Search
Sections
< All Topics
Print

07. Hazrat Hasan Basri (رحمہ اللہ تعالی)

حضرت حسین بصری رضی اللہ تعالی عنہا

وہ قوم کیسے گمراہ ہو سکتی ہے جس میں حسن بصری موجود ہو سلمہ بن عبدالملک

 

 ام المومنین حضرت ام سلمتہ رضی اللّٰہ عنھا کو کسی نے خوشخبری دی کہ ان کی کنیز خیرة نے ایک لڑکے کو جنم دیا ہے یہ خبر سن کر ام المؤمنین حضرت ام سلمتہ رضی اللّٰہ عنھا کا دل باغ باغ ہوگیا ‘ چہرہ مبارک پر خوشی کی لہر دوڑ گئی پہلی فرصت میں بچہ دیکھنے کا شوق دل میں پیدا ہوا لہذا زچہ بچہ کو اپنے گھر بلانے کے لیے پیغام بھیجا انہیں اپنی کنیز کے ساتھ بے حد پیار تھا اس کا بہت خیال رکھا کرتی تھیں ۔ آپ کی دلی خواہش تھی کہ وہ زچگی کے ایام یہاں گزارے۔

           


پیغام بھیجے ابھی تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ آپکی کنیز خیرة اپنے ہاتھوں پہ نو مولود اٹھائے گھر پہنچ گئی جب حضرت ام سلمہ رضی اللّٰہ عنھا کی نگاہ بچے کے معصوم چہرے پر پڑی تو و فور شوق سے آگے بڑھیں اور اسے اپنی گود میں لے کر پیار کیا یہ بچہ کیا تھا قدرت کا انمول ہیرہ ، اتنا خوبصورت ، گل رخ ، ماہ جبیں اور صحت مند کہ کیا کہنے ! ہر دیکھنے والا قدرت کے اس شہکار کو دیکھتا ہی رہ جاتا:
حضرت ام سلمتہ رضی اللّٰہ عنھا نے اپنی کنیز سے پوچھا اے خیرة کیا بچے کا نام تجویز کر لیا ہے؟
 اس نے کہا: امی جان ابھی نہیں : یہ میں نے آپ پر چھوڑ رکھا ہے جو آپکو نام پسند ہو رکھ لیجئے ۔
فرمایا: ہم اس کا نام اللّٰہ تعالیٰ کی رحمت وبرکت سے حسن تجویز کرتے ہیں ۔پھر ہاتھ اٹھے اور نومولود کے حق میں دعا کی۔

حسن کی پیدائش سے صرف ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللّٰہ عنھا کا گھر ہی خوشیوں کا گہوارہ نہ بنا بلکہ مدینہ منورہ کا ایک اور گھرانہ اس خوشی میں برابر کا شریک ہوا اور وہ تھا کاتب وحی حضرت زید بن ثابت رضی اللّٰہ عنہ کا گھرانہ وہ خوشی میں اس لئے شریک تھے کہ نومولود کا باپ یساران کا غلام تھا اور ان کے دل میں اپنے غلام کی بڑی عزت تھی اور اسے قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے ۔


حسن بن یسار نے جو بعد میں حسن بصری ؒ کے نام سے مشہور ہوئے رسول اقدس ﷺ کے گھر پرورش آپکی زوجہ محترمہ نے ہند بنت سہیل کی گود میں تربیت پائی جو ام سلمہ رضی اللّٰہ عنھا کے نام سے مشہور تھیں۔
حضرت ام سلمتہ رضی اللّٰہ عنھا عرب خواتین میں سب سے بڑھ کر عقلمند ، سلیقہ شعار ، محتاط ، حساس اور پیکر حسن و جمال اور صاحب فضل و کمال تھیں۔ علم و ہنر اور تقویٰ و خثیت میں ممتاز مقام پر فائز تھیں، آپ سے تین صد ستاسی احادیث مروی ہیں زمانہ جاہلیت میں آپ کا شمار ان نادر خواتین میں ہوتا تھا جو لکھنا جانتی تھیں ۔
حضرت حسن بصری ؒ کا تعلق ام المؤمنین حضرت سلمتہ رضی اللّٰہ عنھا کی ساتھ صرف ان کی کنیز کے بیٹے کی حیثیت سے ہی نہیں تھا۔

بلکہ اس سے بھی کہیں گہرا اور مضبوط تعلق پایا جاتا ہے ، وہ اس طرح کہ بسا اوقات حسن کی والدہ خیرة حضرت امِ سلمہ کے کسی ضروری کام کو نپٹانے کے لیے گھر سے باہر جاتیں تو یہ بچپن میں بھوک پیاس کی وجہ سے رونے لگتے۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا اسے اپنی گود میں لے لیتیں ، ماں کی غیر حاضری میں بچے کو تسلی اور دلاسہ دینے کےلئے اپنی چھاتی اس کے مونہہ کو لگاتیں ۔دودھ اتر آتا بچہ جی بھر کر پیتا اور خاموش ہو جاتا ۔
اس طرح حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی حسن بصری کے ساتھ دو نسبتیں تھیں ایک ام المؤمنین کے اعتبار سے ماں کو اور دوسری رضاعی ماں ہونے کی۔


امہات المومینین کے باہمی خوشگوار تعلقات اور گھروں کے آپس میں قرب و ربط کی وجہ سے اس خوش نصیب بچے کو تمام گھروں میں آنے جانے کا موقع ملتا رہتا اور اس طرح سے اہل خانہ کے پاکیزہ اخلاق و اطوار اپنانے کی سعادت حاصل ہوئی ۔
حضرت حسن بصری بیان کرتے ہیں کہ بچپن میں ازواج مطہرات کے گھروں میں میرے آنے جانے اور کھیل کود سے چہل پہل رہتی اور تمام گھر خوشیوں کا گہوارہ بنے رہتے فرماتے ہیں کہ بعض اوقات میں اچھلتا کودتا ہوا گھروں کی چھتوں پر چڑھ جاتا مجھے کوئی روک ٹوک نہ تھی ۔

حضرت حسن بصری ؒ کا بچپن انوار نبوت کی چمکیلی اور معطر فضاؤں میں ہنستے کھیلتے ہوئے گزرا اور یہ رشد و ہدایت کے ان میٹھے چشموں سے جی بھر کر سیراب ہوئے جو امہات المؤمنین کے گھروں میں جاری و ساری تھے۔
بڑے ہوئے تو مسجد نبوی میں کبار صحابہ کرام رضی اللّٰہ عنھما کے سامنے زانوئے تلمذ طے کیے اور ان سے علم حاصل کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی ۔
اس طرح انہیں حضرت عثمان بن عفان رضی اللّٰہ عنہ ، حضرت علی بن ابی طالب ، حضرت ابو موسی اشعری ، حضرت عبداللّٰہ بن عمر ، حضرت عبد اللّٰہ بن عباس ، حضرت انس بن مالک اور حضرت جابر بن عبداللّٰہ جیسے جلیل القدر صحابہ کرام رضی اللّٰہ عنھما سے احادیث روایت کرنےکا شرف حاصل ہوا لیکن سب سے بڑھ کر امیر المومنین حضرت علی بن ابی طالب رضی اللّٰہ عنہ سے پیار تھا ، دینی مسائل میں انکے مضبوط مؤقف ، عبادت میں گہری دلچسپی اور دنیاوی زیب و زینت سے بے رغبتی نے بہت متاثر کیا تھا حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کا سحر انگیز بیان ، حکمت و دانش سے لبریز باتیں ، مسجح و مقفی عبارتیں اور دل ہلا دینے والی نصحیتیں ان کے دل پر اثر انداز ہوئیں تو ان کے ہو کر رہ گئے ۔
حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کے تقوی و اخلاق کا رنگ ان پر چڑھا حضرت حسن بصری ؒ نے فصاحت و بلاغت میں حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کا اسلوب اختیار کیا ۔
حضرت حسن بصری ؒ جب اپنی عمر کی چودہ بہاریں دیکھ چکے تو اپنے والدین کے ہمراہ بصرہ منتقل ہو گئے ۔

اور وہیں اپنے خاندان کے ساتھ مستقل رہائش اختیار کر لی ۔ اس طرح حضرت حسن بصرہ کی طرف منسوب ہوئےاور لوگوں میں حسن بصری کے نام سے مشہور ہوئے ۔


جن دنوں حضرت حسن بصری علیہ الرحمہ بصرہ میں آباد ہوئے ۔
بلاد اسلامیہ میں یہ شہر علوم و فنون کا سب سے بڑا مرکز تصور کیا جاتا تھا ۔ اس کی مرکزی مسجد صحابہ کرام اور تابعین عظام سے بھری رہتی تھی ۔
مسجد کا ہال اور صحن مختلف علوم و فنون کے حلقہ ہائے درس سے آباد تھا۔ حضرت حسن بصری ؒ امت محمدیہ کے جیدو ممتاز عالم دین مفسر قرآن کریم حضرت عبداللّٰہ بن عباس رضی اللّٰہ عنہ کے حلقہ درس میں شامل ہوئے اور ان سے تفسیر ، حدیث اور تجوید کا علم حاصل کیا ، فقہ ، لغت اور ادب جیسے علوم دیگر صحابہ رضی اللّٰہ عنھما سے حاصل کیے ، یہاں تک کہ یہ ایک راسخ عالم دین اور فقہیہ کے مرتبہ کو پہنچے علم میں ر سوخ کی وجہ سے عام لوگ دیوانہ وار ان کی طرف متوجہ ہوئے ، لوگ ان کے پاس بیٹھ کر خاموشی سے ایسے مواعیظ سنتے جس سے پھتر دل بھی ہو جاتے اور گنہگار آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑتے ، آپ کی زبان سے نکلنے والی حکمت و دانش کی باتوں کو لوگ سرمایہ حیات سمجھتے ہوئے اپنے دلوں میں محفوظ کر لیتے۔اور آپ کی قابل رشک سیرت کو اپنانے کے لیے ہر دم کوشاں رہتے ۔

حضرت حسن بصری ؒ کا نام پورے ملک میں مشہور ہو گیا ۔ لوگ اپنی مجلسوں میں ان کا ذکر خیر کرنے لگے حکمران ان کی خیریت دریافت کرنا اپنے لیے سعادت سمجھتے ، شب و روز کے معمولات سے آگاہی کی دلی تمنا رکھتے۔
خالد بن صفوان بیان کرتے ہیں ، کہ میں عراق کے ایک قدیم شہر حیرہ میں بنوا میہ کے جرنیل اور فاتح قسطنطنیہ مسلمہ بن عبد الملک سے ملا اس نے مجھ سے دریافت کیا۔
خالد ، مجھے حسن بصری ؒ کے متعلق کچھ بتاؤ میرا خیال ہے اسے جتنا تم جانتے ہو کوئی اور نہیں جانتا۔
میں نے کہا: آپ کا اقبال بلند ہو۔ ہر دم کامیابی آپ کے قدم چومے ۔ بلاشبہ میں ان کے متعلق آپ کو بہتر معلومات بہم پہنچا سکتا ہوں کیونکہ میں اس کا پڑوسی بھی ہوں اور ہم نشین بھی ، بلکہ اہل بصرہ میں سب سے زیادہ میں اسے جانتا ہوں ، اس نے کہا ان کے متعلق کچھ مجھے بھی بتائیں۔
میں نے کہا: اس کا باطن ظاہر جیسا ہے ، اس کے قول و فعل میں کوئی تضاد نہیں پایا جاتا ، جب وہ کسی کو نیکی کو حکم دیتا ہے، پہلے خود اس پر عمل کرتا ہر ، جب کسی کو برائی سے روکتا ہے ، وہ خود بھی اس برائی کے قریب نہیں بھٹکتا میں نے دنیاوی مال و متاع سے اسے بالکل مستغی و بے نیاز پایا جو اس کے پاس علم و تقوی کا خزانہ ہے لوگ اُسے حاصل کرنے کے لیے دیوانہ وار اس کی طرف لپکتے ہیں ۔

دیوانہ وار اس کی طرف لپکتے ہیں , وہ لوگوں کا محبوب نظر ہے یہ باتیں سن کر جرنیل مسلمہ بن عبدالملک پکار اٹھا:
خالد اب بس کیجئے اتنا ہی کافی ہے –
“بھلا وہ قوم کیسے گمراہ ہو سکتی ہے, جس میں حسن بصریؒ جیسی عظیم المرتبت شخصیت موجود ہو “


جب حجاج بن یوسف ثقفی عراق کا گورنر بنا اور اس نے اپنے دور حکومت میں ظلم و تشدد کی انتہا کر دی *—-* تو حضرت حسن بصریؒ ان معدودے چند اشخاص میں سے ایک تھے جنہوں نے اس کی سر کشی اور ظلم و جور کو آگے بڑھ کر روکا اس کے برے کارناموں کی ڈٹ کر مخالفت کی – اور حق بات ڈنکے کی چوٹ سے اس کے مونہہ پر کہی –
حجاج بن یوسف نے واسط شہر میں اپنے لیے ایک عالیشان محل تعمیر کروایا – جب اس کی تعمیر مکمل ہو گئی , اس نے افتتاحی تقریب میں لوگوں کو دعوت عام دی تاکہ وہ عظیم الشان محل کو دیکھیں اس کی سیر کریں, بزبان خود تعریف کریں اور دعائیہ کلمات سے نوازیں –
حضرت حسن بصریؒ کے دل میں خیال آیا کہ اس سنہری موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دیا جائے وہ یہ نیت لے کر گھر سے نکلے کہ آج لوگوں کو نصیحت کریں گے –
انہیں دنیاوی مال و متاع سے بے رغبتی اختیار کرنے کا درس دیں گے – اور جو اللّٰہ تعالیٰ کے ہاں انعامات ہیں انہیں حاصل کرنے کی ترغیب دیں گے –

جب آپ موقع پر پہنچے تو دیکھا کہ لوگ اس عالیشان اور بلند و بالا محل کے چاروں طرف جمع ہیں – اور عمارت کی خوبصورتی پر دل فریفتہ اس کی وسعت پر انگشت برنراں اور اس کی آرائش و زیبائش سے مرعوب نظر آتے ہیں – آپ نے لوگوں کو جھنجھوڑتے ہوئے کہا :
ہمیں یہ معلوم ہے کہ فرعون نے اس سے زیادہ مضبوط , خوبصورت اور عالیشان محلات تعمیر کیے تھے , لیکن اللّٰہ تعالیٰ نے فرعون کو ہلاک کر دیا اور اس کے محلات کو بھی تباہ و برباد کر دیا –
کاش حجاج کو یہ معلوم ہو جائے کہ آسمان والے اس سے ناراض ہیں – اور زمین والوں نے اسے دھوکے میں رکھا ہوا ہے –
وہ پورے جوش و ولولہ سے حجاج کے خلاف برس رہے تھے ان کے مونہہ سے الفاظ تیروں کی طرح نکل رہے تھے , مجمع ان کی شعلہ بیانی پر دم بخود تھا – یہاں تک کہ سا معین میں سے ایک شخص نے حجاج بن یوسف کے انتقامی جزبے سے خوف زدہ ہو کر حضرت حسن بصریؒ سے کہا :
جناب اب بس کیجئے اتنا ہی کافی ہے کیوں اپنے آپکو ہلاکت کے مونہہ میں دے رہے ہیں –
حضرت حسن بصریؒ نے اس نیک دل شخص سے کہا :
میرے بھائی اللّٰہ تعالیٰ نے اہل علم سے یہ پیمان لیا ہے کہ وہ ظالم کے مونہہ پر بغیر کسی خوف کے حق بات کا پرچار کرتے رہیں گے اور کبھی اس راہ وفا میں جفا کا گزر نہیں ہونے دیں گے – یہی ہمیشہ حق والوں کا وطیرہ رہا ہے اور یہی فرضیہ آج میں ادا کر رہا ہوں –

دوسرے روز حجاج گورنر ہاؤس میں آیا تو اس کا چہرہ غصے سے لال پیلا تھا – اس نے غضبناک انداز میں اہل مجلس سے کہا :
لکھ لعنت ہے تمہارے وجود پر بزدلو , کمینو میری آنکھوں سے دور ہو جاؤ کتنے افسوس کی بات ہے کہ بصرے کا ایک غلام ابن غلام مجمع عام میں بے لگام جو جی میں آتا ہے میرے خلاف کہہ جاتا ہے اور تم میں کوئی بھی ایسا نہیں جو اس کی زبان کو روکے شرم کرو , حیا کرو –
اے گروہ بزدلان اقلیم من کان کھول کر سنو :
اللّٰہ کی قسم اب میں اس کا خون تمہیں پلا کر رہوں گا اسے آج ایسی عبرتناک سزادوں گا کہ دنیا انگشت بدندان رہ جائے گی پھر اس نے تلوار اور چمڑے کی چادر منگوائی یہ دونوں چیزیں فورا اس کی خدمت میں پیش کر دی گئیں اس نے جلاد کو بلایا وہ پلک چھپکتے ہی سامنے آ کھڑا ہوا , پھر پولیس کو حکم دیا کہ حسن بصری کو گرفتار کرکے لایا جائے –
پولیس تھوڑی ہی دیر میں انہیں پکڑ کر لے آئی منظر بڑا ہی خوفناک تھا ہر طرف دہشت پھیلی ہوئی تھی , لوگوں کی نظریں اوپر اٹھی ہوئی تھیں ہر شخص مغموم تھا , دل کانپ رہے تھے جب حضرت حسن بصری نے تلوار , جلاد اور چمڑے کی چادر کو دیکھا تو وہ زیر لب مسکرائے اور کچھ پڑھنا شروع کر دیا –
جب وہ حجاج کے سامنے آئے تو ان کے چہرے پر مومن کا جاہ و جلال مسلمان کی شان و شوکت اور مبلغ کی آن بان کا عکس جمیل نمایاں تھا –

جب حجاج بن یوسف نے ان کی طرف دیکھا تو اس پر ہبیت طاری ہو گئ غصہ کا فور ہو گیا اور بڑی دھیمی آواز میں کہا :
ابو سعید حسن بصری میں آپ کو خوش آمدید کہتا ہوں آئیے تشریف رکھئیے میرے قریب بیٹھیں آپ بیٹھنے لگے تو کہا ذرا اور قریب ہو جائیں یہاں تک کہ اسے اپنے ساتھ تخت پر بھٹا لیا – لوگ یہ منظر حیرت , استعجاب اور خوف کے ملے جلے جذبات سے دیکھ رہے تھے –
جب حضرت بصریؒ بڑے اطمینان سے تخت پر بیٹھ گئے- تو حجاج نے ان سے دینی مسائل دریافت کرنے شروع کردیئے –
حضرت حسن بصری ہر سوال کا جواب بڑی دلجمعی , سحربیانی اور عالمانہ انداز میں دیتے رہے –
حجاج بن یوسف ان کے جوابات سے بہت متاثر ہوا – اور کہنے لگا ابو سعید تم واقعی علماء کے سردار ہو, پھر قیمتی عطر منگوایا اور ان کی داڑھی کو محبت بھرے انداز میں لگا کر الوداع کیا –
جب حضرت حسن بصری دربار سے نکلے تو حجاج کا دربان بھی ان کے پیچھے ہو لیا تھوڑا دور جا کر اس نے کہا :
اے ابو سعید حجاج نے آج آپ کو کسی اور غرض سے بلوایا تھا لیکن اس کی طرف سے یہ حسن سلوک دیکھ کر میں دنگ رہ گیا – مجھے ایک بات بتائیں جب آپ گرفتار ہو کر دربار میں تشریف لائے تھے آپ نے تلوار جلاد اور چمڑے کی چادر کو دیکھا تو آپ کے ہونٹ حرکت کر رہے تھے وہ آپ کیا پڑھ رہے تھے حضرت حسن بصری نے فرمایا :
میں نے اس وقت یہ دعا کی تھی –

الہٰی تو مجھ پہ کی گئی نعمتوں کا والی ہے ۔
ہر مصیبت کے وقت میرا ملجاو ماوی ہے۔
الہٰی ساری مخلوق کے دل تیرے قبضے میں ہیں۔
الہٰی حجاج کے غصے کو میرے لیے ٹھنڈا اور سلامتی والا کردے جس طرح تو نے اپنے خلیل ابرہیم علیہ السلام پر آگ کو ٹھنڈا اور سلامتی والا کر دیا تھا۔

مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے
وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے

میرے دعا کو اللّٰہ تعالیٰ نے قبول کیا اور حجاج کا غصہ محبت میں بدل گیا۔


حضرت حسن بصری ؒ کو جابر و ظالم حکمرانوں کے ساتھ کئی مرتبہ اسی نوعیت کا پالا پڑا لیکن آپ ہر دفعہ اللّٰہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے حکمرانوں کی نگاہ میں محترم اور ان کے دلوں پر اپنی عظمت و خوداری کے گہرے نقوش ثبت کر کے واپس لوٹے ۔
اسی قسم کا ایک حیرت انگیز واقعہ اس وقت پیش آیا ۔جب خدا ترس مصنف مزاج ،سادہ منش ، پاک بیں ، پاک طینت ، خوش گہر اور پاکیزہ خو خلیفتہ المسلمین حضرت عمر بن عبد العزیز کی وفات حسرت آیات کے بعد یزید بن عبد الملک مسند خلافت پر جلوہ گر ہوا۔ اس نے اعراق کا گورنر عمر بن ہبیرہ فزاری کو مقرر کیا پھر اس کے اختیارات میں اضافہ کر کے خراسان کا علاقہ بھی اس کے ماتخت کر دیا۔

یزید بن عبد الملک نے عنان اقتدار سنبھالتے ہی ایسا طرزِ عمل اختیار کیا جو سلف صالحین کے طرزِ عمل کے بالکل بر عکس تھا۔
وہ اپنے گورنر عمر بن ہبیرہ کو کثرت سے خط لکھتا اور ان خطوط میں ایسے احکامات جاری کرتا جو بسا اوقات حق کے منافی ہوتے اور انہیں فوری طور پر نافذ کرنے کا حکم دیتا-
ایک دن عمر بن ہبیرة نے حسن بصری اور عامر بن شراحیل کو مشورے کے لیے بلایا اور عرض کیا: کہ اے امیر المئومنین یزید بن عبد الملک کو اللّٰہ تعالیٰ نے مسند خلافت عطا کی۔ جیسا کی آپکو معلوم ہے اس نے مجھے عراق اور ایران کا گورنر مقرر کیا ہے کبھی کبھی وہ مجھے ایسے سرکاری خطوط ارسال کرتا ہے جن میں بعض ایسے اقدامات کرنے کا حکم ہوتا ہے جو میرے نزدیک مبنی برانصاف نہیں ہوتے کیا ایسے احکامات سے پہلو تہی اختیار کرنے کا دینی لحاظ سے میرے لیے کوئی جواز نکلتا ہے۔
حضرت عامر بن شراحیلؒ نے ایسا جواب دیا جس مین خلیفہ کے لئے نرم رویہ اور گورنر کو خوش کرنے کا انداز پایا جاتا تھا-
لیکن حضرت حسن بصری خاموش بیٹھے رہے ۔
گورنر عمر بن ہبیرۃ نے حسن بصری کی طرف دیکھا اور کہا: ابو سعید آپ کی اس سلسلہ میں کیا رائے ہے : آپ نے فرمایا: اے ابنِ ہبیرة ہو سکتا ہے کہ آج آسمان سے ایک ایسا سخت گیر فرشتہ نازل ہو جو قطعاً اللّٰہ تعالیٰ نے حکم کی نافرمانی نہیں کرتا۔

وہ تجھے تخت سے اٹھا کر اس محل کی وسعتوں سے نکال کر ایک تنگ و تاریک قبر میں ڈال دے، وہاں تو یزید کو نہیں دیکھ سکے گا وہاں تجھے وہ عمل ملے گا جس میں تو نے اپنے اور یزید کے رب کی مخالفت کی تھی ۔

اے ابن ہبیرة اگر تو اللّٰہ تعالیٰ کا ہو جائے اور ہر دم اس کی اطاعت میں سرگرم رہے وہ یقیناً دنیاو آخرت میں یزید کے شر سے محفوظ رکھے گا۔
اور اگر تو اللّٰہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتے ہوئے یزید کا ساتھ دے گا تو پھر اللّٰہ تعالیٰ بھی تجھے یزید کے ظلم و ستم کے حوالے کر دے گا اے ابنِ ہبیرة خوب اچھی طرح جان لو ، مخلوق میں خواہ کوئی بھی ہو اس کو وہ حکم نہیں مانا جائے گا جس میں اللّٰہ تعالیٰ کی نافرمانی پائی جاتی ہو ، یہ باتیں سن کر ابنِ ہبیرة اتنا روئے کہ آنسوؤں سے ان کے داڑھی تر ہو گئی ، پھر وہ حضرت عامر بن شراحیل شعبی جو چھوڑ کر حضرت حسن بصری کی طرف مائل ہوئے، اور حد درجہ ان کی عزت و اکرام بجا لائے ۔
جب دونوں بزرگ گورنر کی ملاقات سے فارغ کر کر مسبد میں پہنچے لوگ ان کے اردگرد جمع ہو گئے اور ان سے گورنر کے ساتھ ہونے والی باتیں معلوم کرنے لگے۔
حضرت عامر نے لوگوں کے سامنے برملا کہا:
لوگو! ہمیں ہر حال میں اللّٰہ سبحانہ و تعالیٰ کو مخلوق ہر ترجیح دینی چاہیے ۔

مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے آج حسن بصری ؒ نے گورنر عمر بن ہبیرہ کو کوئی ایسی بات نہیں کہی جسے میں نہ جانتا ہوں لیکن میں نے اپنی گفتگو میں گورنر کی خوشنودی کو ملحوظ خاطر رکھا اور حسن بصری نے اپنی گفتگو میں اللّٰہ تعالیٰ کی رضا کو پیش نظر رکھا اللّٰہ تعالیٰ نے مجھے گورنر کی نظروں میں گرادیا اور حسن بصری ؒ۔ کو اس کی نگاہوں میں محبوب بنا دیا ۔


حضرت حسن بصری ؒ اسی برس زندہ رہے۔ اور اس دوران دنیا کو اپنے علم و عمل حکمت و دانش اور فہم و فراست سے فیضیاب کرتے رہے انہوں نے نئ نسل کے لئے جو عظیم ورثہ چھوڑا وہ ان کے رقت انگیز پندو نصائح ہیں جو رہتی دنیا تک خزاں گزیدہ دلوں کے لیے بہار بنے رہیں گے ان کی نصیحتیں دلوں میں گداز اور ارتعاش پیدا کرتی رہیں گی، ان کے وقت انگیز مواعیظ کے اثر کی بنا پر احساس ندامت سے آنکھوں میں آنسوں کی جھڑیاں لگتی رہیں گی بیتاب آنسو بہتے رہیں گے پریشان حال لوگوں کو راہنمائی ملتی رہے گی ۔ اور غفلت شعار انسانوں کو دنیا کی حقیقت سے آگاہی حاصل ہوتی رہے گی ایک شخص نے حضرت بصری ؒ سے دنیا کے متعلق پوچھا: آپ نے فرمایا مجھ سے آپ دنیا و آخرت کے متعلق پوچھتے ہیں سنو: دنیا و آخرت کی مثال مشرق و مغرب جیسی ہے ، جتنا زیادہ تم ایک کے قریب جاؤگے اتنا ہی دوسرے سے دور ہوتے جاؤ گے ۔

تم کہتے ہو کہ میں دنیا کے اوصاف بیان کروں ۔ میں تمھارے سامنے اس گھر کی کیا صفت بیان کروں۔
جس کا آغاز مشقت و تکلیف پر مبنی ہے ، اور جس کا انجام فنا و بردباری ہے ، اس میں جو حلال ہےاس کا حساب لیا جائے گا اور جو حرام ہے اس کے استعمال پر سزا دی جائے گی ، جو اس میں تونگر و مالدار ہوا وہ فتنے میں مبتلا ہوا اور جو فقیرو محتاج ہوا ۔ وہ حزن و ملال کا شکار ہوا ۔ اسی طرح ایک شخص نے آپ سے حال دریافت کیا فرمایا:
بھائی میرا حال کیا پوچھتے ہو !
افسوس ہم نے اپنی جانوں پر کتنے ظلم ڈھائے ہم نے اپنے دین کو کمزور کر دیا اور دنیاوی حرص نے ہمیں موٹا کر دیا ، ہم نے اپنے اخلاق بوسیدہ کر دئیے اور اپنے بستر اور کپڑے نئے بنوا لیے ۔
ہم میں سے ایک اپنے بائیں پہلو پہ ٹیک لگائے مزے سے پڑا رہتا ہے اور غیروں کے مال بڑی بے پرواہی سے ہڑپ کیے جاتا ہے۔
پھر فرمایا: تیرا کھانا چھینے ہوئے مال سے ۔ تیرا دوسرے ناداروں سے کام لینا بیگار سے پھر تو نمکین کے بعد میٹھا کھانے کو منگواتا ہے ٹھنڈے کے بعد گرم پیتا ہے ۔
خشک کے بعد تر کھجوریں پاپی پیٹ میں درد اٹھتا ہے ۔ اور قے آنے لگتی ہے پھر گھر میں شور مچاتا ہے کہ جلدی چورن لاؤ تاکہ کھانا ہضم ہو جائے اے گھٹیا نادان: اللّٰہ کی قسم تو اپنے دین کے سوا کچھ بھی ہضم نہیں کر سکے گا۔

ارے احمق تیرا پڑوسی کہاں اور کس حال میں ہے؟
تیری قوم کا بھوکا یتیم کہاں ہے؟
وہ مسکین کہاں ہے جو تیری طرف دیکھتا رہتا ہے؟
وہ مخلوق کہاں ہے جس کی نگرانی اور دیکھ بھال کی اللّٰہ تعالیٰ نے تجھے وصیت کی تھی ؟ کاش تجھے علم ہوتا کہ محض ایک گنتی کا ہندسہ ہے ۔ جب ایک دن کا سورج غروب ہوتا ہے تو تیری زندگی کا ایک دن کم ہوجاتا ہے ۔
                     


یکم رجب ١١٠ ھجری جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب حضرت حسن بصری ؒ نے اپنے رب کی صدا پر لبیک کہتے ہوئے اپنی جاں جان آفرین کے سپرد کی صبح کے وقت جب ان کی وفات کی خبر جب لوگوں تک پھیلی تو بصرے میں کہرام مچ گیا آپ کو غسل دیا گیا کفن پہنایا گیا اور اس مرکزی مسجد میں نمازِ جنازہ پڑھائی گئی جس میں زندگی کا بیشتر حصہ عالم ، معلم اور داعی و مبلغ کی حیثیت میں گزارہ۔ بصرہ کے تمام باشندے نمازِ جنازہ میں شریک ہوئے ۔ اس روز بصرہ کی مرکزی مسجد میں نمازِ عصر کی نماز نہیں ہوئی کیونکہ شہر میں نماز پڑھنے والا کوئی فرد باقی نہیں رہا تھا ۔
اللّٰہ تعالیٰ اس خوش گہر، پاکیزہ خو ، سادہ منش ، شریں سخن ، پاک طینت ، پاک بین ، فرخندہ رو اور خندہ جبیں عظیم المرتبت شخصیت کی قبر کو منور کرے ۔آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے ۔


حضرت حسن بصری ؒ کے مفصل حالات زندگی معلوم کرنے کے لیے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ کریں ۔

 


١-الطبقات الکبریٰ
٧/ ١٥٦- ١٧٩- ١٨٢- ١٨٨
١٩٥- ١٩٧- ٢٠٢
٢-صفتہ الصفو ة ابن جوزی
٣/ ٢٣٣- ٢٣٧
٣-حلیتہ الاولیاء اصفہانی
٢/ ١٣١- ١٦١
٤-تاریخ خلیفہ بن خیاط
١٢٣- ١٨٩- ٢٨٧- ٣٣١- ٣٥٤
٥-وفیات الاعیان: ابن خلکان
١/ ٣٥٤- ١٣٩
٦-شذرات الذہب
١/ ١٣٨- ١٣٩
٧-میزان الاعتدا
١ / ٢٥٤
٨-امالی المرتضیٰ
١/ ١٥٢- ١٥٣- ١٥٨ – ١٦٠
٩-البیان وا لتسیین
٢/ ١٧٣- ٣ / ١٤٤
١٠-المحجر محمد بن حبیب
٣٧٨-٢٣٥
١١-کتاب الوفیات ( احمد بن حسن بن علی)
۱۰۹-١٠٨
١٢-حسن بصری ؒ احسان عباس

حوالہ:
“کتاب: حَياتِ تابِعِين کے دَرخشاں پہلوُ”
تالیف: الاستاذ ڈاکتور عبد الرحمان رافت الباشا
ترجمه: محمود غضنفر

Table of Contents