01. ALLAH KAY SAATH SHIRK KARNA [Associating Others With Allah]
الکبائر
اللّٰہ کے ساتھ شرک کرنا
کبیرہ گناہ اسے کہتے ہیں، جس سے اللّٰه تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے کتاب وسنت میں منع کیا ہے اور سلف صالحین نے بھی اس کا ذکر کیا ہے ۔ اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی کتاب عزیز میں کبیرہ گناہوں اور محرمات سے اجتناب کرنے والوں کو یہ ضمانت دی ہے کہ وہ ان کے صغیرہ گناہ معاف فرما دے گا ۔ اور اللّٰه تعالیٰ نے فرمایا:
*اِنۡ تَجۡتَنِبُوۡا کَبَآئِرَ مَا تُنۡہَوۡنَ عَنۡہُ نُکَفِّرۡ عَنۡکُمۡ سَیِّاٰتِکُمۡ وَ نُدۡخِلۡکُمۡ مُّدۡخَلًا کَرِیۡمًا ﴿۳۱﴾*
(النساء ٤/ ٣١)
“اگر تم ان بڑے بڑے گُناہوں سے ، جن سے تمھیں منع کیا گیا ہے، باز رہو تو ہم ضرور تمہارے چھوٹے چھوٹے گُناہ معاف کر دیں گے اور تمھیں ایک باعزّت جگہ میں داخل کریں گے” ۔
اللّٰہ تعالیٰ نے اس آیت کے ذریعے کبیرہ گناہوں سے بچنے والوں کو ضمانت دی ہے کہ وہ انہیں جنت میں داخل کرے گا۔ اور اللّٰه تعالیٰ نے فرمایا:
*وَ الَّذِیۡنَ یَجۡتَنِبُوۡنَ کَبٰٓئِرَ الۡاِثۡمِ وَ الۡفَوَاحِشَ وَ اِذَا مَا غَضِبُوۡا ہُمۡ یَغۡفِرُوۡنَ ﴿ۚ۳۷﴾*
(الشورى ٤٢/ ٣٧)
” اور ان لوگوں کے لیے جو بڑے بڑے گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے اجتناب کرتے ہیں اور جب غصہ میں آجائیں تو معاف کر دیتے ہیں “۔
اور فرمایا: النجم
*(اَلَّذِیۡنَ یَجۡتَنِبُوۡنَ کَبٰٓئِرَ الۡاِثۡمِ وَ الۡفَوَاحِشَ اِلَّا اللَّمَمَ ؕ اِنَّ رَبَّکَ وَاسِعُ الۡمَغۡفِرَۃِ ؕ )*
( النجم: ٥٣ / ٣٢)
” یعنی ان لوگوں کو جو بڑے بڑے گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے بچتے ہیں، سوائے چھوٹی چھوٹی لغزشوں کے ، آپ کا رب بے شک بڑی مغفرت والا ہے” ۔
اور رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:
” پانچوں نمازیں ، جمعہ دوسرے جمع تک اور رمضان دوسرے رمضان تک اپنے درمیانی وقفہ میں ہونے والے گناہوں کا کفارہ ہیں ، بشرطیکہ کبیرہ گناہوں سے بچا جائے ۔ ” (مسلم ( ٢٣٣) )
پس کبیرہ گناہوں کے متعلق تحقیق کرنا ضروری ہے کہ ان کا تعین ہو سکے تا کہ مسلمان ان سے بچ سکیں ۔ پس ہم نے دیکھا کہ علماء نے اس بارے میں اختلاف کیا ہے ۔
بعض نے کہا ہے کہ وہ سات ہیں ۔ انہوں نے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے دلیل لی ہے ۔
” سات مہلک چیزوں سے اجتناب کرو “ ، اور ان کا ذکر کیا ، اللّٰہ کے ساتھ شرک کرنا، جادو ، کسی جان کو، جس کا قتل کرنا اللّٰہ نے حرام قرار دیا ہے ۔ ناحق قتل کرنا ، یتیم کے مال کو کھانا ، سود کھانا ، میدان جہا سے فرار ہونا اور پاک دامن بے خبر سومنات پر بہتان لگانا۔ ” (بخاری ( ٢٧٦٦) ومسلم (٨٩) )
ابن عباس رضی اللّٰہ عنہما نے فرمایا: ” وہ ستر تک ہیں ، اور ان میں سے زیادہ قریب سات تک ہیں۔ (عبدالرزاق نے اسے روایت کیا ہے اور امام طبری نے
(( ان تجتنبوا کبائر ماتنھون ))) اور اللّٰه کی قسم! ابن عباس نے سچ فرمایا ۔
جہاں تک حدیث کا تعلق ہے تو اس میں بھی کبیرہ گناہوں کو صرف سات تک محصور و محدود نہیں کیا ۔
کبیرہ گناہ وہ ہے جس پر دلیل قائم ہو کہ جو شخص ان بڑے بڑے گناہوں میں سے کسی ایسے گناہ کا ارتکاب کرے، جس پر دنیا میں حد نافذ کی جائے ، جیسے قتل ، زنا اور چوری ہے ۔ یا جس کے ارتکاب پر آخرت میں عذاب یا غضب یا تہدید و ڈراوے کی وعید سنائی گئی ہے یا اس گناہ کے کے تحت اپنی تفسیر میں نقل کیا ہے ۔
مرتکب پر ، ہمارے نبی محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی زبان پر لعنت کی گئی ہو ، تو ایسا گناہ کبیرہ گناہ ہے ۔ (١)
اسے تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ بعض کبیرہ گناہ، بعض سے بڑے ہوتے ہیں ۔ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اللّٰه کے ساتھ شرک کرنے کو کبیرہ گناہ شمار کیا ہے ۔ باوجودیکہ اس کا ارتکاب کرنے والا ہمیشہ جہنم میں رہے گا اور اسے کبھی بھی معاف نہیں کیا جائے گا۔ اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا:
*(اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغۡفِرُ اَنۡ یُّشۡرَکَ بِہٖ وَ یَغۡفِرُ مَا دُوۡنَ ذٰلِکَ لِمَنۡ یَّشَآءُ)*
(النساء/ ٤: ٤٨)
“بے شک اللّٰه یہ ( جرم) نہیں بخشے گا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا جائے اور اس کے سوا جو گناہ ، وہ جس کو چاہے بخش دے گا “۔
(١) ہر وہ گناہ جس کے بارے میں دنیا میں حد ہے یا آخرت میں وعید ہے ، اسے کبیرہ گناہ کہتے ہیں ۔ شیخ الاسلام نے یہ اضافہ نقل کیا ہے : یا اس کے بارے میں نفی ایمان کی وعید یا لعنت یا ان دونوں جیسی کوئی چیز وارد ہوئی ہو۔ اور درست بات یہ ہے کہ گناہوں کی تقسیم دو طرح کی ہے ۔ کبیرہ اور صغیرہ، جبکہ کبیرہ گناہ بھی بعض ، بعض سے بڑے ہیں۔ ابن عبد السلام شافعی نے کہا: کبیرہ گناہ کی تعریف کے بارے میں کوئی بھی ضابطہ ، اصول اعتراض سے سالم نہیں ، لیکن شیخ الاسلام وغیرہ نے جو ضابطہ بیان کیا ہے کہ جس کے بارے میں حد یا وعید یا لعنت یا لاتعلقی یا وہ ہم میں سے نہیں یا نفی ایمان جیسے الفاظ وارد ہوں ، سب سے سالم ضابطہ ہے ۔ سعید بن جبیر ؒ بیان کرتے ہیں ، کسی آدمی نے ابن عباس رضی اللّٰہ عنہ سے کہا: کبیرہ گناہ سات ہیں ۔ تو ابن عباس رضی اللّٰہ عنہ نے کہا: وہ سات سو ہیں ، ان میں سے زیادہ قریب سات تک ہیں ۔ اس کے علاوہ یہ کہ استغفار کے ہوتے ہوئے کوئی گناہ کبیرہ نہیں اور اصرار کے ہوتے ہوئے کوئی گناہ صغیرہ نہیں ۔ اور ان سے مروی ایک روایت میں ہے: وہ ستر تک ہیں اور علماء نے ان کا شمار کیا ہے وہ ستر یا اس سے کچھ زیادہ ہیں ۔
کبیرہ گناہوں کی تفصیل:
*(١) اللّٰہ کے ساتھ شرک کرنا:*
سب سے بڑا گناہ اللّٰہ کے ساتھ شرک کرنا ہے اور اس کی دو قسمیں ہیں:
(الف) اللّٰہ کے ساتھ کسی کو شریک بنایا جائے اور اس کے سوا اس کی پوجا کی جائے ، جیسے حجر یا شجر ( درخت) یا سورج یا چاند یا نبی یا پیر بزرگ یا ستارہ یا فرشتہ یا اس کے علاوہ کوئی اور چیز
اور یہ شرک اکبر ہے ، جس کا اللّٰه عزوجل نے ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
*(اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغۡفِرُ اَنۡ یُّشۡرَکَ بِہٖ وَ یَغۡفِرُ مَا دُوۡنَ ذٰلِکَ لِمَنۡ یَّشَآءُ)*
(٤: ٤٨)
“بے شک اللّٰه یہ ( جرم) نہیں بخشے گا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا جائے اور اس کے سوا جو گناہ ، وہ جس کو چاہے بخش دے گا “۔
اور اللّٰه تعالیٰ نے فرمایا:
*(اِنَّ الشِّرۡکَ لَظُلۡمٌ عَظِیۡمٌ)*
(لقمان : ٣١/ ١٣)
“بے شک شرک بہت بڑا ظلم ہے”۔
اور اللّٰه تعالیٰ نے فرمایا:
*(اِنَّہٗ مَنۡ یُّشۡرِکۡ بِاللّٰہِ فَقَدۡ حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیۡہِ الۡجَنَّۃَ وَ مَاۡوٰىہُ النَّارُ ؕ وَ مَا لِلظّٰلِمِیۡنَ مِنۡ اَنۡصَارٍ)*
( المائدة : ٥/ ٧٢)
” یقین جانو کہ جو اللّٰه کے ساتھ شریک ٹھہرائے اللّٰہ اس پر جنت قطعی حرام کر چکا ہے اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے “۔ اس کے متعلق بہت سی آیات ہیں”۔
پس جس شخص نے اللّٰه کے ساتھ شریک ٹھہرایا اور پھر وہ حالت شرک میں فوت ہو جائے تو وہ قطعی طور پر جہنمی ہے ، جیسے کوئی شخص اللّٰه پر ایمان لائے اور حالت ایمان پر ہی فوت ہو جائے تو وہ جنتیوں میں سے ہے ، خواہ ( اس کے گناہوں کی وجہ سے کچھ دیر ) اسے جہنم میں عذاب دیا جائے ۔ صحیح روایت ہے کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“کیا میں تمھیں کبیرہ گناہوں کے متعلق نہ بتاؤں؟ ” آپ نے تین بار فرمایا: انہوں نے عرض کیا ، کیوں نہیں ! اللّٰہ کے رسول ضرور بتائیں ، آپ نے فرمایا:
“اللّٰہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا اور والدین کی نافرمانی کرنا” ۔ آپ ٹیک لگائے ہوئے تھے کہ اٹھ کر بیٹھ گئے ، تو فرمایا: ” سن لو! اور جھوٹی بات کرنا ، سن لو! اور جھوٹی گواہی دینا۔” پس آپ یہ بات دہراتے رہے ، حتی کہ ہم نے کہا: کاش کہ آپ خاموش ہو جائیں ۔ (بخاری ( ٢٦٥٤) ومسلم (٨٧))
اور آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“سات مہلک چیزوں سے اجتناب کرو”۔
اور آپ نے ان میں اللّٰه کے ساتھ شرک کرنے کا بھی ذکر فرمایا: اور آپ نے فرمایا:
“جو شخص اپنا دین بدل لے تو اسے قتل کر دو”۔ ( بخارى ( ٦٩٢٢) )
(ب) شرک کی دوسری قسم “ریاکاری” ۔
جیسا کہ اللّٰه تعالیٰ نے فرمایا:
*(فَمَنۡ کَانَ یَرۡجُوۡا لِقَآءَ رَبِّہٖ فَلۡیَعۡمَلۡ عَمَلًا صَالِحًا وَّ لَا یُشۡرِکۡ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖۤ اَحَدًا)*
(الکھف: ١٨/ ١١٠)
“پس جو شخص اپنے رب سے ملاقات کی امید رکھتا ہے، اسے چاہیے کہ وہ نیک عمل کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو بھی شریک نہ کرے”۔
اور آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:
” شرک اصغر سے بچو” انہوں نے عرض کیا ، اللّٰہ کے رسول! شرک اصغر کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا: “ریاء” اللّٰہ تعالیٰ جس روز بندوں کو ان کے اعمال کی جزا دے گا تو وہ فرمائے گا : ان کے پاس جاؤ جن کو تم دنیا میں اپنے اعمال دکھایا کرتے تھے ۔ پس ذرا دیکھو کیا تم ان کے پاس جزا پاتے ہو؟” ( مسند احمد)
اور آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:
” اللّٰہ فرماتا ہے : جس نے کوئی عمل کیا ، اور اس میں میرے ساتھ کسی اور کو شریک کیا تو وہ عمل اسی کے لیے ہے جس کو اس نے شریک کیا ، اور میں اس سے بیزار ولا تعلق ہوں۔” (مسلم ، لیکن اس میں ( أنا منه برى) کے الفاظ نہیں ہیں ، ،یہ الفاظ ابن ماجہ بھی ہیں )
اور آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:
” جس شخص نے سنانے کے لیے نیک کام کیا تو اللّٰہ( قیامت کے دن) اس کی بدنیتی سب کو سنا دے گا اور جس نے دکھلاوے کے لیے کام کیا تو اللّٰہ اس کا دکھلاوا ظاہر کر دے گا”۔ ( بخاری و مسلم)
اور ابو ہریرہ رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:
” کتنے ہی روزہ دار ہیں ، جنہیں اپنے روزے سے محض بھوک اور پیاس ملتی ہے،
اور کتنے ہی تہجد گزار ہیں جنہیں اپنی شب بیداری ( تہجد) سے صرف جاگتے رہنے کے سوا کچھ نہیں ملتا “۔
[ ابن ماجه ، مسند احمد]
یعنی جب روزہ اور نماز اللّٰہ تعالیٰ کی رضا کے لیے نہ ہو تو اس پر ثواب نہیں ملتا ، جیسا کہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے روایت کیا جاتا ہے کہ آپ نے فرمایا: ” جو شخص ریا اور شہرت کے لیے عمل کرتا ہے ، وہ اس شخص کی طرح ہے جو کنکریوں سے اپنی ہتھیلی بھر لیتا ہے ، پھر ان سے خریداری کرنے کے لیے بازار کا رخ کرتا ہے ، پس جب وہ فروخت کرنے والے کے سامنے اسے کھولتا ہے ، تو وہ کنکریاں ہوتی ہیں ، اور وہ انہیں اس کے چہرے پر دے مارتا ہے ، اسے لوگوں کی باتوں کے سوا اپنی ہتھیلی سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا کہ دیکھو اپنی ہتھیلی کیسے بھرے پھرتا ہے ، جبکہ اسے اس کے بدلے میں کچھ نہیں دیا جاتا ۔ پس اسی طرح وہ شخص ہے جو ریا اور شہرت کی خاطر عمل کرتا ہے ۔ اسے اپنے عمل سے لوگوں کی باتوں کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا اور اس کے لیے آخرت میں بھی کوئی ثواب نہیں ہو گا “۔
[ابن حجر نے فرمایا یہ بعض حکماء کا قول ہے ، حدیث نبوی نہیں ]
اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا:
*(وَ قَدِمۡنَاۤ اِلٰی مَا عَمِلُوۡا مِنۡ عَمَلٍ فَجَعَلۡنٰہُ ہَبَآءً مَّنۡثُوۡرًا)*
(الفرقان: ٢٥/ ٢٣)
” ہم نے ان کے اعمال کی طرف توجہ کی تو ان کو اڑتی ہوئی خاک کی مانند کر دیا”۔
یعنی انہوں نے اللّٰه تعالیٰ کی رضا کے بغیر جو عمل کیے تھے ، ہم نے ان کا ثواب ضائع کر دیا اور انہیں اڑتی ہوئی خاک کی مانند کر دیا اور یہ وہ چیز ہے جو سورج کی شعاع میں نظر آتی ہے ۔ عدی بن حاتم طائی رضی اللّٰه عنہ نے رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے روایت کیا ۔
آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:
قیامت کے دن لوگوں کی کچھ جماعتوں کو جنت کی طرف جانے کا حکم دیا جائے گا حتیٰ کہ جب وہ اس کے قریب پہنچ جائیں گے اور اس کی خوشبو پا لیں گے اور اللّٰه نے اس میں جنتیوں کے لیے جو محل تیار کیے ہیں ، انہیں بھی دیکھ لیں گے ، تو آوازدی جائے گی کہ انہیں یہیں سے واپس کر دو، کیونکہ ان کا اس میں کوئی حصہ نہیں ۔ پس وہ حسرت و ندامت کے ساتھ ایسے لوٹیں گے کہ پہلوں اور بعد والوں میں سے کوئی بھی ایسے نہیں لوٹا ہوگا ۔ وہ عرض کریں گے : ہمارے پروردگار! اگر تو ہمیں ، جو کچھ تو نے اپنے دوستوں کے لیے جزا کے طور پر تیار کر رکھا ہے ، اس کا نظارہ کرانے سے پہلے ہی ، جہنم میں داخل کر دیتا ، تو وہ ہمارے لیے یہ سب کچھ دیکھ لینے کے بغیر زیادہ آسان ہوتا، تو اللّٰہ تعالٰی فرمائے گا : میں نے تمھارے متعلق یہی ارادہ کیا تھا ۔ کیونکہ جب تم خلوت میں ہوتے تھے تو عظائم کے ساتھ میرے مقابلے میں آتے تھے۔ اور جب تم لوگوں سے ملتے تھے تو تم انہیں بڑی عاجزی سے اور جھک کر ملتے تھے۔ تم لوگوں کو اپنے اعمال دکھاتے تھے ، لیکن وہ اس چیز ( اخلاص) سے خالی ہوتے تھے جو تم مجھے اپنے دلوں سے دیتے تھے ۔ تم لوگوں سے ڈرتے رہے ، لیکن مجھ سے نہیں ڈرے۔ تم لوگوں کہ شان و شوکت کا خیال رکھتے رہے لیکن میری شان و شوکت کا ذرا بھی خیال نہ رکھا ۔ تم نے لوگوں کی خاطر ( گناہ) چھوڑا ، لیکن میری خاطر نہیں چھوڑا۔ میں آج تمھیں اپنے بہت بڑے اجرو ثواب سے محروم رکھنے کے ساتھ ساتھ تمھیں اپنے انتہائی درد ناک عذاب کا مزا بھی چکھاؤں گا ۔ ” (١)
ابن ابی الدنیا نے اسے جبلة الميحصبى کی روایت سے نقل کیا ہے اس کی سند ضعیف ہے ۔ ( عراقی)
ایک آدمی نے رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے دریافت کیا ، نجات کس چیز میں ہے ؟ تو آپ نے فرمایا: ” تم اللّٰہ کو دھوکہ نہ دو” ۔ اس نے عرض کیا : اللّٰہ کو کیسے دھوکہ دیا جا سکتا ہے ؟ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا: “تم کوئی ایسا عمل کرو ، جس کے متعلق اللّٰه اور اس کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” تم کوئی ایسا عمل کرو ، جس کے متعلق اللّٰه اور اس کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے تمہیں حکم دیا ہو اور تم اس کے ذریعے اللّٰہ کی رضامندی نہ چاہو۔ نیز ریاء سے بچو ، کیونکہ وہ شرک اصغر ہے اور روز قیامت ریاکار کو ، تمام انسانوں کے سامنے چار ناموں سے پکارا جائے گا۔
اے ریا کار! اے دھوکہ باز! اے فاجر! اے ناکام و نا مراد ! تیرا عمل رائیگاں گیا اور تیرا اجر ضائع ہو گیا،
تیرے لیے ہمارے پاس کوئی اجر نہیں ، دھوکے باز ! جن کے لیے تو عمل کیا کرتا تھا ، انہی کے پاس جا اور ان سے اپنا اجر حاصل کر ” ۔
بعض حکماء ؒ سے پوچھا گیا ، مخلص کون ہے ؟ تو انہوں نے بتایا : مخلص وہ شخص ہے جو اپنی نیکیاں بھی ویسے ہی چھپاتا ہے ، جیسے وہ اپنی برائیاں چھپاتا ہے ۔ ان میں سے کسے سے پوچھا گیا ۔ اخلاص کی غایت کیا ہے ؟ انہوں نے کہا: یہ کہ تم اپنے بارے میں لوگوں کی تعریف کو پسند نہ کرو ۔
فضیل بن عیاض نے فرمایا: لوگوں کی خاطر عمل ترک کرنا ریا جبکہ لوگوں کی خاطر عمل کرنا شرک ہے اور اخلاص یہ ہے کہ اللّٰه تمھیں ان دونوں چیزوں سے بچا لے ۔ اے اللّٰه! ہمیں بھی ان دونوں چیزوں سے بچانا اور ہم سے درگزر فرما ۔
حواله جات:
“كتاب: كتاب الكبائر”
تاليف: “شيخ الاسلام الحافظ شمس الدين الزهبي (رحمه الله)