05G. TALAQ
ساتواں حکم :طلاق
حائضہ عورت کو حالت حیض میں طلاق دینا خاوند پر حرام ہے کیونکہ کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے.
(يا ايها النبي اذا طلقتم النساء طلقوهن لعدتهن)
“اے نبی( اپنی امت سے کہو کہ) جب تم اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہواس طرح طلاق دو کے عدت شروع کرسکیں ۔”
[دیکھو سورہ طلاق آیت نمبر 4]
یعنی ایسی حالت میں طلاق دو کہ وہ طلاق کے وقت معلوم ہے عدت کا آغاز کر رہی ہو
اس جگہ طلاق دینے کا وقت بتلایا جارہا ہے یعنی جب عورت حیض سے پاک ہوجائے تو اس سے جمع کیے بغیر طلاق دو اور طہر کی مدت سے آغاز ہو اس طریقے کو کو حق طلاق سنت سے تعبیر کرتے ہیں حیض کی حالت میں یا طہر کی حالت میں جماع کرنے کے بعد طلاق دینا غلط ہے اسکو فقھاء طلاق بد عی کہتے ہیں۔ |
اور یہ اس وقت ہوسکتا ہے جب خاوند اپنی بیوی کو حمل کی حالت میں طلاق دے.
حالت حمل میں دی گئی طلاق واقع ہو جاتی ہے۔( دلیل حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ صحیح مسلم (476/1) ” نیل الإطا ” (6/122) ازعلامہ شوکانی ملا خطہ کریں |
یا بغیر جماع کیے یے “طہر” کی حالت میں طلاق دے کیونکہ جب اسے حالت حیض میں طلاق دی جائے گی تو وہ عدت کا آغاز نہیں کرے گی۔ اس لیے وہ ہے حیض جس میں اسے طلاق دی گئی وہ عدت شمار نہیں کیا جائے گی اور جب جماع کے بعد حالت طہر میں طلاق دی جائے گی تو اس وقت وہ عدت جس کا وہ آغاز کر رہی ہے معلوم نہیں ہوگی کیونکہ یہ معلوم نہیں ہے کہ آیا وہ اس جما ع سے حاملہ ہوئی ہے تو وہ وضع حمل کی عدت گزارے ہے یا حاملہ نہیں ہوئی توحیض کی عدت گزارے، جب عدت کی نوعیت کے بارے میں یقین حاصل نہیں ہو رہا تو معاملہ واضح ہو جانے تک خاوند پر طلاق دینا حرام ہے۔ حالت حیض میں حائضہ کو طلاق دینا سابقہ آیت اور اس حدیث کی وجہ سے حرام ہے جو” بخاری اور مسلم” وغیرہ میں عبداللہ بن عمر سے ثابت ہے۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی بیوی کو طلاق دی اور وہ حالت حیض میں تھیں عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اس کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آگاہ کیا تو اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہوئے اور فرمایا:
“( مره فلير اجعها)”
“اسے حکم دو کہ وہ اس سے رجوع کریں پھر اسے اس حالت میں روکے رکھے یہاں تک کہ وہ پاک ہوجائے، پھر حائضہ ہوجائے پھر پاک ہوجائے اگر چاہے تو اس کے بعد اپنے پاس رکھے یا جماع سے پہلے طلاق دے یہ وہ عدت ہے جس کو ملحوظ رکھ کر اللہ تعالی نے عورتوں کو طلاق دینے کا حکم دیا ہے۔”
[دیکھو صحیح بخاری(5332)(383/9) صحیح مسلم (471) مسند شافعی (1830) ابن داود (179-218) ابن ماجہ(2019) (مسند احمد(2/6_54)ابن الجارود(734)مسند طبالسی (1853)بیہقی (323324/7)]
اگر آدمی نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی تو وہ گناہگار ہو گا اور اس پر لازم ہے کہ اللہ تعالی سے توبہ کرے اور عورت کو اپنی عصمت (حرم) کی طرف واپس لو ٹائے۔ تاکہ وہ اس کو ایسی طلاق دے جو شرعی ہونے کے ساتھ ساتھ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے بھی موافق ہو۔ عصمت کی طرف لوٹانے کے بعد اسے چھوڑ دے یہاں تک کہ وہ اس حیض سے پاک ہوجائے جائے جس میں اس کو طلاق دی گئی تھی پھر دوسری مرتبہ حائضہ ہو پھر جب وہ پاک ہو گی اگر خاوند اپنے پاس رکھنا چاہے تو رکھ لے اور اگر چاہے تو جماع سے پہلے طلاق دے دے۔
تین مسائل میں حالت حیض میں طلاق کی تحریم سے مستثنیٰ ہیں۔
: پہلا مسئلہ؛ خلوت نشینی یا مسیس سے قبل طلاق
جب طلاق عورت سے خلوت نشینی اختیار کرنے یا چھوڑنے سے پہلے ہو تو اس وقت حالت حیض میں طلاق دینے میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ اس وقت اس خاتون پر کوئی عدت نہیں ہے تو اس کی طلاق اللہ تعالی کے اس حکم کے ( فطلقو ھن لعدتھن) کے مخالف نہیں ہوگی۔
[دیکھو سورہ الطلاق آیت نمبر:4]
دوسرا مسئلہ: حالت حمل میں حیض :
جب حالت حمل میں خاتون کو حیض ہو تو اس وقت بھی طلاق دینے میں کوئی حرج نہیں ہے اس کا سبب بیان پیچھے گزر چکا ہے.
( کہ عدت وضع حمل ہے)
تیسرا مسئلہ: طلاق عوض کے بدلے ہو.
“*جب طلاق کسی عوض کے بدلے ہو تو اس وقت بھی حالت حیض میں طلاق دینے میں کوئی حرج نہیں ہے مثلا میاں بیوی کے درمیان کوئی نا چاکی؛ چپقلش اور برا میل جول ہو تو اس وقت خاوند عوض لے کراسے طلاق دے تو یہ بھی جائز ہے ہے کہ اگرچہ عورت حالت حیض میں ہی کیوں نہ ہو۔
یہ خلع کی صورت ہوگی شیخ عثیمین کا مقصود یہ ہے کہ حالت حیض میں “خلع” جائز ہے” خلع” کے لغوی معنی اتارنا اور شرعی معنی یہ ہے کہ اگر عورت اپنے مرد کے ساتھ گزر بسر نباہ نہ کر سکتی ہو تو یہ عو ضانہ دے کر اس سے الگ ہو جائے۔ |
:جیسا کہ سیدنا ابن عباس کی حدیث ہے
کہ ثابت بن قیس بن شماس کی بیوی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتی ہے اور کہتی ہے اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں اس کے دین اور اخلاق پر کوئی حرف نہیں رکھتی مگر مجھے اسلام میں کفر کا خوف ہے.”
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا( اطرد دینی علیه حديقة)”جو باغ تجھے اس نے دیا تھا تو واپس کر دے گی”
انہوں نے عرض کی” جی ہاں”
پھر پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
( قبل حديقه وطلقها تعاليقطه)
“باغ قبول کر لو اور اسے طلاق دے دو” اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے.
2:تو اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں پوچھا کہ وہ حائضہ تھی یا پاک تھی اور دوسرا اس لئے بھی کہ یہ طلاق عورت کی طرف سے فدیہ دینے کی وجہ سے ہے تو ضرورت کے وقت جس حالت میں ہو جائز ہے۔
[؛دیکھو صحیح بخاری بڑی کتاب الطلاق باب خلع و کیف طلا ق فیہ (رقم 5273(306/9) مع الفتح۔]
علامہ ابن قدامہ نے “المعنی” میں حالت حیض میں خلع کے جواز کی علت بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے. کیونکہ اس” ضرر” (تکلیف)کی بنا پر ہے جو خاتون کو لمبی عدت کی وجہ سے لاحق ہوتا ہے اور” خلع” اس “ضرر” کو دور کرنے کے لیے ہے جو خاتون کو برے میل جول کی وجہ سے لاحق ہوتا ہے اور جس کے ساتھ وہ رہتی ہے اسے ناپسند کرتی ہے اور اس سے بغض رکھتی ہے۔
اور یہ لمبی عدت سے بھی زیادہ مضر ہے تو ان میں سے جو اعلی ہے اس کو ادنی کے ساتھ دور کرنا جائز ہے اور اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے” خلع” کرنے والے کی حالت دریافت نہیں کی’ کی( ابن قدامۃ کی کلام ختم ہوئی)۔،
[محو المعنى لا بن قدامة (174/80 ) كتاب الخلع فصل ولا بأس بالخلع في الحيض)]
اور باقی رہی بات حالت حیض میں عورت کے نکاح کے وقت کی تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ اصل میں حلت ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عقد نکاح کے منع کی کوئی دلیل ثابت نہیں ہے۔ لیکن حالت حیض میں خاوند کو عورت پرداخل کرنے کے بارے میں دیکھا جائے گا اگر تو اس سے وطی کرنے والا محفوظ رہے گا تو کوئی حرج نہیں وگرنہ وہ اس کے پاس اس وقت تک نہ جائے جب تک وہ حیض سے پاک نہ ہو جائے یہ کہ اس کے ناجائز کام میں واقع ہونے کا اندیشہ ہے۔
حوالہ جات:
کتاب: “نسوانی طبی خون کے احکام۔”
تالیف: شیخ محمد بن صالح العثیمین (رحمة الله)۔
اردو ترجمہ: حافظ ریاض احمد حفظ اللہ۔