Search
Sections
< All Topics
Print

09. Auwl ka Bayan.

*عول کا بیان* 

 

 *عول کے لغوی معنی:* عربی لغت میں عول کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ مثلا ظلم کرنا ، مائل ہونا، بلند اور اونچا کرنا جیسا کہ (عَالَ الْمِيزَانَ) اور اس سے (عَالَتِ الْفَرِيضَةَ) ہے۔

 

 *اصطلاحی معنی:* 

 

کسی مسئلہ میں جب وارثوں کے حصوں کا مجموعہ اس کے اصل مسئلہ سے زیادہ ہو جائے تو اس مسئلہ کو عائلہ کہتے ہیں۔ حقیقت میں عول والے مسئلہ میں ہر وارث کو اس کے اصل حصہ سے کم حصہ ملتا ہے۔ عائلہ مسئلوں میں اس کے اصل مسئلہ کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے اور اس کی جگہ وارثوں کے حصوں کے مجموعہ کو بطور اصل مسئلہ استعمال کیا جاتا ہے۔

 

 *مثال:* 

 

 ایک عورت فوت ہو گئی اور اپنا خاوند ، ماں اور عینی بہن کو زندہ چھوڑا۔

 

 *حل :* 

 

اصل مسئلہ (٦) ہے خاوند کو (١/٢ )(٣) ملے، ماں کو (١/٣) (٢) ملے اور عینی بہن کو ( ١/٢ ) (٣)ملے۔ ان کے حصوں کا مجموعہ عہ (٣+٢+٣=٨) (٨) ہے۔ جو اصل مسئلہ (٦) سے زیادہ ہے۔

 

٨

٣خاوند١/٢

٢ماں١/٣

٣ عينى بہن ۱/۲

جائیداد کی تقسیم کے وقت اس مسئلہ (٦) کو نظر انداز کر کے (٨) کو بطور اصل مسئلہ استعمال کیا جاتا ہے۔

 

 *اسلام میں پہلا عول* 

 

 نبی اکرم صلى اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں کوئی عول کا مسئلہ ظاہر نہیں ہوا تھا۔ پہلا عول والا مسئلہ سید نا عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں پیش آیا جب ایک عورت فوت ہوگئی اور اپنا خاوند اور دو عینی بہنیں زندہ چھوڑیں۔ خاوند اپنا حصہ لینے کے لیے سید نا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا۔ پھر بہنیں اپنا حصہ لینے کے لیے حاضر ہوئیں۔ تو آپ نے فرمایا:

 

 *اما آذری أيكُم قَدَّمَهُ اللهُ وَإِيَّكُمْ أَخَرَهُ*

 

 “اگر میں خاوند کو اس کا پورا حصہ دیتا ہوں تو بہنوں کے حصہ میں کمی آجاتی ہے۔ اور اگر بہنوں کو پہلے ان کا پورا حق دیتا ہوں تو خاوند کا حصہ کم رہ جاتا ہے۔ تب آپ نے اس مسئلہ کے بارہ میں صحابہ کرام سے مشورہ لیا۔ چنانچہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ قیل علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ قیل عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ نے عول مسئلہ کا مشورہ دیا۔ اور کہا کہ اس کی مثال قرض جیسی ہے۔ ترکہ کی کمی کی صورت میں ہر قرض خواہ کو کم ملتا ہے۔ اگر ایک آدمی چھ درہم چھوڑ کر مرا جبکہ اس نے ایک قرض خواہ کو تین درہم اور دوسرے کو چار در ہم دیتے ہیں۔ تو کیا انہیں ان کے قرض سے کم نہیں ملے گا۔ سید نا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یقینا تو سیدنا زید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اسی قانون پر یہاں عمل کیا جائے گا۔ چنانچہ سب صحابہ کرام کی متفق رائے سے عول پر عمل کیا گیا اور سید نا عمر رضی اللہ عنہ نے خاوند کو ( ۱/۲) دیا اور وو بہنوں کو ( ۲/۳) دیا اور مسئلہ (٦) سے ( ۷) تک عول کر گیا۔

 

 *اصل جن میں عول آتا ہے*

 

 جیسا کہ پہلے گزر چکا کہ وارثوں کو قرآن کریم سورۃ النساء میں چھ فرض دے گئے ہیں۔ وہ النصف (١/٢) الربع (١/٤) الثمن (١/٨)، الثلثان (٢/٣)، الثلث (١/٣)، اور السدس (١/٦) ہیں۔ ان کے لحاظ سے مسئلوں کے کل سات اصول بنتے ہیں،

یعنی ( ٢ ، ٣ ، ٤ ، ٦ ، ٨ ، ١٢ اور (٢٤) ہیں۔ ان اصولوں میں سے صرف تین میں عول آتا ہے۔ وہ (١٢،٦، اور ٢٤) ہیں۔ باقی اصولوں (٢،٣،٤ اور (٨) میں کبھی بھی عول نہیں آتا ۔ اصل (٦) میں چار دفعہ عول آتا ہے۔ یہ (٧ ، ٨ ، ٩ اور ١٠ ) تک بڑھ جاتا ہے۔ اصل (١٢) میں تین دفعہ عول آتا ہے۔ یہ (١٣ ، ١٥ اور ١٧ ) تک بڑھ جاتا ہے۔ اصل (٢٤) میں صرف ایک دفعہ عول آتا ہے یہ ( ٢٧ ) تک بڑھ جاتا ہے۔

 *اصل (6) کے عول کی مثالیں* 

 

 *مثال :* 

 

 اصل (٦) کا عول (٧)تک۔ ایک عورت فوت ہو گئی اور اپنا خاوند ، عینی بہن اور علاقی بہن کو زندہ چھوڑا۔ اصل مسئلہ (٦) ہے خاوند کو ( ١/٢ ) ، (٣) ملے عینی بہن کو ( ١/٢ ) ، (٣) ملے اور علاتی بہن کو ( ١/٦) ، (١) ملا ان کے حصوں کا مجموعہ عہ (٣+٣+١=٧) (٧) ہے۔

 

 *مثال :* 

 

اصل (٦) کا عول (٨)تک ۔

خاوند ، ماں ، ٢ عینی بہنیں ، اصل مسئلہ (٢) ہے۔ خاوند کو ( ١/٢ ) (٣) ملے ۔ ماں کو (١/٦) (١) ملا اور دو  عینی بہنوں کو (٢/٣) (٤) ملے۔ ان کے حصوں کا مجموعه-.   (٨)(٣+١+٤=٨)

 

 *مثال :* 

 

 اصل (٦) کا عول (٩)تک ۔

خاوند ، ماں 2 عینی بہنیں ، اخیافی بھائی ، اصل مسئلہ(٦) ہے۔ خاوند کو ( ١/٢ ) ،(٣)ملے۔ ماں کو (١/٦) ، (١) ملا۔ (٢) عینی بہنوں کو (٢/٣)، (٤) ملے اور اخیافی بھائی کو( ١/٦) ، (١) ملا۔ انکے حصوں کا مجموعہ (٣+١+٤+١=٩) (٩) ہے۔

 

 *مثال :* 

 

 اصل (٦) کا عول (١٠) تک۔

 

خاوند، ماں، دو عینی بہنیں، دواخیافی بہنیں، اصل مسئلہ (٦) ہے خاوند کو ( ١/٢ ) ، (٣) ملے۔ ماں کو ( ١/٦ ) ، (١) ملا۔ دو عینی بہنوں کو (٢/٣) ، (٤) ملے اور دواخیافی بہنوں کو (١/٣) ، (٢) ملے۔ ان کے حصوں کا مجموعہ (٣+١+٤+٢=١٠ ) ( ١٠ ) ہے۔

 *اصل (12) کے عول کی مثالیں* 

 

 *مثال* :

 

 اصل (١٢) کا عول (١٣) تک۔ خاوند ماں دو بیٹیاں اصل مسئلہ (۱۲) ہے خاوند کو ( ۱/ ۴ ) ، ( ۳ ) ماں کو(١/٦)(٢) ملے دو بیٹیوں کو ۲/۳ ( ۸ ) ملے ان کے حصوں کا مجموعہ (۳+ ۲+ ۸=۱۳ )( ۱۳ ) ہے

 

 *مثال :* 

 

اصل ( ۱۲) کا عول ( ۱۵) تک۔ 

 

 *مثال:* 

 

اصل ( ۱۲) کا عول ( ۱۵) تک۔

 

 *مثال :* 

 

 بیوی، دو مینی بہنیں، دو اخیافی بھائی۔ اس کا اصل مسئلہ (۱۲) ہے ۔ بیوی کو ( ۱/۴ ) ( ۳ ) ملے۔ دو عينی بہنیں کو ( ۲/۳ ) ، ( ۸) ملے۔ اور دو اخیافی بھائیوں کو ( ۱/۳) ، ( ۴) ملے ۔ ان کے حصوں کا مجموعہ ( ۳+ ۸+ ۴= ۱۵ ) ( ۱۵) ہے

 

 *مثال:* 

 

اصل ( ۱۲ ) کا عول ( ۱۷ ) تک بیوی، ماں، دو عینی بہنیں اور ۲ اخیافی بہنیں۔ اصل مسئلہ (۱۲) ہے۔ بیوی کو ( ۱/۴)، ( ۳) ملے ماں کو ( ۱/٦)، (۲) ملے۔ دو عینی بہنوں کو ( ۲/ ۳) ، ( ۸) ملے ۔ اور دو اخیافی بہنوں کو ( ۱/۳)، ( ۴) ملے، ان کے حصوں کا مجموعہ (۳+ ۲+ ۸+ ۴= ۱۷)(۱۷) ہے۔

اصل ( ۲۴) کا عول ( ۲۷) تک

 

 *” مثال:* 

 

 ایک آدمی فوت ہو گیا اور اپنی بیوی، دو بیٹیاں، ماں اور باپ کو زندہ چھوڑا ۔ اصل مسئلہ ( ۲۴) ہے ۔ بیوی کو ( ۱/۸ ) ، ( ۳) ملے۔ دو بیٹیوں کو ( ۲/ ۳ ) ، (١/٦) ملے،

 

ماں کو (١/٦)، (٤) ملے۔ اور باپ کو (١/٦ ) ، (٤) ملے۔ ان کے حصوں کا مجموعہ٢٧)(٢٧=٤+٤+١٦+٣))



حوالا:
“اسلام کا قانون وراثت”
“صلاح الدین لاکھوی “

 

 

Table of Contents