Search
Sections
< All Topics
Print

11. Jaedaad ki taqseem.

Jaedaad ki taqseem

تقسیم الترکۃ  

Ilm-e-Meeraas ko seekhnay ki Gharz-o-Ghaayat Mayyat ki jaedaad ki taqseem hi hai. Baqi taaseel yani asal masla aur tasheeh waghera ka ilm to is kay husool ka aik zari’ya hai, Jaedaad ki taqseem darj zail qawaa’id kay tahat amal Pazeer hoti hai.

1: Agar kisi Mayyat ka aik hi waaris ho to woh akeela hi saari jaedaad samait lay ga chahay woh Sahib-e-Farz, Asabah ya Zaw-ul-Arhaam mein say koi bhi ho.

2: Agar Mayyat kay wurasa Ashaab-ul-Furooz ya Asabah hon to pehlay un ka asal muloom karein aur har waaris ko us ka hissa den.

3: Jaedaad mein say jis waaris ka hissa muloom karna ho. To us waaris ko asal masla say jo hissa mila hai usay tarka say zarb den. Aur Haasil-e-Zarb ko asal auwl ya radd ki jami’a say taqseem karein. To Haasil-e-Taqseem us waaris ka hissa hoga.

✯ Qaida :  Tarka×waaris ka hissa÷Asal, Auwl ya radd ki jami’a

Misaal 1: Aik aurat apnay Khaawand, Maan aur Betay ko chode kar faut hogai aur us ka tarka 2400 rupay hai.

Hal: Asal masla (12) hai. Khaawand 1/4 (3) milay. Maan ko 1/6 (2) milay. Betay ko baqi Bator-e-Asabah (7) milay.

12

1/4

Khaawand

3

1/6

Maan

2

ع

Beta

7

Khaawand ka hissa 2400×3÷12=600 rupay hai.

Maan ka hissa: 2400×2÷12 =400 rupay hai.

Khaawand ka hissa: 2400×7÷12 =1400 rupay hai.

Misaal 2: Auwl ki misaal

Aik aurat apnay Khaawand, ‘Aini Behan, ‘Allati Behan aur Akhiyaafi Bhai ko zindah chode kar faut hogai. Us ki jaedaad 4000 rupay hai.

Hal: Is ka asal (6) hai Khawand ko 1/2 (3) milay ‘Aini Behan ko 1/2 (3) milay, ‘Allati Behan 1/6, (1) mila aur Akhiyaafi Bhai ko 1/6 (1) mila. In kay hisson ka majmo’ah (8) hai chunancha yeh masla ‘Aaila hai is ka naya asal (8) hai.

8/6

1/2

Khaawand

3

1/2

”Aini Behan

3

1/6

‘allati Behan

1

1/6

Akhiyaafi  Bhai

1

Khawand ka hissa: 4000×3÷8 = 1500 rupay hai.

‘Aini Behan ka hissa: 4000×3÷8 = 1500 rupay hai.

‘Allati Behan ka hissa: 4000×1÷8 = 500 rupay hai.

Akhiyaafi Bhai ka hissa: 4000×1÷8 = 500 rupay hai.

Misaal 3: Radd ki misaal

Aik aadmi apni Biwi, Maan, Beti aur Poti ko zindah chode kar faut ho gaya. Us ka tarka 800 rupay hai.

Hal: Yeh radd masla hai is ki jami’a (40) hai. Is mein say Biwi ko (5) milay. Maan ko (7) milay. Beti ko (21) milay aur Poti ko (7) milay.

5×8

5/6

40

1/8

Biwi

5×1

=

5

Baaqi

7

=

=

1/6

Maan

=

7×1

7

1/2

Beti

=

7×3

21

1/6

Poti

=

7×1

7

Biwi ka hissa: 800×5÷40 = 100 rupay hai.

Maan ka hissa: 800×7÷40 = 140 rupay hai.

Beti ka hissa: 800×21÷40 = 420 rupay hai.

Poti ka hissa: 800×7÷40 = 140 rupay hai.

REFERENCE:
Book: “Islam Ka Qanoon-e-Warasaat”
By Salah Uddin Haider Lakhwi.

*تقسيم التركة (جائیداد کی تقسیم)* 

 

علم میراث کو سیکھنے کی غرض وغائت میت کی جائیداد کی تقسیم ہی ہے۔ باقی تاصیل یعنی اصل مسئلہ اور تصحیح وغیرہ کا علم تو اس کے حصول کا ایک ذریعہ ہے، جائیداد کی تقسیم درج ذیل قواعد کے تحت عمل پذیر ہوتی ہے۔

(١) اگر کسی میت کا ایک ہی وارث ہو تو وہ اکیلا ہی ساری جائیداد سمیٹ لے گا چاہے وہ صاحب فرض ، عصبہ یا ذوی الارحام میں سے کوئی بھی ہو۔ 

(٢)اگر میت کے درثاء اصحاب الفروض یا عصبہ ہوں تو پہلے ان کا اصل معلوم کریں اور ہر دارت کو اس کا حصہ دیں۔

(٣) جائیداد میں سے جس وارث کا حصہ معلوم کرنا ہو۔ تو اس وارث کو اصل مسئلہ سے جو حصہ ملا ہے اسے ترکہ سے ضرب دیں۔ اور حاصل ضرب کو اصل عول یا رو کی جامعہ سے تقسیم کریں۔ تو حاصل تقسیم اس وارث کا حصہ ہوگا۔

 

 *قاعدہ* 

 

 ترکہ x وارث کا حصہ ÷ اصل عول یا رد کی جامع

 

 *مثال:* 

 ایک عورت اپنے خاوند، ماں اور بیٹے کو چھوڑ کر فوت ہوگئی اور اس کا ترکہ٢٤٠٠ روپے ہے۔

 

 *حل* 

 

اصل مسئلہ (١٢) ہے۔ خاوند کو١/٤ (٣) ملے۔ ماں کو١/٦ (٢) ملے، بیٹے کو باقی بطور عصبہ (٧) ملے ۔

١٢

٣خاوند١/٤

٢ماں١/٦

٧بیٹا ع

خاوند كاحصه

٢٤٠٠×٣÷١٢ = ٦٠٠ روپے ہے۔

ماں کا حصہ:

 ٢٤٠٠×٢÷١٢ = ٤٠٠ روپے ہے۔

خاوند کا حصہ: ٢٤٠٠×٧÷١٢=١٤٠٠ روپے ہے۔

 

 *مثال :* 

 

 عول کی مثال

ایک عورت اپنے خاوند، عینی بہن، علاتی بہن اور اخیافی بھائی کو زندہ چھوڑ کر فوت ہوگئی ۔ اس کی جائیداد ٤٠٠٠ روپے ہے۔

 

 *حل* 

 

اس کا اصل (٦) ہے خاوند کو ١/٦ (٣) ملے عینی بہن کو ١/٢ (٣) ملے، علاتی بہن ١/٦، (١) ملا اور اخیافی بھائی کو ١/٦ (١) ملا۔ ان کے حصوں کا مجموعہ (٨) ہے چنانچہ یہ مسئلہ عائلہ ہے اس کا نیا اصل (٨) ہے۔

٨/٦

٣خاوند١/٢

٣عىنى بهن١/٢

١علاتى بهن١/٦

١اخىافى بھائی١/٦

خاوند کا حصہ:

٤٠٠٠×٣÷٨=١٥٠٠ روپے ہے۔

عینی بہن کا حصہ ٤٠٠٠×٣÷٨=١٥٠٠ روپے ہے۔

علاتی بہن کا حصہ ٤٠٠٠×١÷٨=٥٠٠ روپے ہے۔

اخیافی بھائی کا حصہ ٤٠٠٠×١÷٨=٥٠٠روپے ہے۔

 

 *مثال* 

 

ردکی مثال

ایک آدمی اپنی بیوی، ماں، بیٹی اور پوتی کو زندہ چھوڑ کر فوت ہو گیا۔ اس کا ترکہ٨٠٠ روپے ہے۔

 

 

 *حل:* 

 

یہ رد مسئلہ ہے اس کی جامعہ (٤٠) ہے۔ اس میں سے بیوی کو (٥) ملے۔ ماں کو (٧) ملے۔ بیٹی کو (٢١) ملے اور پوتی کو (٧) ملے۔

 

٨×٥=٤٠

١×٥=٥بیوى١/٨

٧باقى

١×٧=٧ماں١/٦

٣×٧=٢١بیٹى١/٢

١×٧=٧ پوتى١/٦

بیوی کا حصہ :

٨٠٠×٥÷٤٠=١٠٠ روپے ہے۔

ماں کا حصہ :

٨٠٠×٧÷٤٠=١٤٠ روپے ہے۔

بیٹی کا حصہ

٨٠٠×٢١÷٤٠=٤٢٠ روپے ہے

پوتی کا حصہ

٨٠٠×٧÷٤٠=١٤٠ روپے ہے

 

 *قضاء الدین ( قرضہ کی ادائیگی )* 

 

اگر کوئی میت مقروض ہو۔ تجہیز و تکفین کے اخراجات کے بعد ترکہ کم ہونے کی صورت میں قرض خواہوں کو ان کا قرض پورا پورا ادا نہ ہو سکے تو اس کے ترکہ میں سے ہر قرض خواہ کا حصہ معلوم کرنے کا طریقہ درج ذیل ہے۔

 ہر قرض خواہ کے قرضہ کی رقم کو اس کے سہام کی جگہ استعمال کریں گے۔ اور قرضہ کی مجموعی رقم کو بطور اصل مسئلہ استعمال کریں گے ۔ اور باقی عمل ترکہ کی تقسیم والا ہوگا۔ یعنی میت کے ترکہ کو قرض خواہ کے قرضہ کی رقم سے ضرب دیں گے اور حاصل ضرب کو قرضہ کی کل رقم سے تقسیم کریں گے۔

 

 قاعده:

 

 ترکه × قرض خواہ کا قرضہ ÷ قرضہ کی کل رقم

 

 *مثال:* 

 

 ایک آدمی فوت ہو گیا۔ اس کے ذمہ ١٠٠٠ روپے قرضہ ہے جو اس نے مختلف تمین اشخاص سے لیا تھا۔ میت نے زید کو ٥٠٠ روپے یا سر کے ٣٠٠ روپے اور بکر کو ٢٠٠ روپے ادا کرنے تھے اس کا ترکہ صرف ٦٠٠ روپے ہے۔

قرضہ کی کل رقم: ٥٠٠+٣٠٠+٢٠٠=١٠٠٠ روپے *قاعده:* 

ترکه x قرض خواہ کا قرضہ ÷ قرضہ کی کل رقم

 

ترکہ میں سے زید کا حصہ :

 

٦٠٠×٥٠٠÷١٠٠٠=٣٠٠ روپے ہے۔

 ترکہ میں سے یاسر کا حصہ : 

٦٠٠×٣٠٠÷١٠٠٠=١٨٠روپے ہے۔

ترکہ میں سے بکر کا حصہ : 

٦٠٠×٢٠٠÷١٠٠٠=١٢٠ روپے ہے۔

چنانچہ

 زید کو ٣٠٠روپے ملیں گے۔ یاسر کو ١٨٠ روپے اور بکر کو ١٢٠ روپے ملیں گے۔

 

 

حوالا:
“اسلام کا قانون وراثت”
“صلاح الدین لاکھوی “

 

 

Table of Contents