Search
Sections
< All Topics
Print

07. NIFAAS AUR USKA HUKUM

نفاس اور اس کے احکام

نفاس:

 

اس خون کو کہتے ہیں جو رحم مادر سے ولادت کے سبب یا تو ولادت کے وقت ولادت کے بعد دو دن یا تین دن پہلے درد زه کے ساتھ خارج ہوتا ہے.

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا ہے:

“عورت جب درد ز ہ میں مبتلا ہوکر خون دیکھتی ہے تو وہ نفاس ہے” 

[دیکھو فتاویٰ ابنِ تیمیہ (۱۹/۲۴۰)]

 

شیخ الاسلام نے دو دن یا تین دن کی قید نہیں درد زِ ہ سے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی مراد جو ولادت کے بعد ہوتا ہے و گر نہ وہ نفاس نہیں ہے .

علماء اکرام نے نفاس کے اقل (کم) اور اکثر کی حد میں اختلاف کیا ہے شیخ تقی الدین نے اپنے  رساله “الاسماء التي علق الشارع الاحكام بها ص (٣٧)میں فرمایا ہے:

“نفاس کی اقل اور اکثر ایّام کی حد مقرر نہیں ہے اگر اندازہ کیا گیا ہو کے عورت نے چالیس یا ساٹھ یا ستر سے زائد دن خون دیکھا اور وہ ختم ہو گیا تو وہ نفاس ہے لیکن اگر وہ خون اس خاتون کو جاری رہا تو وہ فسادی خون ہوگا تو اس وقت اس کی حد چالیس دن ہے کیونکہ چالیس غالب طور پر آخری حد ہے جس بارے میں آثار وارد ہوئے ہیں؛”

[دیکھو فتاویٰ ابنِ تیمیہ(۱۹/۲۳۹_۲۴۰)]

 

        نفاس کی تجدید

 

قلت:

 

اس بناء پر جب عورت کا خون چالیس دن سے زیادہ ہو جائے حالانکہ چالیس دن کے بعد خون کا انقطاع اس عورت کی عادت ہے  یا اس خون میں انقطاع کے قریب کی نشانیاں ظاہر ہو جائیں تو وہ خون ختم ہونے کا انتظار کرے و گر نہ چالیس دن مکمل ہونے پر غسل کرے کیونکہ اکثر یہی ہوتا ہے اگر اسکے حیض کا زمانہ آ جائے تو وہ خاتون حیض کا زمانہ ختم ہونے تک انتظار کریگی جب اس کا خون منقطع ہو جائے  وہ ایسے ہو جیسا کہ اس کی عادت ہے تو وہ مستقبل میں اس کے مطابق عمل کریگی _ اگر خون جاری ہے تو وہ مستحاضہ تصور ہوگی اور استحاضہ کے سابقہ احکام اس پر نافذ ہونگے .

[یعنی اس پر استحاضہ کے احکام لاگو ہونگے جو پہلے گزر چکے ہیں]

 

اگر چالیس دن سے پہلے خون ختم ہوگا وہ غسل کریگی اور نماز پڑھے گی _ خاوند بھی اس سے جماع کر سکتا ہے الا یہ کے انقطاع (خون) ایک دن سے کم ہو تو اسکا کوئی حکم نہیں ہے علامہ ابن قدامہ رحمہ اللہ نے اسے المغنی میں ذکر کیا ہے .

[ دیکھو المغنی ابن قدامہ (۱/۳۵۹)]

 

نفاس وضع حمل کے بعد ثابت ہوگا جس میں انسان کی تخلیق واضح ہو اگر عورت ناقص الخلقت بچہ وضع کرتی ہے جسمیں انسان کی تخلیق واضح نہیں ہوتی تو اسکا خون نفاس کا خون نہیں ہوگا بلکہ وہ رگ کا خون ہوگا _ اس خاتون کا حکم مستحاضہ کا حکم ہوگا سب سے کم مدت جس میں انسان کی تخلیق ابتدا حمل سے نمایاں ہوتی ہے وہ اسّی (۸۰) دن ہے اور اکثر مدت نوے دن ہے ( یعنی تین مہینے)

شیخ مجد ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا:

 

اگر خاتون وضع حمل سے پہلے درد زِہ کے ساتھ خون دیکھتی ہے تو اس کی پرواہ نہیں کریگی اور وضع حمل کے بعد نماز اور روزے سے رک جائے گی پھر اگر وضع حمل کے بعد   معاملہ ظاہری  حالت کے خلاف نکلا تو وہ خاتون رجوع کریگی اور تدارک کریگی اور اگر معاملہ ظاہری حالت کے خلاف منکشف نہیں ہوتا تو ظاہر کا حکم جاری رہے گا (۱) اور کوئی اعادہ نہیں ہوگا (۲).

۱. اسکا مفہوم یہ ہے کہ وضع حمل کے بعد خاتون چالیس دن سے پہلے پاک ہو جاتی ہے (یہ ظاہری حالت کے خلاف ہے)تو وہ خاتون نماز روزہ کی طرف رجوع کریگی وہ غسل کر کے نماز وغیرہ پڑھے گی اپنے واجبات کا تدارک کریگی اور کوئی معاملہ ظاہری حالت کے خلاف نہیں ہوتا بلکہ چالیس دن تک خون جاری رہتا ہے تو ظاہر کا حکم جاری رہے گا نماز وغیرہ نہیں پڑھے گی
۲. دیکھو” شرح الاقناع”

 

               نفاس کے احکام :

 

نفاس کے وہی احکام ہیں جو حیض کے ہیں سوائے چند احکام کے جو کے درج ذیل ہیں.

                  پہلا حکم:عدت

 

 عدّت کا اعتبار طلاق کے ساتھ کیا جائیگا نہ کے نفاس کے ساتھ کیونکہ اگر طلاق وضع حمل کے بعد ہو تو وہ عورت حیض کے آنے کا انتظار کرے گی جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے.

 

دوسرا حکم :  ایلاء  کی مدت

 

ایلا کی مدت میں حیض کے ایّام شمار ہوتے ہیں _ نفاس کے ایّام شمار نہیں ہوتے _ ‘ ایلاء’ یہ ہے کہ آدمی اپنی عورت سے ہمیشہ کیلئے ترک جماع  کی قسم اٹھاتا ہے یا ایسی مدت کے لیے جو چار مہینوں سے زیادہ ہوتی ہے – جب وہ قسم اٹھاتا ہے اور عورت اس سے جماع کا مطالبہ کرتی ہے تو اس کی قسم کی مدّت چار مہینے بنائی جائیگی اور جب چار ماہ مکمل ہو جا ئیں گے تو خاوند عورت کے مطالبہ پر جماع یا طلاق پر مجبور کیا جائیگا اور اس مدت میں اگر عورت کو نفاس کا خون آ جائے تو یہ مدت شمار نہیں کی جائیگی اور چار مہینوں پر نفاس کی مدت کی بقدرِ اضافہ کیا جائے گا _ بر خلاف حیض کے کیونکہ اسکی مدت شمار کی جائیگی .

 

تیسرا حکم : بلوغت

 

بلوغت حیض آنے سے حاصل ہوتی ہے نفاس سے حاصل نہیں ہوتی کیونکہ عورت کا بغیر انزال حامله ہونا نا ممکن ہے حمل کیلئے بلوغت کا حصول سابقہ انزال سے ہوتا ہے. 

 

     چوتھا حکم : حیض اور نفاس میں فرق

 

 جب حیض کا خون ختم ہو جائے پھر عادت کی طرح واپس آ جائے تو وہ یقینی طور پر حیض ہے مثال کے طور پر عورت کی حیض۔ کی عادت آٹھ دن ہے وہ چار دن حیض دیکھتی ہے پھر دو دن حیض بند ہو جاتا ہے پھر ساتویں یا آٹھویں دن دوبارہ حیض آ جاتا ہے تو یہ دوبارہ آنے والا حیض یقینی طور پر حیض ہی ہوگا اس کیلئے حیض کے احکام ثابت ہونگے.

اور رہی بات نفاس کے خون کی  تو جب نفاس کا خون چالیس دن سے پہلے بند ہو گیا پھر چالیس دن میں دوبارہ خون آ گیا تو وہ مشتبہ ہے عورت پر واجب ہے کے وہ نماز پڑھے اور فرض روزے رکھے جس کا وقت مقرر ہے اور فرائض کے علاوہ اس خاتون پر وہ کچھ حرام ہے جو کہ حائضہ پر حرام ہے اور جو ان دنوں میں اس نے کیا ہے” طہر” کے بعد اس کی قضا دیگی جس طرح حائضہ پر قضا واجب ہوتی ہے _ اور یہی فقہاء حنابلہ کے ہاں مشہور ہے اور صحیح بات یہ ہے کہ جب عورت کو خون ایسے زمانے میں دوبارہ آپس آ جائے جس میں ممکن ہو کہ نفاس ہے تو وہ نفاس ہوگا و گر نہ حیض ہوگا اگر وہ خون عورت کو جاری رہتا ہے تو وہ استحاضہ کا خون ہوگا.

یہ اس قول کے قریب ہے جسے علامہ ابن قدامہ رحمہ اللہ المغنی میں امام مالک سے نقل کیا ہے وہ فرماتے ہیں کہ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا:

اگر عورت خون کے ختم ہونے کے بعد یا تیسرے دن بعد دوبارہ خون دیکھتی ہے تو وہ نفاس کا خون ہے و گر نہ وہ حیض ہے. 

[دیکھو المغنی لابن قدامہ (۱/۳۶۱)]

 

اور یہی شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اختیار کا تقاضا ہے .

حسب واقع خون میں کوئی چیز مشکوک نہیں ہے لیکن شک امر نسبی ہے جس میں لوگ اپنے علم و فہم کے مطابق  مختلف ہیں اور کتاب و سنت ان میں ہر چیز کو وا ضح کرنے والی ہے اللہ تعالیٰ نے کسی ایک پر واجب نہیں کیا کہ وہ دو مرتبہ روزہ رکھے یا دو مرتبہ طواف کرے الا یہ کہ روزے میں نقص و خلل ہو جس کا تدارک قضاء کے بغیر نا ممکن ہو.

رہی بات بندے کے فعل کی جس پر وہ اپنی حسب طاقت قدرت رکھتا ہے تو اس کا ذمّہ پورا ہو جائیگا جیسا کے اللہ تعالی نے فرمایا ہے :

( لَا يُكَلِّفُ ا للّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وَسْعَهَا)

اللہ تعالی کسی جان کو اسکی طاقت سے زیادہ پابند نہیں کرتا

 [دیکھو سورۃ البقرہ    آیت نمبر (۲۸۶)]

 

اور فرمایا (فَاتَّقُوا اللّٰہَ مَا اسْتَطَعْتُم)

جہاں تک تم سے ہو سکے اللہ سے ڈرتے رہو. 

[دیکھو سورۃ التغابن  آیت نمبر  (۱۶)]

 

پانچواں فرق (جماع)

 

حیض میں جب عورت عادت سے پہلے پاک ہو جائے تو اسکے خاوند کیلئے بغیر کسی کراہت کے جماع کرنا جائز ہے اور نفاس میں جب عورت چالیس دن سے پہلے پاک ہوگی تو مشہور مذہب کے مطابق اس کے خاوند کیلئے جماع کرنا مکروہ ہے.

اور صحیح قول یہ ہے کہ اس خاتون سے جماع کرنا مکروہ نہیں ہے. 

اور جمہور علماء کا یہی  قول ہے کیونکہ کراہت حکم  شرعی ہے جو شرعی دلیل کی محتاج ہے .

اور اس مسلے میں شرعی دلیل نہیں ما سوائے اس قول کے جیسے امام احمد بن حنبل نے عثمان بن ابی العاص کی بیوی کے بارے میں نقل کیا ہے.

[ دیکھو المغنی لابن قدامہ۔ (۱/۲۶۰)]

 

 

کہ وہ چالیس دن سے پہلے عثمان کے پاس آئیں تو اُنہوں نے کہا : میرے قریب مت آؤ .

[دیکھو سنن دار قطنی کتاب الحيض (١/٣٠٢) رقم (٨٤٤)  السنن الكبرى (١/٣٤٢)بيهقي و ابن الجارود (١١٨) والدارمي ( ١/ ٢٢٩) و الحا كم (١/١٧٦) و مصنف عبد الرزاق (١٢٠١)]

 

[اس حدیث کی سند ضعیف ہے سنن دار قطنی کی سند میں ابو بکر الهذلي راوي  ہے جسکو حافظ ابن حجر نے التقریب (۲/۳۶۹) میں  متروک الحدیث کہا ہے اور دوسری علّت یہ روایت منقطع ہے کیونکہ  اس حدیث کو حسن بصری عثمان بن ابی العاص سے روایت کیا ہے امام حاکم نے فرمایا ہے حسن کا عثمان سے سماع نہیں ہے  امام ذہبی نے بھی امام حاکم کی موافقت کی ہے تفصیل کیلئے غوثُ المکدود ص (۱۲۲) ملاحظ کریں]

 

اور یہ قول کراہت کو لازم نہیں کرتا کیونکہ کبھی کبھی خاوند کی طرف سے بغیر احتیاط اس ڈر سے ہو جاتا ہے کہ خاتون کو ابھی” طہر” پر یقین نہیں ہے یا اس بناء پر کہ جماع کی وجہ سے خون حرکت کریگا یہ اسکے علاوہ اور بھی دوسرے اسباب ہو سکتے ہیں.

 (واللہ اعلم بالصواب)

 

 

حوالہ جات:
کتاب:  “نسوانی طبی خون کے احکام۔”
تالیف:  شیخ محمد بن صالح العثیمین (رحمة الله)۔
اردو ترجمہ:  حافظ ریاض احمد حفظ اللہ۔
Table of Contents