰہ عنہ اور دوسرا عبداللّٰہ بن ابی ربعیہ رضی اللّٰہ عنہ تھا انکے ہمراہ نجاشی کے لئے سر زمیں حجاز کے بہترین قیمتی تحائف وافر مقدار میں بھیجے جب یہ دونوں حبشہ پہنچے نجاشی سے پہلے انہوں نے اس کے حاشیہ نشینوں سے ملاقات کی اور ہر ایک کی خدمت میں قیمتی تحائف پیش کئے اور انہیں اس بات سے آگاہ کیا کہ تمہاری سر زمین میں ہمارے ہاں سے چند دیوانے آکر رہائش پذیر ہوئے ہیں
جنہوں نے اپنے باپ دادا کے دین کو چھوڑ دیا ہے اور قوم کی وحدت کو پارہ پارہ کر دیا ہے آپ سے گزارش ہے کہ جب ہم بادشاہ سلامت سے بات کریں تو آپ بھی ہماری تائید کرتے ہوئے انہیں مشورہ دیں کہ وہ ان لوگوں کو بغیر کچھ دریافت کیے ہمارے سپرد کر دیں کیونکہ ہماری قوم کے سردار انکی طرز فکر, طرز عمل اور نظریات کے بارے میں خوب اچھی طرح جانتے ہیں –

             


عمرو بن عاص رضی اللّٰہ عنہ اور عبداللّٰہ بن ابی ربعیہ رضی اللّٰہ عنہ نجاشی کے دربار میں حاضر ہوئے دونوں قومی رواج اور درباری آداب کے مطابق اس کے سامنے سجدہ ریز ہوئے, نجاشی نے انہیں خوش آمدید کہا کیونکہ اس کے عمرو بن عاص رضی اللّٰہ عنہ کے ساتھ پہلے سے دوستانہ تعلقات تھے – پھر دونوں نے اس کی خدمت میں قیمتی تحائف اور سرداران قریش کا سلام پیش کیا اور خاص طور پر قریشی سردار اور ابو سفیان کی جانب سے خیر سگالی کا پیغام پہنچایا جس سے نجاشی بہت خوش ہوا اسے تحائف بہت پسند آئے انہیں اپنے پاس بٹھایا خاطر تواضع کی اور تبادلہ خیال کیا جب خوشگوار انداز میں قرب شاہی نصیب ہوا تو ان دونوں نے یہ بات کی کہ بادشاہ سلامت آپ کی راجد ھانی میں ہمارے پاس سے چند شرپسند عناصر آکر بھی آباد ہوئے ہیں جنہوں نے ہمارا دین بھی چھوڑ دیا ہے اور آپ کے دین کو بھی نہیں اپنایا وہ ایک نئے دین کے پیروکار بن کر آئے ہیں جس کو نہ ہم جانتے ہیں اور نہ آپ ہمارے قوم کے سرداروں نے ہمیں آپ کے پاس بھیجا ہے تاکہ ہم آپ کی خدمت میں یہ گزارش پیش کریں کہ ان افراد کو ہمارے سپرد کر دیں انہوں نے جو نیا دین ایجاد کیا ہے اور جو ایک نیا فتنہ پیدا کیا ہے اس کے بارے میں ان کی قوم ہی خوب اچھی طرح جانتی ہے – یہ باتیں سن کر نجاشی نے اپنے ہم نشینوں کی طرف سوالیہ انداز میں دیکھا تو سب نے بیک زبان ہو کر کہا بادشاہ سلامت یہ سچ کہتے ہیں ہم اس دین سے واقف نہیں ہیں جسے انہوں نے ایجاد کیا ہے – یہ جانیں اور ان کی قوم بہتر یہی ہے کہ انہیں واپس بھیج دیا جائے تاکہ یہ فتنہ کہیں ہمارے ملک میں نہ پھیل جائے –
نجاشی نے گرجدار آواز میں کہا نہیں ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا میں اس وقت تک انہیں کسی کے سپرد نہیں کروں گا جب تک خود ان سے بات نہ کر لوں اور ان کے عقائد دریافت نہ کرلوں- اگر ان کی نیتوں میں فتور اور ارادوں میں شر ہو گا تو انہیں ان کی قوم کے سپرد کردوں گا اور اگر ان کا موقف خیروبھلائی پر منبی ہو گا تو میں دل و جان سے ان کی حمایت کروں گا اور جب تک وہ یہاں رہنا چاہیں گے انہیں ہر طرح کا تحفظ اور سہولت مہیا کروں گا –
پھر وہ کہنے لگا میں اللّٰہ تعالیٰ کے فضل و کرم کو کبھی نہیں بھول سکتا جس نے مجھے اس سر زمین کا حکمران بنایا ہے اور مجھے مکاروں کی مکاری سے اور باغیوں کی بغاوت سے ہر طرح محفوظ ومامون رکھا ہے –

               


نجاشی نے صحابہ کرام رضی اللّٰہ عنہ کو ملاقات کے لیئے دعوت دی تو خوف زدہ ہو گئے آپس میں مشورے کرنے لگے کہ اگر بادشاہ نے ہمارے دین کے بارے میں سوال کیا تو کیا جواب دیں گے ؟
ان میں سے منجھے ہوئے صحابہ کرام رضی اللّٰہ عنہ نے کہا ہم وہی کچھ کہیں گے جو اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآن مجید میں کہا ہے –
ہم برملا اس پیغام کا اعلان کریں گے جو نبی اکرم ﷺ اپنے رب کی جانب سے لے کر آئے ہیں –
صحابہ کرام رضی اللّٰہ عنہ نجاشی کے دربار میں گئے کیا دیکھتے ہیں کہ وہاں قریش کے نمائندے عمرو بن عاص اور عبداللّٰہ بن ربعیہ بیٹھے ہوئے ہیں – اور حاشیہ نشین درباری لباس زیب تن کئے ہوئے تخت کے دائیں بائیں باادب اپنے سامنے کھلی کتابوں پر سر جھکائے بیٹھے ہیں دربار میں مکمل سناٹا چھایا ہوا ہے –
صحابہ کرام رضی اللّٰہ عنہ دربار میں داخل ہوئے سلام کیا اور مجلس کے آخر میں جہاں جگہ خالی تھی بیٹھ گئے, عمرو بن عاص نے انکی طرف دیکھا اور کہا تم بادشاہ سلامت کے سامنے سجدہ ریز کیوں نہیں ہوتے؟
صحابہ کرام نے جواب دیا کہ ہم اللّٰہ کے سوا کسی کو سجدہ نہیں کرتے-
نجاشی نے بڑے تعجب سے اپنے سر کو جنبش دی اور انکی طرف نرمی سے دیکھتے ہوئے ارشاد فرمایا :
آپ نے وہ کون سا نیا دین ایجاد کر لیا ہے کہ جس کی وجہ سے اپنی قوم کے دین کو چھوڑ دیا ہے اور میرے دین میں بھی تم داخل نہیں ہوئے ؟
حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللّٰہ عنہ نے بات کرنے کی اجازت طلب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا بادشاہ سلامت ہم نے اپنے لئیے کوئی نیا دین ایجاد نہیں کیا صورت حال یہ ہے کہ ہمارے پاس حضرت محمد ﷺ اپنے رب کی جانب سے ایک ایسا طرز حیات لے کر آئے ہیں جو ہدایت اور حق پر منبی ہے جس نے ہمیں تاریکیوں سے نور کی طرف نکالا ہم جاہل قوم تھے, بتوں کے پجاری تھے, رشتوں کا تقدس پامال کرتے تھے, مردار کھاتے تھے, بے حیائی کے مرتکب تھے, پڑوسی کے حقوق کو پامال کیا کرتے تھے ہم میں سے طاقتور کمزور کو رگیدتا تھے, ہم ان گھناؤنے جرائم میں بری طرح ملوث تھے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے ہمارے پاس ایک رسول بھیجا جس کے خاندان کو ہم جانتے تھے, جس کی صداقت, امانت اور پاکدامی کے ہم قلب صمیم سے معترف تھے, اس نے ہمیں اللّٰہ تعالیٰ کی طرف دعوت دی اور ہمیں یہ حکم دیا کہ ہم صرف ایک اللّٰہ کی عبادت کریں, علاوہ ازیں ہمیں نماز قائم کرنے, زکواۃ ادا کرنے اور رمضان کے روزے رکھنے کی ترغیب دی, نیز ہمیں یہ تلقین کی کہ پتھروں اور بتوں کی پوجا کو یکسر چھوڑ دیں اور اسی طرح ہمیں سچ بولنے, امانت ادا کرنے , صلہ رحمی کرنے, پڑوسیوں سے حسن سلوک سے پیش آنے حرام سے بچنے اور خون ریزی سے بچنے کا حکم دیا, اور ساتھ ہی ساتھ اس نے ہمیں بے حیائی کے ارتکاب, جھوٹ بولنے اور یتیم کا مال کھانے سے منع کیا, تو ہم نے صدق دل سے آپ کی صداقت کا اعتراف کیا, آپ کی رسالت پر ایمان لے آئے اور آپ کی پیش کردہ شریعت کی پیروی کرنے لگے, ہم ایک اللّٰہ کی عبادت کرنے لگے جس کا کوئی شریک نہیں ہم نے ہر اس چیز کو حرام قرار دے دیا جسے آپ نے ہمارے لئیے حرام قرار دیا تھا, اور ہر اس چیز کو حلال سمجھا جسے آپ نے ہمارے لئیے حلال قرار دیا تھا, تو اس بنا پر ہماری قوم ہماری دشمن بن گئی اور ہمیں المناک سزا دینے لگی تاکہ وہ ہمیں دین سے منحرف کر دے اور پھر سے ہمیں بتوں کے پجاری بنا دے جبکہ ہم ایک اللّٰہ کی عبادت کے خوگر بن چکے تھے جب انہوں نے ہم پر ظلم و ستم کی انتہا کر دی, ہمارا عرصہ حیات تنگ کر دیا ہمارے اور دین کے مابین حائل ہونے لگے تو ہم پناہ حاصل کرنے کے لئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ کا انتخاب ہم نے محض اس بنا پر کیا کہ یہاں ہم پر ظلم نہیں کیا جائیگا-
نجاشی نے حضرت جعفر رضی اللّٰہ عنہ سے پوچھا کیا آپ کے پاس اس پیغام کا کوئی نمونہ ہے جو وہ اپنے رب کی طرف سے لائے ہیں –

فرمایا ہاں!
کہا وہ مجھے بھی سنائیے-
حضرت جعفر رضی اللّٰہ عنہ نے سورہ مریم کی درج ذیل ابتدائی آیات پڑھ کر سنائیں-
*واذ کر فی کتاب مریم اذا انتبذت من اھلھا مکانا شرقیا فاتخذت من دونھم حجابا فارسلنا الیھا روحنا فتمثل لھا بشرا سویا ۝ قالت انی اعوذ بالرحمن منک ان کنت تقیا ۝ قال انما انا رسول ربک لاھب لک غلاما ذکیا ۝ قالت انی یکون لی غلام ولم یمسنی بشرو لم اک بغیا ۝ قال کذلک قال ربک ھو علی حین ولنجعله آیته للناس ورحمته منا و کان امرا مقضیا ۝ فحملته فانتبذت به مکانا قصیا ۝ فاجاء ھا المخاض الی جذع النخله قالت یالیتنی مت قبل ھذا وکنت نسیا منسیا ۝ فناداھا من تحتھا الاتحزنی قد جعل ربک تحتک سرپا ۝*
اور (اے نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم) اس کتاب میں مریم کا حال بیان کرو جب کہ وہ اپنے لوگوں سے الگ ہو کر شرقی جانب گوشہ نشین ہو گئی تھی اور پردہ ڈال کر ان سے چھپ بیٹھی تھی اس حالت میں ہم نے اس کے پاس اپنی روح (یعنی فرشتے) کو بھیجا اور وہ اس کے سامنے ایک پورے انسان کی شکل میں نمودار ہو گیا,

 

مریم یکایک بول اٹھی کہ اگر تو کوئی خدا ترس آدمی ہے تو میں تجھ سے خدائے رحمن کی پناہ مانگتی ہوں اس نے کہا تو تیرے رب کافر ستادہ ہوں اور اس لئے بھیجا گیا ہوں کہ تجھے ایک پاکیزہ لڑکا دوں مریم نے کہا میرے ہاں کیسے لڑکا ہو گا جب کہ مجھے کسی بشر نے چھوا تک نہیں اور میں کوئی بد کار عورت نہیں ہوں- فرشتے نے کہا ایسا ہی ہو گا تیرا رب فرماتا ہے کہ ایسا کرنا میرے لئیے بہت آسان ہے اور ہم یہ اس لئے کریں گے کہ اس لڑکے کو لوگوں کے لئے نشانی بنائیں اور اپنی طرف سے ایک رحمت اور یہ کام ہو کر رہتا ہے, مریم کو اس بچے کا حمل رہ گیا اور وہ اس حمل کو لئے ہوئے ایک دور کے مقام پر چلی گئی پھر زچگی کی تکلیف نے اسے ایک کھجور کے درخت کے نیچے پہنچا دیا وہ کہنے لگی کاش میں اس سے پہلے ہی مر جاتی اور میرا نام و نشان نہ رہتا فرشتے نے پائنتی سے اس کو پکار کر کہا غم نہ کر تیرے رب نے تیرے نیچے ایک چشمہ رواں کر دیا ہے –

                         


یہ آیات سن کر نجاشی رونے لگا یہاں تک کہ اس کی داڑھی آنسووں سے تر ہو گئی-
دربار کے تمام حاشیہ نشین بھی یہ کلام سن کر رونے لگے آنسووں سے ان کے سامنے کھلے ہوئے صحیفے اور کتابیں بھیگ گئیں –
نجاشی نے عمرو بن عاص اور اس کے ساتھی عبداللّٰہ بن ربعیہ کی طرف دیکھا اور کہا کہ یہ پیغام جو ابھی ہمیں پڑھ کر سنایا گیا ہے اور وہ پیغام جو عیسی علیہ السلام لے کر آئے تھے دونوں کا منبہ ایک ہی ہے –
پھر ان سے کہا اللّٰہ کی قسم میں ان پاکیزہ نفس لوگوں کو آپ کے سپرد نہیں کر سکتا اور نہ ہی جب تک میں زندہ ہوں کوئی مجھے اس کام کے لئے ور غلا سکتا ہے – یہ بات کہی اور اٹھ کھڑا ہوا تو سب حاشیہ نشین بھی اٹھ کھڑے ہوئے اور مجلس اختتام پذیر ہوگئی –

                           


عمرو بن عاص یہ صورت حال دیکھ کر غیض و غضب سے پیچ و تاب کھانے لگا اور اس کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے, پھر اپنے ساتھی سے کہنے لگا قسم خدا کی کل میں نجاشی کو ضرور ملوں گا اور اسے ایسی بات بتاؤں گا جس سے ان کے کئیے دھرے پر پانی پھر جائے گا ساتھی قدرے نرم دل تھا اس نے کہا عمرو ایسا نہ کرو آخر وہ ہمارے ہی رشتہ دار ہیں کیا ہوا اگر آج ہمارے درمیان کچھ اختلافات رونما ہو گئے ہیں جس کی بناء پر انہوں نے ہماری مخالفت کی ہے چھوڑیے جانے دیجیے-
اس نے کہا خدا کی قسم میں نجاشی کو ضرور بتاوں گا کہ یہ لوگ عیسی بن مریم کو بندہ سمجھتے ہیں انہوں نے بڑی صفائی کے ساتھ اس بات کو آپ سے چھپائے رکھا ہے – یہ عیسی علیہ السلام پر تہمت ہے جس کے ہہ مرتکب ہوئے ہیں –
دوسرے دن عمرو بن عاص نجاشی کے پاس گیا اور کہا بادشاہ سلامت ان لوگوں نے آپ کو ایک بات سنادی اور ایک بات چھپائے رکھی یہ لوگ

عیسی بن مریم کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ ایک بندہ ہے, یہ بات سن کر نجاشی نے انہیں اپنے پاس بلایا اور دریافت کیا کہ عیسی بن مریم کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے ؟
حضرت جعفر رضی اللّٰہ عنہ نے فرمایا ہم عیسی علیہ السلام کے متعلق وہی کچھ کہتے ہیں جو نبی اکرم ﷺ نے ہمیں بتایا –
نجاشی نے کہا وہ آپ کے پاس کیا پیغام لائے ہیں ؟ عیسی علیہ السلام کے بارے میں انہوں نے آپ کو کیا بتایا ہے ؟
حضرت جعفر رضی اللّٰہ عنہ نے فرمایا وہ اللّٰہ کا بندہ, اس کا رسول اور اس کا وہ کلمہ ہے جو پاکدامن مریم کی طرف القاء کیا گیا –
نجاشی نے کہا بخدا عیسی علیہ السلام بلکل ایسے ہی ہیں جس کا اظہار آپ نے کیا ہے ان میں اور آپ کی بات میں ذرا برابر بھی فرق نہیں –
یہ صورتحال دیکھ کر دربار میں موجود بڑے بڑے اساطین جزبز ہوئے اور کھسر پھسر کرنے لگے کہ نجاشی نے آج یہ کیا عجیب انداز اختیار کیا ہے اس نے ان کی طرف غضبناک انداز میں دیکھا اور کہا تم جاؤ بھاڑ میں سچائی یہی ہے جس کا اظہار آج یہاں ہوا ہے –
پھر حضرت جعفر رضی اللّٰہ عنہ اور ان کے ساتھیوں سے کہا میرے اس ملک میں امن, سکوں اور آرام سے رہو جو تمہارے درپے آزاد ہو گا نقصان اٹھائے گا – یقینا جو تمہارے درپے آزاد ہو گا نقصان اٹھائےگا –
مجھے کوئی سونے کا پہاڑ دے کر یہ کہے کہ میں تمہیں کوئی گزند

,پہنچاؤں تو میں اس پیشکش کو ٹھکرادوں گا اور تمہیں کوئی ذرا برابر بھی تکلیف دینے کے لئیے امادہ نہیں ہوں گا –
پھر اپنے دربان سے کہا عمرو بن عاص اور اس کے ساتھی کو تمام تحائف لوٹا دو مجھے ان کی کوئی ضرورت نہیں اللّٰہ تعالیٰ نے مجھے میرا ملک رشوت دے کر نہیں لوٹایا تھا کہ اب میں لوگوں سے تحائف کی صورت میں رشوت لینا شروع کردوں-

                     


اساطین حبشہ لوگوں میں کھل کر اظہار خیال کرنے لگے کہ نجاشی نے اپنا دین چھوڑ دیا ہے اور ایک دوسرے دین کو اپنالیا ہے وہ عوام الناس کو برانگے خته کرنے لگے ہیں اس سے تعلق ناطہ توڑ دو حبشی اس آواز پر جمع ہونے لگے اور انہوں نے اس کی بیعت ختم کرنے کا پختہ ارادہ کر لیا –
نجاشی نے حضرت جعفر ابی طالب رضی اللّٰہ عنہ اور اس کے ساتھیوں کو اس نئی صورت حال سے آگاہ کیا –
ان کے لئیے کشتیاں تیار کرائیں اور کہا میری اب قوم سے ٹھن گئی ہے اگر میں اس کے مقابلے میں پسپا ہو گیا تو ان کشتیوں پر سوار ہو کر جہاں چاہیں چلے جائیں اور اگر میں کامیاب ہو گیا تو پھر آپ عزت و اکرام سے رہائش رکھنا-
پھر نجاشی نے ہرن کا باریک چمڑا منگوایا اور اس پر یہ لکھا :


*اشھد ان لا اله الا اللّٰه وان محمد اعبدہ و خاتم*

 

*رسله واشھد ان عیسی عبدہ ورسوله وروحه وکلمته القاھا الی مریم*
(میں گواہی دیتا ہوں کہ اللّٰہ کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں اور محمد ﷺ اس کے بندے اور اس کے آخری رسول ہیں)
اور میں گواہی دیتا ہوں کہ عیسی اس کا بندہ اس کا رسول اس کی روح اور کلمہ ہے جسے اس نے مریم کی طرف القاء کیا پھر یہ چمڑا اپنے سینے پر باندھ لیا اور اس کے اوپر جبہ پہن لیا اور اللّٰہ کا نام لے کر ان لوگوں کی طرف چل دیئے جنہوں نے آپ کے خلاف بغاوت کر رکھی تھی –
جب ان کے پاس پہنچے تو باواز بلند ان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:
اے حبشہ کے رہنے والو میرے کردار کے بارے میں تمھارا کیا خیال ہے ؟ میں نے اپنی زندگی کے دن تم میں کیسے گزارے؟
سب نے کہا : بہت اچھے دن گزرے آپ کے اخلاق, کردار پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں –
نجاشی نے کہا تو پھر آپ نے میرے خلاف یہ کیا ہنگامہ بپا کر رکھا ہے ؟
انہوں نے کہا آپ نے ہمارا مذہب چھوڑ دیا ہے اب تمہارا خیال ہے کہ عیسی علیہ السلام انسان ہے –
نجاشی نے کہا : عیسی علیہ السلام کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے ؟
سب نے بیک زبان ہو کر کہا وہ اللّٰہ کے بیٹے ہیں – نجاشی نے سینے پر

 

ہاتھ رکھ کر ان خیالات کا اظہار کیا جو چمڑے پر لکھ کر سینے پر باندھا ہوا تھا – اور بیانگ دہل یہ کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ عیسی علیہ السلام ہو بہو یہی کچھ ہیں اس سے زیادہ نہیں – یہ باتیں سنکر سب لوگ خوش ہو گئے مجمع بکھر گیا اور سب راضی خوشی گھروں کو واپس لوٹ گئے –

                               


نجاشی اور قوم کے مابین پیدا ہونے والے اختلافات کا نبی اکرم ﷺ کو علم ہوا تو کبیدہ خاطر ہوئے لیکن مہمان مہاجرین کے ساتھ نجاشی کے حسن سلوک سے بہت خوش ہوئے اور اس سے بڑھ کر آپ کو اس بات پر خوشی ہوئی کہ نجاشی نے اسلام قبول کر لیا ہے اور قرآنی تعلیمات کے سامنے سرنگوں ہو گیا اس کے بعد جوں جوں وقت گزرتا گیا نبی اکرم ﷺ اور نجاشی کے درمیان تعلقات خوشگوار اور گہرے ہوتے گئے –
سن ۷ ھجری کے پہلے مہینے رسول اکرم ﷺ نے چھ سرابراہان مملکت کو خط لکھے جن میں انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت پیش کی گئی –
ان خطوط میں ایمان کی خوبیوں اور کفرو شر کے خطرناک نتائج کو اجاگر کیا گیا تھا, خطوط پہنچانے کے لئے چھ تجربہ کار صحابہ کرام کا انتخاب کیا گیا ان صحابہ میں سے ہر ایک نے اس علاقے کی زبان سے آگاہی حاصل کی جہاں اس نے سفارش کے فرائض سرانجام دینے تھے, پھر یہ فریضہ ادا کرنے کے لئے ایک ہی دن روانہ ہوئے ان میں سے حضرت عمرو بن امیہ ضمری حبشہ کے حکمران نجاشی کے پاس گئے –

 

حضرت عمرو بن امیہ نجاشی کے دربار میں پہنچے اسے سلام کہا اس نے بڑی خوش اسلوبی سے سلام کا جواب دیا اور انہیں خوش آمدید کہا –
جب دربار میں موجود تمام حاشیہ بردار بیٹھ گئے تو انہوں نے نجاشی کی خدمت میں نبی اکرم ﷺ کا خط پیش کیا اس نے خط کو انتہائی عقیدت کے ساتھ کھولا دیکھا کہ اس میں آپ نے اسلام قبول کرنے کی دعوت دی ہے –
نجاشی نے وفور عقیدت سے خط کو اپنی آنکھوں سے لگایا اور خط کے احترام میں اپنے تخت سے نیچے اتر آیا پھر اس نے بھری مجلس میں اپنے اسلام قبول کرنے کا اعلان کر دیا –
اللّٰہ اکبر واللّٰہ الحمد سبحان اللّٰہ العظیم کلمہ شہادت پڑھتے ہوئے اس نے برملا سب کے سامنے یہ بات کہی !
اگر حالات ساز گار ہوتے تو میں ابھی حضرت محمد ﷺ کے پاس پہنچتا آپ کا دیدار کرتا آپ کے قدموں میں بیٹھتا-
پھر اس نے نبی اکرم ﷺ کی خدمت اقدس میں جوابی خط لکھا جس میں اپنے اسلام قبول کرنے کی روئیداد لکھی-
پھر حضرت عمرو بن امیہ نے ایک دوسرا خط نجاشی کو دیا جس میں ابو سفیان بن حرب کی بیٹی رملہ کے ساتھ شادی کا پیغام تھا –
ام المئومنین ام حبیبہ رملہ بنت ابی سفیان کی ابتدائی داستان بڑی ,غمناک, ہے لیکن اس داستان کا انجام بڑا خوشگوار ہے –
آئیے ذرا اس داستان کی جھلک ملاحظہ فرمائیں –

                             


رملہ بنت ابی سفیان نے قریش کے سردار اپنے اباجان کے خداؤں کا انکار کر دیا تھا یہ اور ان کا خاوند عبیداللّٰہ بن حجش ایک اللّٰہ پر ایمان لے آئے جس کا کوئی شریک نہیں اور اس کے نبی حضرت محمد ﷺ کی رسالت کی تصدیق کر دی ,قریش نے ان دونوں میاں بیوی کا عرصہ حیات تنگ کر دیا وہ انہیں اذیت ناک سزائیں دینے لگے یہاں تک کہ ان کا مکہ میں رہنا دشوار ہو گیا اور یہ بھی اس قافلے میں شریک ہو گئے جو اپنے ایمان اور جان کو بچانے کے لئے حبشے کے حکمران نجاشی کے پاس جا کر پناہ گزین ہوا تھا -انہیں بھی وہاں وہی امن و سکون اور چین نصیب ہوا تھا جس سے دوسرے مہاجرین فیضیاب ہوتے تھے ام حبیبہ نے یہ سمجھا کہ اب مشکل کی گھڑی بیت گئی سکھ چین کا دور شروع ہو گیا لیکن تقدیر نے اپنے دامن میں کیا چھپا رکھا ہے اور مستقبل میں ایک ایسا ہولناک واقعہ رونما ہونے والا ہے جو اسے تڑپا کے رکھ دے گا اس کا اسے وہم و گمان ہی نہ تھا –
ہوا یہ کہ ان کا خاوند عبید اللّٰہ بن حجش مرتد ہو گیا اس نے عیسائیت قبول کر لی اسلام اور اہل اسلام کو مزاق کرنے لگا-
شراب خانوں کا رخ کیا جام پہ جام چڑھانے لگا- ام الخبائث کی اسے ایسی لت پڑی کہ کبھی اس کی طبیعت سیر ہی نہ ہوتی, اب ام حبیبہ کے لئیے میں سے ایک کڑوی گولی نگلنا ضروری ہو گئی یا وہ طلاق لے لیں یا عیسائیت قبول کر لیں-

               


ام حبیبہ کے سامنے اب تین صورتیں تھیں – پہلی یہ کہ خاوند کی بات مانتے ہوئے عیسائیت قبول کر لیں – اس سے دنیا کی رسوائی اور آخرت کا عذاب لازم آتا دوسری صورت یہ تھی کہ وہ مکہ میں اپنے والد کے گھر واپس چلی جائے جو کہ شرک اور کفر کا گھڑ تھا- اور تیسری صورت یہ تھی کہ طلاق لے کر حبشہ میں اکیلی ہی صبرو شکر کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرے جبکہ چھوٹی بچی حبیبہ بھی اس کی گود میں تھی-
آخر کار اللّٰہ تعالٰی کی رضا کو ہر چیز پر ترجیح دیتے ہوئے بھلے دنوں کی امید پر حبشہ میں ہی رہنے کا پختہ ارادہ کر لیا –

                       


ام حبیبہ کی داستان غم زیادہ طویل نہ ہوئی تھی کہ تھوڑے ہی عرصہ کے بعد خاوند نشے کی حالت میں چل بسا- عدت کے دن پورے ہوتے ہی مسرت شادمانی اور خوشحالی نے خیر مقدم کیا ایک روز صبح کے سہانے وقت میں ابھی سورج کی چمکیلی کرنوں نے آنگن میں ضوفشانی کی ہی تھی کہ گھر کے دروازے پر دستک ہوئی دروازہ کھول کر دیکھا – نجاشی کی کنیزا برہہ کھڑی مسکرا رہی ہے اور مسکراتے ہوئے سلام عرض کی اور ساتھ ہی یہ پیغام دیا کہ بادشاہ سلامت نے آپ کو سلام کہا ہے اور یہ خوش خبری دی ہے کہ رسول اللّٰہ ﷺ نے آپ کو اپنے لئیے رفیقہ حیات کے طور پر منتخب کیا ہے اور نکاح کے لئیے بادشاہ سلامت کو وکیل مقرر کیا ہے – آپ اپنی طرف سے جسے پسند کریں وکیل نامزد کر دیں یہ خبر سن کر ام حبیبہ کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی اور وفور مسرت و شادمانی سے اسے خیرو برکت کی دعائیں دینے لگی اللّٰہ تجھے خوش رکھے, تیرے بھاگ جاگتے رہیں, جیتی رہو, شاد رہو آباد رہو ہمیشہ خوشیاں تیرے سنگ رہیں-
پھر کہا میری طرف سے خالد بن سعید بن عاص وکیل ہونگے وہ میرے قریبی رشتہ دار ہیں –

           


ام حبیبہ کی رسول اکرم ﷺ کے ساتھ رسم نکاح کی تقریب میں شرکت کے لئے حبشہ میں مقیم صحابہ کرام رضی اللّٰہ عنہ نجاشی کے محل میں جمع ہوئے سب کے وہاں اکٹھا ہونے پر نجاشی نے اللّٰہ تعالیٰ کی حمدو ثناء بیان کی پھر حاضرین کو آگاہ کرتے ہوئے یہ کہا کہ رسول اقدس ﷺ نے یہ پیغام بھیجا ہے کہ رملہ بنت ابی سفیان کے نکاح کا آپ کے ساتھ اہتمام کیا جائے اس لئے آپ کو یہاں دعوت دی گئی ہے تاکہ آپ اس خوشی کی تقریب میں شریک ہوں اور میں نے رسول اکرم ﷺ کی نیابت کے فرائض سرانجام دیتے ہوئے چارسو دینار مہر مقرر کیا ہے –
پھر خالد بن سعید بن عاص کھڑے ہوئے اللّٰہ کی تعریف بیان کی استعانت طلب کی اور نبی اقدس پر درودو سلام بھیجنے کے بعد کہا –
میں نے رسول اللّٰہ ﷺ کی طلب اور خواہش کا احترام کرتے ہوئے اپنی موکلہ رملہ بنت ابی سفیان کا رسول اکرم ﷺ کے ساتھ نکاح کیا, اللّٰہ تعالیٰ اپنے رسول اقدس کے لئے انکی رفیقہ حیات کو باعث برکت بنائے اور اس کی خوش نصیبی پر میں اسے مبارک باد دیتا ہوں –

                         


نجاشی نے اپنے بحری بیڑے میں سے دو کشتیاں تیار کیں اور ان پر ام المومنین رملہ بنت ابی سفیان انکی بیٹی حبیبہ حبشہ مین پناہ گزین صحابہ اور ان حبشی باشندوں کو مدینہ منورہ روانہ کیا جو اللّٰہ و رسول پر ایمان لاتے ہوئے دائرہ اسلام میں داخل ہو چکے تھے –
مسلمان اہل حبشہ کا دلی شوق تھا کہ وہ نبی اقدس ﷺ کی زیارت کریں, ان سے فیض حاصل کریں اور ان کے پیچھے نمازیں پڑھیں اس قافلے کا امیر حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللّٰہ عنہ کو مقرر کیا گیا –
اس موقعہ پر ام المئومنین ام حبیبہ کی خدمت میں بطور تحفہ وہ تمام قیمتی عطریات پیش کی گئیں جو نجاشی کی بیگمات کی ملکیت تھیں- اور قیمتی تحائف رسول اقدس کی کی خدمت میں پیش کرنے کے لئے امیر قافلہ کے سپرد کئیے گئے –
ان تحائف میں تین عمدہ دیدہ زیب اور نفیس ترین چھڑیاں تھیں- ان میں سے ایک چھڑی رسول اقدس ﷺ نے اپنے لئے رکھ لی دوسری حضرت عمر بن خطاب رضی اللّٰہ عنہ کو دے دی اور تیسری حضرت علی بن ابی طالب رضی اللّٰہ عنہ کو عنایت کر دی-
بسا اوقات حضرت بلال رضی اللّٰہ عنہ وہ چھڑی پکر کر رسول اقدس ﷺ کے آگے آگے چلتے جو آپ نے اپنے لئے رکھ لی تھی رسول اقدس ﷺ اور حضرت بلال رضی اللّٰہ عنہ دوران سفر اس چھڑی کو استعمال کرتے جہاں مسجد نہ ہوتی تو اس سے قبلے کا تعین کرنے کے لئے لکیر لگاتے عیدین اور نماز استسقاء کے وقت ہمراہ لے جاتے, حضرت بلال رضی اللّٰہ عنہ یہ چھڑی تھامے کئی مرتبہ صدیق اکبر رضی اللّٰہ عنہ کے آگے آگے بھی چلے, حضرت عمر بن خطاب رضی اللّٰہ عنہ کے دور خلافت میں حضرت بلال کے ہاتھ میں یہی چھڑی ہوا کرتی تھی – اس کے بعد یہ سعد قرظی کے پاس چلی گئی-
نجاشی نے نبی اکرم ﷺ کو سونے کی ایک انگوٹھی بھی بطور تحفہ دی لیکن آپ نے یہ انگوٹھی اپنی نواسی امامہ بنت زینب کو پہنادی-

                           


فتح مکہ سے تھوڑا عرصہ پہلے اصحمہ نجاشی اللّٰہ کو پیارے ہو گئے – رسول اقدس ﷺ نے وفات کی خبر سن کر صحابہ کرام رضی اللّٰہ عنہ کو نماز جنازہ پڑھنے کے لئے بلایا اور فرمایا تمہارا بھائی اصحمہ نجاشی وفات پا گیا ہے – آپ نے امامت کی اور سب نے غائبانہ نماز جنازہ پڑھی اللّٰہ اصحمہ نجاشی سے راضی ہو گیا اور اللّٰہ نے اسے راضی کر دیا اور سدا بہار جنتوں میں جگہ عطا کی –
اس نے مظلوم مسلمانوں کی مدد کی, خوف زدہ اہل ایمان کی ڈھارس بندھائی اور اس خدمت سے محض اللّٰه اور اسکے رسول کو راضی مقصود تھا۔

                           


حکمران حبشہ اصحمہ نجاشی کے مفصل حالات زندگی معلوم کرنے کے لیے درج ذیل کتب کا مطالعہ کیجئے ۔

 

١- السیرة النبویہ لابن ہشام
١/ ٣٥٦ – ٣٦٩
٢- اعلام النساء للزہبی صفحہ
٨١- ١٢٣- ٢٥١
٣- تاریخ خلیفہ
صفحہ٩٩١
٤- اسد الغابہ
 ١/ ١١٩
٥- تہزیب الاسماء واللغات
٩/ ٢٨٧
٦- مجمع الزوائد
٩/ ٤١٩
٧- الاصابہ
١/ ١٧٧

 

حوالہ:
“کتاب: حَياتِ تابِعِين کے دَرخشاں پہلوُ”
تالیف: الاستاذ ڈاکتور عبد الرحمان رافت الباشا
ترجمه: محمود غضنفر

 

Table of Contents