05. Hazrat Iyaas bin Muawiyah Muzani (رحمہ اللہ تعالی)
حضرت ایاس بن معاویہ مزنی رضی اللّٰہ عنہ
عمرو بن معدی کرب کی بہادری حاتم طائی کی سخاوت احنف بن قیس کی بردباری اور ایاس بن معاویہ کی زود فہمی ضرب المثل ہیں۔
(ابو تمام)
امیرالمئومنین عمر بن عبدالعزیز نے تمام رات بے چینی و بے قراری میں گزاری نہ آنکھ لگی نہ کسی کروٹ چین ملا – دراصل انہیں دمشق کی اس خنک رات میں بصرے کے لیے ایک قاضی کے تقرر کا مسئلہ درپیش تھا جو رعایا میں عدل و انصاف قائم کر سکے , ان میں اللّٰہ کے احکامات نافد کر سکے اور حق کے پر چار میں کوئی خوف یا لالچ اس کا راستہ نہ روک سکے , کافی سوچ و بچار کے بعد ان کی نظر انتخاب ان دو آدمیوں پر پڑی جو دینی فقاہت , راہ حق میں استقامت , روشن خیالی اور بالغ نظری جیسے اوصاف میں تقریباً برابر تھے – جب فلیفتہ المسلمین کو کسی ایک میں کوئی امتیازی خوبی نظر آتی تو دوسرے میں بھی کوئی نہ کوئی خوبی اس کے ہم پلہ دیکھائی دیتی – صبح ہوتی تو اس نے عراق کے گورنر عدی بن ارطاۃ کو بلایا جو اس وقت دمشق میں ہی تھا – اور اسے کہا :
اے عدی , ایاس بن معاویہ مزنی اور قاسم بن ربعیہ حارثی کے ساتھ بصرے کا قاضی مقرر کرنے کے متعلق بات کریں اور آخر کار ان دونوں میں سے کسی ایک کو بصرے کا قاضی مقرر کر دیں, گورنر نے کہا :
امیر المئومنین کا حکم سر آنکھوں پر جناب والا حکم کی فوری تعمیل ہو گی –
عراق کے گورنر عدی بن ارطاۃ نے ایاس بن معاویہ اور قاسم بن ربیعہ کو بلایا اور کہا :
ربعیہ کو بلایا اور کہا: امیر المومنین نے مجھے حکم دیا ہے ۔ کہ میں تم دونوں سے کسی ایک کو بصرے کا قاضی مقرر کر دوں تمھارا اس کے متعلق کیا خیال ہے ؟ دونوں میں سے ہر ایک نے اپنے ساتھی کے بارے میں کہا : کہ وہ مجھ سے اس منصب کے لیے زیادہ موزوں ہے ہر ایک نے اپنے دوسرے ساتھی کو علم ، فضل ، کمال ، عقل اور فہم و فراست میں اپنے سے فائق ، لائق اور بہتر ثابت کرنے کی بھر پور کوشش کی۔
گورنر عدی نے کہا جب تک تم دونوں کسی نتیجے پر نہیں پہنچ جاتے یہاں سے ہرگز نہیں جا سکتے۔
ایاس نے کہا : جناب گورنر میرے اور قاسم کے متعلق حسن بصری اور محمد بن سیرین سے پوچھ لیجئے وہ دونوں تمام لوگوں سے بڑھ کر ہم دونوں میں سے اس منصب کے لیے بہتر اور موزوں کا انتخاب کر سکتے ہیں۔صورت حال یہ تھی کہ قاسم کا ان کے پاس آنا جانا تھا اور بھی گاہے بگاہے اس کے پاس آجایا کرتے تھے ، حضرت ایاسؒ کا خیال یہ تھا ۔ کہ جب ان دو بزرگوں سے رائے لی جائے گی تو وہ میرے ساتھی قاسم کے حق میں فیصلہ دیں گے ۔ اس طرح میرا دامن چھوٹ جائے گا ۔ کیونکہ میرے متعلق وہ زیادہ جانتے ہی نہیں۔ حضرت قاسم بھانپ گئے کہ حضرت ایاسؒ اس بہانے مجھے پھسانا چاہتے ہیں ، تو فوراً پکار اٹھے ۔ جناب گورنر میرے اور ایاسؒ کے متعلق کسی سے کچھ دریافت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں میں بالکل سچ کہتا ہوں ۔ کہ میرا ساتھی ایاسؒ دینی معاملات میں مجھ سے زیادہ فہم و فراست رکھتا ہے- دینی معاملات میں مجھ سے زیادہ فہم و فراست رکھتا ہے – اور قاضی کے اہم منصب کے لیے زیادہ موزوں ہے ، اگر میں اپنی قسم میں جھوٹا ہوا تو پھر آپ کے لیے جائز نہیں کہ مجھے قاضی بنائیں ۔ اگر میں اپنی قسم میں سچا ہوں ، تو پھر اس اہم عہدے پر فائز ہونے کا حق میرے بھائی ایاس بن معاویہ کا ہے پھر آپ کے لیے یہ قطعا درست نہیں ہے کہ ایک کم تر شخص کو بہتر پر فوقیت دیں، حضرت ایاس بن معاویہ نے گورنر کی طرف دیکھا اور کہا: جناب والا آپ نے قاضی کے عہدے کی پیشکش کر کے ہمیں جہنم کے کنارے پر لا کھڑا کیا ہے ۔ میرے ساتھی قاسم نے جھوٹی قسم کے ذریعے اپنا دامن بچا لیا ہے۔ اسے اللّٰہ تعالٰی کے حضور ابھی معافی مانگنی چاہیے اور اندیشہ ہائے دروں سے نجات پا لینی چاہیے ۔یہ بات سن کر گورنر عدی نے حضرت ایاس ؒ سے کہا تم جیسا ذہین و فطین ہی قاضی کے منصب پر فائز ہونا چاہیے اور اسے بصرے کا قاضی مقرر کر دیا ۔
یہ شخص کون ہے جس کا انتخاب خدا ترس امیر المومنین عمر بن عبد العزیز نے بصرے کا قاضی مقرر کرنے کے لیے کیا؟ اس شخص کی ذہانت فطانت اور زود فہمی اس طرح ضرب الامثل تھی جس طرح حاتم طائی کی سخاوت ، احنف بن قیس کی بردبادی اور عمرو بن معدی کرب کی شجاعت ضرب الامثل تھیں ۔ ابو تمام نے احمد بن معتصم کی تعریف میں اشعار کہے جس میں ایک شعر یہ بھی تھا۔
اقدام عمرو فی سماعتہ حاتم
فی علم احنف فی ذکاء ایاس
عمرو بن معدی کرب کی شجاعت ، حاتم طائی کی سخاوت ، احنف بن قیس کا حلم و بردباری اور ایاس کی فہم و فراست ضرب المثل ہیں ۔
آئیے اس عظیم شخصیت کی داستان کا آغاز کریں اور اس کی نادر مثالی اور رقت انگیز سیرت کے چند پہلو بیان کریں ۔
ایاس بن معاویہ بن قرہ مزنی ٤٦ ھجری کو نجد کے علاقے یمامہ میں پیدا ہوئے اور اپنے خاندان کے ہمراہ بصرے منتقل ہوئے وہیں نشوونما پائی اور تعلیم حاصل کی غفوان شباب میں کئی بار دمشق جانے کا اتفاق ہوا اور جلیل القدر صحابہ کرام اور تابعین عظام سے علم حاصل کیا قبیلہ حزن کے اس نوجوان کے چہرے پر شرافت ، نجابت اور ذہانت کی علامتیں نمایاں نظر آتی تھیں لوگ اس کے بچپن کے حالات بطور مثال بیان کرتے تھے ۔
حضرت ایاس بن معاویہ ایک یہودی کے سکول میں ریاضی پڑھا کرتے تھے ایک دن استاذ کے پاس اس کے چند یہودی دوست ملنے آئے وہ دین اسلام کے متعلق باتیں کرنے لگے اور یہ پاس کھڑے خاموشی سے سنتے رہے۔ ان کا خیال تھا یہ بچہ ہے۔ اسے کچھ پتہ نہیں ۔
استاذ نے اپنے ساتھیوں سے کہا: مسلمان بھی کیا عجیب ہیں کہتے ہیں ۔ جنت میں جی بھر کر کھائیں گے لیکن بول و براز نہیں آئے گا آہاہاہا بھلا یہ بھی ہو سکتا ہے احمق کہیں گے ۔
ایاس بن معاویہ نے کہا کیا مجھے بھی بات کرنے کی اجازت ہے استاذ نے کہا ہاں ہاں کیوں نہیں ، کہیے کیا کہنا چاہتے ہو ۔ اس نے پوچھا کیا اس دنیا میں جو کچھ کھایا جاتا ہے وہ تمام کا تمام بول و براز کے ذریعے بدن سے نکل جاتا ہے ۔
استاذ نے کہا نہیں ۔
ایاس نے پوچھا جو کھانا بدن سے نہیں نکلتا وہ کہاں جاتا ہے؟ استاذ نے کہا وہ ہضم ہو کر جزوبدن بن جاتا ہے ۔
ایاس نے کہا :
اگر وہ تمام کا تمام جنت کے ماحول کو پاکیزہ اور صاف ستھرا رکھنے کے لیے جزو بدن بنا دیا جائے تو تمہیں اس بات پر کیا تعجب ہے اس بات سے ان پر سناٹا چھا گیا وہ ششدر رہ گئے۔
استاذ نے اپنے ہو نہار شاگرد کا ہاتھ بھنیچھتے ہوئے کہا:
ارے چھو کرے مروا دیا ۔ دوستوں کے سامنے تو نے مجھے لاجواب کر دیا تیری ذہانت اور حاضر جوابی کی کیا بات ہے!
جس طرح یہ نوجوان عمر میں سال بسال بڑھتا گیا اسی طرح اس کی ذہانت کی کرشمہ سازیوں میں بھی پیش رفت ہوتی گئی ۔ جب یہ دمشق پہنچا تو وہاں ایک جید عالم سے بنیادی حقوق میں کسی استحقاق کے متعلق اختلاف پیدا ہو گیا۔
جب وہ عالم کسی بھی دلیل سے اس نوجوان کو مطمئن نہ کر سکا تو وہ اس نو خیز جوان کو عدالت میں گھسیٹ لایا جب وہ دونوں عدالت کے کٹہرے میں قاضی کے سامنے کھڑے ہوئے تو نوجوان نے مد مقابل پر دلائل کی بوچھاڑ کردی اور زوردار آواز سے گرجنے لگا قاضی نے کہا: برخور دار آہستہ بولو تیرے مقابلے میں ایک عمر رسیدہ اور قابل احترام شخصیت کھڑی ہے ۔ ادب کو ملحوظ خاطر رکھو۔
ایاسؒ نے کہا: جناب والا وہ حق جو دلائل کی روشنی میں آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں وہ عظمت میں کہیں ان سے بڑھ کر ہے قاضی یہ بات سن کر غصے سے بھڑک اٹھا اور گرج کر کہا خاموش ہو جاؤ گستاخ کہیں کے۔
نوجوان ایاسؒ نے بغیر کسی گھبراہٹ کے بڑے اطمینان سے کہا ۔
جناب والا اگر میں خاموش ہو گیا تو میرا مقدمہ آپ کی عدالت میں کون پیش کرے گا ۔ قاضی کو اور زیادہ غصہ آیا ۔ اور اس نے پھنکارتے ہوئے کہا جب سے تم عدالت میں آئے ہو ٹر ٹر بولے جا رہے ہو ۔ نوجوان ایاسؒ نے یہ صورت حال دیکھتے ہوئے کہا جناب والا مجھے یہ بتائیں ۔
لا اله الا اللّٰہ وحدہ لا شریک له حق ہے یا باطل قاضی یہ بات سن کر ٹھنڈا ہو گیا لمبی سانس لی ایک آہ بھری پھر دھمیے انداز میں بولا رب کعبہ کی قسم یہ کلمہ بالکل بر حق ہے اور ہم سب اس کے عاجز بندے ہیں اور اس کے سامنے جوابدہ ہیں۔
جب یہ ہونہار نوجوان حصول علم کی طرف متوجہ ہوا تو چشمہ علم و حکمت خوب سیراب ہوا بالاخر علم و ادب کے اس اعلیٰ و ارفع مقام پر فائز ہوا کہ بڑے بڑے مشائخ اس کی امامت میں نمازیں پڑھنے لگے اس سے علم حاصل کرنے لگے۔
و حکمت سے خوب سیراب ہوا بالاخر علم و ادب کے اس اعلی و ارفع مقام پر فائز ہوا کہ بڑے بڑے مشائخ اس کی امامت میں نمازیں پڑھنے لگے اس سے علم حاصل کرنے لگے۔ حالانکہ عمر میں یہ ان سے بہت چھوٹے تھے مسند خلافت پر فائز ہونے سے پہلے عبد الملک بن مروان نے بصرے کا دورہ کیا تو اس نے ابھرتے ہوئے ایک ایسے نوجوان کو دیکھا جس کی ابھی مونچھیں نہیں پھوٹی تھیں وہ بازار سے ایسی شان و شوکت سے گزر رہا ہے کہ اس کے پیچھے چار باریش بزرگ سبز جبہ و قبا پہنے ہوئے با ادب انداز میں دھیرے دھیرے چل رہے ہیں عبد الملک بن مروان نے یہ منظر دیکھ کر تعجب سے کہا : ان باریش بزرگوں کی عقل و دانش پر بڑا افسوس ہے کیا ان میں کوئی بھی ایسا قابل بزرگ نہیں جو ان کے آگے چلتا انہوں نے ایک چھوکرے کو اپنا قائد بنایا ہوا ہے ‘ پھر اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ارے نوجوان تم کون ہو اور تیری عمر کتنی ہے؟
اس نے جواب دیا امیر کی عمر دراز ہو اور اقبال بلند ہو۔
میرا نام ایاس بن معاویہ ہے اور میری عمر اسامہ بن زید جتنی ہے جسے رسول اللہ مینی یا تعلیمی نے اس لشکر کا امیر مقرر کیا تھا جس میں حضرت ابو بکر صدیق اللہ اور حضرت عمر فاروق ان بھی شامل تھے ‘ یہ جواب سن کر عبد الملک بن مردان پھڑک اٹھا اور کہا : اے نوجوان تم آگے رہو تجھ میں واقعی قیادت کی صلاحیت ہے۔ اللہ تیری جوانی اور تیرے علم میں برکت عطا کرے۔
ایک سال لوگ رمضان کا چاند دیکھنے گھروں سے باہر نکلے اور ان میں پیش پیش جلیل القدر صحابی حضرت انس بن مالک انصاری نہ تھے۔ اس وقت ان کی عمر تقریبا سو سال تھی لوگوں نے آسمان کی طرف غور سے دیکھا انہیں کہیں چاند نظر نہ آیا لیکن حضرت انس بن مالک انصاری الله آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے پکار پکار کہہ رہے ہیں وہ دیکھو چاند نظر آگیا۔ اور اپنے ہاتھ سے اشارہ کر کے لوگوں کو چاند کی سمت بتا رہے ہیں۔ لوگوں نے بڑی کوشش کی پھر بھی کسی کو چاند نظر نہ آیا ۔ وہاں حضرت ایاس نے حضرت انس ان کی طرف دیکھا۔ ایک لمبا سفید بال بھووں سے اوپر اٹھ کر آنکھ کے سامنے آیا ہوا ہے حضرت ایاس نے بڑے ادب و احترام سے اجازت لی پیار سے اپنا ہاتھ بڑھایا بڑی محبت اور سلیقے سے آنکھ پہ ہاتھ پھیر کر بال کو بھووں کے ساتھ برابر کر دیا۔ اور پھر پوچھا : جناب والا اب فرمائیے کیا چاند نظر آرہا ہے۔ حضرت انس آسمان کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ اور فرما رہے ہیں اب چاند مجھے دیکھائی نہیں دے رہا واقعی بالکل دیکھائی نہیں دے رہا۔ در اصل ضعف بصارت کی وجہ سے آنکھ کے سامنے آیا ہوا سفید بال انہیں باریک سا چاند معلوم ہو رہا تھا۔
حضرت ایاس بن معاویہ کی ذہانت اور فہم و فراست کے تذکرے چہار دانگ عالم میں پھیل گئے ہر طرف سے لوگ علمی اور دینی امور میں پیش آمده مشکلات حل کرانے کے لیے انکے پاس آنے لگے بعض لوگ معلومات حاصل کرنے کے لیے سوالات کرتے اور بعض مباحثے میں مد مقابل پر غالب آنے کے لیے علمی نکتے معلوم کرتے۔ ایک کسان ان کی خدمت میں حاضر ہوا اس نے پوچھا اے ابو وائل کیا شراب حرام ہے۔
فرمایا ہاں یہ حرام ہے۔
اس نے کہا: پھل اور پانی کو آگ یہ پکایا گیا ہے اصل میں یہ دونوں اجزاء حلال ہیں۔ اصل میں یہ دونوں اجزاء حلال ہیں پھر آگ پر پکانے سے حرام کیسے ہو گئے ‘ جبکہ اس میں کسی حرام چیز کی آمیزش نہیں۔
آپ نے کہا کسان بھائی کیا بات ختم کرلی یا اور بات کہنا چاہتے ہو۔ اس نے کہا بس میرا یہی سوال ہے۔ اب آپ ارشاد فرمائیے۔ ابو وائل ایاس بن معاویہ نے کہا اگر میں پانی کا ایک چلو تجھے دے ماروں کیا اس سے تجھے کوئی تکلیف ہوگی اس نے کہا نہیں۔
اگر منی کی ایک مٹھی تجھے دے ماروں تو کیا اس سے تکلیف ہوگی کہا نہیں ۔ اگر توڑی کی مٹھی تجھے ماروں کیا تکلیف محسوس کروگے کہا نہیں۔ اور اگر میں پانی، مٹی اور توڑی ملا کر ایک ڈھیلا بناؤں اور وہ دھوپ میں خشک ہو جائے پھر اسے اٹھا کر تجھے دے ماروں کیا تکلیف ہوگی۔ اس نے کہا کیوں نہیں ضرور ہو سکتا ہے اس کے ذریعے تم مجھے قتل کر دو۔ آپ نے فرمایا بس یہی مثال شراب کی ہے۔ جب اجزاء کو ملا کر اسے آگ کی آنچ دی جاتی ہے۔ اس میں نشہ پیدا ہو جاتا ہے جس کے وجہ سے اسے حرام قرار دیا گیا ہے۔
جب حضرت ایاس بن معاویہ کو قضاء کا منصب سونپا گیا۔ تو عدالتی فیصلوں میں ان کی جانب سے کئی ایک ایسے موقف کھل کر سامنے آئے جو ان کی ذہانت کی فراوانی تدبیر کی فروتنی اور حقائق سے پردہ ہٹانے کی کمال صلاحیت پر دلالت کرتے ہیں۔ ان میں سے یہ ایک واقعہ ملاحظہ ہو۔ ایک مرتبہ دو شخص ایک مقدمہ لے کر انکے پاس عدالت میں آئے ان میں سے ایک نے دعوی کیا میں نے اپنے ساتھی کو مال بطور امانت دیا تھا۔ جب میں نے مطالبہ کیا تو اس نے دینے سے انکار کر دیا ۔ ایاس بن معاویہ نے مدعی علیہ سے امانت کے متعلق پوچھا تو اس نے کہا میں نے مال لیا ہی نہیں یہ جھوٹ بولتا ہے اور مجھے بدنام کر رہا ہے اگر اس کے پاس کوئی دلیل ہے تو پیش کرے ورنہ میں قسم دینے کے لیے تیار ہوں میں بے گناہ ہوں یہ سرا سر مجھ پر الزام ہے۔ حضرت ایاس بن معاویہ نے خدا داد بصیرت سے بھانپ لیا یہ قسم کے ذریعے اپنے ساتھی کے مال کو ہڑپ کرنا چاہتا ہے قاضی ایاس نے مدعی سے پوچھا تو نے اسے کسی جگہ اپنا مال بطور امانت دیا تھا ؟
اس نے کہا یہاں سے کچھ فاصلے پر ایک بڑا درخت ہے ہم نے اس کے سایے میں بیٹھ کر پہلے کھانا کھایا اور پھر میں نے اپنا مال اس کے سپرد کیا۔ قاضی ایاس نے کہا تم ابھی وہاں جاؤ شاید آپ کا مال وہاں کہیں پڑا ہوا ہو اس جگہ کا جائزہ لے کر سیدھا میرے پاس آجانا اور مجھے صورت حال سے آگاہ کرنا یہ حکم یا کر وہ شخص اس جگہ کی طرف روانہ ہو گیا۔ قاضی ایاس نے مدعی علیہ سے کہا:
اپنے ساتھی کے واپس آنے تک میرے پاس بیٹھے رہو۔ وہ وہاں چپ سادھ کر بیٹھ گیا۔ قاضی ایاس دیگر مقدمات نپٹانے میں مصروف ہو گیا۔ لیکن مقدمات کی سماعت کرتے ہوئے دزدیدہ نگاہوں سے گاہے گاہے مدعی علیہ کی طرف بھی دیکھ لیتا اس طرح وہ اس کے چہرے کے تاثرات معلوم کرنا چاہتا تھا جب اس نے دیکھا کہ یہ شخص بالکل آرام وسکون سے بیٹھا ہوا ہے اس کے چہرے پر کوئی خوف و ہراس نہیں قاضی سماعت کے دوران یکدم اس شخص کی طرف متوجہ ہوا اور پوچھا آپ کا کیا خیال ہے کہ وہ اس جگہ پہنچ گیا ہو گا جہاں اس نے مال تیرے سپرد کیا تھا اس نے بے خیالی میں جواب دیا نہیں وہ جگہ یہاں سے کافی دور ہے۔ ابھی وہ راستے میں جا رہا ہو گا قاضی نے غضبناک ہو کر کہا : ارے کمبخت ‘ کمینے تو مال لینے کا انکار کرتا ہے۔ اور اس جگہ کا اعتراف کرتا ہے جہاں تو نے مال لیا تھا ۔ بخدا تو خائن ‘ جھوٹا اور بددیانت ہے ‘ وہ اچانک یہ حملہ دیکھ کر خوف سے کانپنے لگا اور اس نے اپنے جرم کا اعتراف کر لیا اور امانت واپس کر دی۔
اسی طرح ایک اور واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ دو شخص دو رومالوں کا مقدمہ لے کر عدالت میں پیش ہوئے ایک رومال سبز رنگ کا نیا اور قیمتی تھا اور دوسرا سرخ رنگ کا پھٹا ہوا اور بوسیدہ تھا۔ مدعی نے استغاثہ پیش کرتے ہوئے کہا : جناب والا میں حوض پر نمانے کے لیے گیا۔ اور اپنا سبز رومال کپڑوں کے ساتھ رکھ کر حوض میں اتر گیا تھوڑی دیر بعد یہ شخص اپنے کپڑے حوض کے کنارے میرے کپڑوں کے پاس ہی رکھ کر نمانے کے لیے حوض میں اتر آیا لیکن مجھ سے پہلے حوض سے نہا کر نکلا کپڑے پہنے اور میرا رومال سر پر لیا اور چلتا بنا۔ میں اس کے قدموں کے نشانات دیکھتا ہوا اس کی تلاش میں نکلا بالاخر اسے پکڑنے میں کامیاب ہو گیا۔ قاضی نے مدعی علیہ سے پوچھا تم کیا کہنا چاہتے ہو۔ اس نے کہا : جناب والا یہ رومال میرا ہے میرے قبضے میں ہے میں اس کا مالک ہوں ‘ یہ مجھ پہ جھوٹا الزام عائد کرتا ہے ‘ قاضی ایاس نے مدعی سے پوچھا تیرے پاس کوئی دلیل ہے کہ یہ رومال واقعی تیرا ہے۔ اس نے کہا دلیل میرے پاس کوئی نہیں ‘ میں آپکی عدالت میں انصاف کے لیے آیا ہوں یہ میرا قیمتی رومال مجھے دلا دیجئے اللہ تمہارا بھلا کرے گا قاضی نے اپنے دربان سے کہا : ایک کنگھی لاؤ۔ درمان کنگھی لے آیا قاضی نے دونوں کے سر پر کنگھی پھیری ایک کے سرے سرخ ریشے اور دوسرے کے سرسے سبز ریشے برآمد ہوئے۔ لہذا سرخ رومال اسے دے دیا جس کے سر سے سرخ ریشے نکلے تھے اور سبز رو مال اس کے سپرد کیا جس کے سر سے سبز ریشے برآمد ہوئے تھے۔ اس طرح عدل و انصاف کے مطابق حق والے کو اس کا حق مل گیا۔
اس کی ذہانت اور فہم و فراست کا ایک اور واقعہ مشہور ہے کوفہ میں ایک شخص لوگوں کے سامنے اپنی خیر خواہی ‘ وسعت ظرفی ‘ اخلاق اور تقوی کا پر چار کیا کرتا تھا۔ یہاں تک کہ لوگ اس کی تعریف کرنے لگے جب اس کا اعتماد پوری طرح دلوں میں بیٹھ گیا ‘ تو لوگ جب سفر پہ جاتے تو اپنا مال اس کے پاس بطور امانت رکھ جاتے۔ بعض لوگ مرتے وقت یہ وصیت کر جاتے کہ ہمارا مال اس کے سپرد کر دیا جائے اور یہی ہماری اولاد کا سرپرست و نگران ہو گا۔ اس کی شہرت سن کر ایک شخص نے اپنا بہت سا مال اس کے پاس بطور امانت رکھ دیا۔ چند دنوں کے بعد جب اسے ضرورت پڑی تو اس نے اپنے مال کی واپسی کا مطالبہ کیا ۔ لیکن اس نے دینے سے انکار کر دیا۔ اسے یہ صورت حال دیکھ کر بڑا صدمہ ہوا اور یہ مقدمہ قاضی کی عدالت میں پیش کر دیا۔ قاضی نے مقدمہ پیش کرنے والے سے پوچھا کیا مدعی علیہ کو یہ معلوم ہے کہ تم میرے پاس آئے ہو۔ اس نے کہا نہیں قاضی نے کہا آج جاؤ اور کل میرے پاس آنا اور ساتھ ہی مدعی علیہ کو بلانے کے لیے پیغام بھیجا۔ وہ قاضی کا پیغام سنتے ہی عدالت میں آیا قاضی نے اسے بڑے اعزاز و اکرام سے بٹھایا اور کہا: جناب میں نے آپ کی بڑی شہرت سنی آپ لوگوں کی خدمت کا اہم فریضہ سرانجام دے رہے ہیں ‘ میں نے آپ کو اس لیے بلایا کہ میرے پاس ایسے قیموں کا کثیر مقدار میں مال ہے جن کا کوئی وارث نہیں میں چاہتا ہوں یہ مال آپکے سپرد کر دوں جب وہ بڑے ہو جائیں تو آپ ان کے حوالے کر دینا کیا اتنی بڑی مقدار میں مال رکھنے کا آپ کے پاس انتظام ہے ‘ کس طرح اسے سنبھالیں گے۔
کیا گھر میں ایسا مضبوط گودام ہو گا جس میں مال ضائع نہ ہو۔ کیا یہ مال آپ سنبھالنے کے لیے تیار ہیں- اس نے بڑے طمطراق سے کہا : کیوں نہیں جناب مجھے اللہ نے پیدا ہی عوام کی خدمت کے لیے کیا ہے بندہ عاجز اس خدمت کے لیے بخوشی تیار ہے۔
قاضی نے کہا : بہت خوب مجھے آپ سے یہی توقع تھی آپ ایسا کریں کہ کل کے بعد میرے پاس آجانا اور ساتھ دو مزدور بھی لیتے آنا۔ اس نے کہا بہت اچھا یہ کہہ کر وہ اپنے گھر چلا گیا۔ دوسرے دن وعدہ کے مطابق مدعی قاضی ایاس کے پاس آیا۔ قاضی نے اسے کہا کہ جاؤ آج اس شخص سے جا کر اپنے مال کا مطالبہ کرو۔ اگر وہ انکار کرے تو اسے کہنا میں تیری شکایت قاضی کے پاس لے کے جا رہا ہوں اس نے ایسے ہی کیا جاکر اس سے اپنے مال کا مطالبہ کیا اس نے حسب سابق مال دینے سے انکار کر دیا۔ اس نے کہا اگر تم میرا مال نہیں دو گے تو میں تمہاری شکایت قاضی کے پاس کروں گا جب اس نے قاضی کا نام سنا تو فورا ٹھنڈا پڑ گیا اسے اپنے پاس بٹھایا اس کی منت کی مال واپس لوٹایا اور کچھ مزید دے کر اسے خوش کرنے کی کوشش کی تاکہ قاضی کو اس بات کا علم نہ ہو۔ وہ اپنا مال لے کر سیدھا قاضی کے پاس گیا اس کا شکریہ ادا کیا اور بتایا کہ اس نے مجھے میرا حق واپس دے دیا ہے۔ اللہ آپکو جزائے خیر عطا کرے ‘ جب وعدے کے مطابق تیسرے روز وہ شخص قاضی کے پاس مزدور لے کر حاضر ہوا۔ تو اسے دیکھتے ہی قاضی اس پر برس پڑا اور کہا: ارے کمبخت تو نے دنیا کمانے کے لیے دین کو جال بنا رکھا ہے۔ تجھے شرم آنی چاہیے۔ یہ جبہ و دستار اور یہ گھناؤنا کردار تف تیری عقل پر جاؤ میری آنکھوں سے دور ہو جاؤ۔ اور ابھی جا کر سب لوگوں کی امانتیں واپس کرو۔ ورنہ تجھے ایسی سزادوں گا جسے تیری آئندہ نسلیں بھی یاد رکھیں گی۔ وہ ہانپتا کانپتا ہوا واپس گیا اور سب کے مال فوری طور پر واپس کرنے لگا ان سے معافی مانگنے لگا تب جا کر لوگوں کو اس کی اصلیت کا علم ہوا۔
قاضی ایاس نے اپنی بے پناہ ذہانت ‘ قابل رشک قوت استدلال ‘ زود ضمی اور حاضر جوابی کے باوجود عدالت میں ایسے اشخاص سے بھی واسطہ پڑ جاتا جو اپنی بات دلائل سے منوالیا کرتے تھے۔ اور انہیں خاموش ہونے پر مجبور کر دیا کرتے تھے ‘ ایسا ہی ایک واقعہ انہوں نے خود بیان کیا فرماتے ہیں ایک شخص کے علاوہ آج تک کوئی بھی گفتگو میں مجھ پہ غالب نہ آسکا وہ اس طرح ہوا کہ میں بصرے کی عدالت میں مقدمات نپٹانے کے لیے بیٹھا ہوا تھا ایک شخص میرے پاس آیا۔ اور اس نے بڑے طمطراق سے کہا میں یہ گواہی دیتا ہوں کہ فلاں باغ فلاں شخص کا ہے۔ اس نے یہ بات بڑے ہی رعب و دبدبے سے کسی۔ میں نے اس کی گواہی کا امتحان لینے کے انداز میں پوچھا: جس باغ کے متعلق گواہی دے رہے ہیں اس میں کتنے درخت ہیں۔ اس نے سرجھکایا پھر سر اٹھا کر بولا۔ جناب والا گستاخی معاف آپ کتنے
عرصے سے اس کمرہ عدالت میں فیصلے سنانے کا فریضہ سر انجام دے رہے ہیں۔ فرمایا: کافی عرصے سے۔ اس نے پوچھا: کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ اس کمرے کی چھت میں کتنی لکڑیاں استعمال ہوئی ہیں۔ میں پریشان ہوا اور کہا اس کا مجھے علم نہیں۔ اور ساتھ ہی میں نے شرمندہ ہو کر اسے کہا: بھئی آپکی گواہی کچی ہے۔ میں اسے تسلیم کرتا ہوں۔
جب حضرت ایاس بن معاویہ رحمہ اللہ چھتر برس کے ہوئے۔ تو انہوں نے خواب میں دیکھا وہ اور ان کے والد محترم دو گھوڑوں پر سوار برابر دوڑے جارہے ہیں۔ نہ کوئی ایک قدم آگے ہے اور نہ پیچھے انکے والد محترم چھتر برس کے ہو کر فوت ہوئے تھے۔ ایک رات حضرت ایاس اپنے بستر پر دراز ہوئے گھر والوں نے کہا: کیا تم جانتے ہو یہ رات کون سی ہے؟ انہوں کہا نہیں۔
فرمایا یہ وہ رات ہے جس میں ابا جان نے اپنی عمر تمام کی تھی یہ کہا اور سو گئے۔ جب گھر والوں نے صبح دیکھا تو یہ ابدی نیند سو چکے تھے۔ اناللہ و انا الیہ راجعون۔
اللہ قاضی ایاس بن معاویہ پر اپنی بے پایاں رحمتوں کی بارش نازل کرے وہ بلاشبہ ذہانت فطانت ‘ حق کوئی عدل گستری زود ضمی اور حاضر جوابی میں نابغہ عصر اور فرید الدھر تھے۔
قاضی ایاس بن معاویہ مزنی رحمہ اللہ کے مفصل حالات زندگی معلوم کرنے لیے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ کریں۔
اخبار القضاہ (و کیع) ٣١٢-٣٧٤
حلیہ الاولیاء ٣ /١٢٣
شرح المقامات (بشریشی) ١١٣/١ – ١١٥
وفیات الاعیان ٢٤٧/١
البيان والتسين (حافظ) ٥٦/١
نمار القلوب ٩٢- ٩٤
العقد الفريد (ابن عبد ربہ) دیکھئے فہرست
حوالہ:
“کتاب: حَياتِ تابِعِين کے دَرخشاں پہلوُ”
تالیف: الاستاذ ڈاکتور عبد الرحمان رافت الباشا
ترجمه: محمود غضنفر