02. QATAL [Murder]
*(٢) قتل نفس*
اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا:
*وَ مَنۡ یَّقۡتُلۡ مُؤۡمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُہٗ جَہَنَّمُ خٰلِدًا فِیۡہَا وَ غَضِبَ اللّٰہُ عَلَیۡہِ وَ لَعَنَہٗ وَ اَعَدَّ لَہٗ عَذَابًا عَظِیۡمًا*
(النساء: ٤/ ٩٣)
” اور جو شخص کسی مومن شخص کو جان بوجھ کر مار ڈالے تو اس کی سزا جہنم ہے جہاں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس پر اللّٰه کا غضب ہوا اور اس نے اس پر لعنت کی اور اس کے لئے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے”۔
اور فرمایا :
*(وَالَّذِیۡنَ لَا یَدۡعُوۡنَ مَعَ اللّٰہِ اِلٰـہًا اٰخَرَ وَ لَایَقۡتُلُوۡنَ النَّفۡسَ الَّتِیۡ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِالۡحَقِّ وَ لَا یَزۡنُوۡنَ ۚ وَ مَنۡ یَّفۡعَلۡ ذٰلِکَ یَلۡقَ اَثَامًا یُّضٰعَفۡ لَہُ الۡعَذَابُ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ وَ یَخۡلُدۡ فِیۡہٖ مُہَانًا اِلَّا مَنۡ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُولٰٓئِکَ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِّاٰتِہِمۡ حَسَنٰتٍ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا)*
( الفرقان: ٢٥/ ٦٨- ٧٠)
” اور وہ لوگ ہیں جو اللّٰه کے ساتھ اور معبودوں کو نہیں پکارتے اور جس کے قتل کو اللّٰه نے حرام قرار دیا ہے ۔اس کو قتل نہیں کرتے، مگرحق پر اور وہ نہ ہی زنا کے مرتکب ہوتے ہیں اور جو گناہ ارتکاب کرے گا وہ اس کی سزا پائے گا ، قیامت کے دن اسے دگنا عذاب ہو گا اور وہ وہاں ہمیشہ رسوائی کے ساتھ رہے گا مگر جس شخص نے توبہ کر لی اور ایمان لے آیا اور نیک عمل کیا”۔
اور اللّٰه تعالیٰ نے فرمایا:
*(مِنۡ اَجۡلِ ذٰلِکَ ۚ ۛ ؔ کَتَبۡنَا عَلٰی بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ اَنَّہٗ مَنۡ قَتَلَ نَفۡسًۢا بِغَیۡرِ نَفۡسٍ اَوۡ فَسَادٍ فِی الۡاَرۡضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیۡعًا ؕ وَ مَنۡ اَحۡیَاہَا فَکَاَنَّمَاۤ اَحۡیَا النَّاسَ جَمِیۡعًا ؕ )*
(المائدة: ٥/ ٣٢)
” اسی بنا پر ہم نے بنی اسرائیل کو حکم دیا کہ جو کسی شخص کو بغیر قصاص کے اور بغیر ملک میں فساد پھیلانے کے مار ڈالے ، تو گویا اس نے تمام انسانوں کو مار ڈالا اور جو کسی شخص کو بچالے تو گویا اس نے تمام انسانوں کو بچا لیا “۔
نیز فرمایا:
*(وَاِذَا الۡمَوۡءٗدَۃُ سُئِلَتۡ بِاَیِّ ذَنۡۢبٍ قُتِلَتۡ ۚ)*
( التکویر : ٨١/ ٨-٩)
“اورجس وقت اس لڑکی سے، جو زندہ درگور کی گئی تھی ، پوچھا جائے گا کہ وہ کس گناہ کی پاداش میں ماری گئی”۔
اور نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:
” سات مہلکات سے بچو” آپ نے ان میں کسی جان کو ، جس کا اللّٰہ نے قتل کرنا حرام قرار دیا ہے ناحق قتل کرنے کا بھی ذکر فرمایا ۔ اور ایک آدمی نے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے عرض کیا : اللّٰہ تعالیٰ کے ہاں کون سا گناہ سب سے بڑا ہے ؟ آپ نے فرمایا: یہ کہ تو اللّٰہ کے لیے کوئی شریک مقرر کرے ، حالانکہ اسی نے تجھے پیدا کیا ہے ” ۔ پھر اس نے کہا : اس کے بعد کون سا ؟ آپ نے فرمایا: ” یہ کہ تو اپنی اولاد کو اس اندیشے سے قتل کرے کہ وہ تیرے ساتھ کھائے گی” ۔ اس نے عرض کیا ، پھر کون سا ؟ آپ نے فرمایا: ” یہ کہ تو اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرے ” ۔ (بخاری ( ٤٤٧٧) مسلم( ٨٦)
اللّٰہ تعالیٰ نے اس کی تصدیق میں یہ آیت نازل فرمائی:
*وَ الَّذِیۡنَ لَا یَدۡعُوۡنَ مَعَ اللّٰہِ اِلٰـہًا اٰخَرَ وَ لَا یَقۡتُلُوۡنَ النَّفۡسَ الَّتِیۡ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِالۡحَقِّ وَ لَا یَزۡنُوۡنَ ۚ وَ مَنۡ یَّفۡعَلۡ ذٰلِکَ یَلۡقَ اَثَامًا *
“اور وہ لوگ ہیں جو اللّٰه کے ساتھ اور معبودوں کو نہیں پکارتے ، اور جس کے قتل کو اللّٰه نے حرام قرار دیا ہے ، اس کو قتل نہیں کرتے مگر حق کے ساتھ اور وہ زنا بھی نہیں کرتے “۔
اور آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:
” جب وہ مسلمان اپنی تلواریں سونت کر مدمقابل آجاتے ہیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنمی ہیں”۔
ہیں” ۔ عرض کیا گیا: اللّٰہ کے رسول! یہ تو قاتل ہے ، تو مقتول کا کیا حال ہے؟ آپ نے فرمایا :
“اس لیے کہ وہ بھی اپنے ساتھی کو قتل کرنا چاہتا تھا” ۔ (بخاری(٣١) مسلم (٢٨٨٨)
امام ابو سليمان رحمہ اللّٰہ نے فرمایا: یہ تو تب ہے جب وہ دونوں کسی تاویل و وضاحت اور دفاع کے لیے نہ لڑتے ہوں ، بلکہ وہ تو باہمی عداوت، عصبیت یا طلب دنیا یا حصول اقتدار یا غلبہ حاصل کرنے کے لیے لڑتے ہیں ۔ وہ اس وعید میں داخل ہیں۔
جہاں تک اس شخص کا تعلق ہے جو باغیوں سرکشوں سے اس وجہ سے لڑتا ہے جس وجہ سے ان سے لڑنا واجب ہو جاتا ہے یا وہ اپنی جان یا اپنی قابل احترام اور قابل تقدس چیز کا دفاع کرتے ہوئے لڑتا ہے تو وہ اس وعید میں داخل نہیں ۔ کیونکہ وہ اپنے ساتھی کو قتل کرنے کے قصد کے بغیر اپنی جان کا دفاع کرنے کے لیے قتال کرنے پر مامور ہے ۔ البتہ وہ اپنے ساتھی کے قتل کرنے پر حریص نہ ہو ۔ اور جو شخص کسی باغی و سرکش یا مسلمانوں میں سے کسی راہزان سے قتال کرے ، اور وہ اس کے قتل کرنے پر حریص نہ ہو بلکہ وہ تو اسے اپنے سے دور ہٹا رہا ہو اور اگر اس کا ساتھی باز آجائے اور یہ اس سے ہاتھ روک لے اور اس کا پیچھا نہ کرے تو یہ حدیث ( وعید) ایسے لوگوں کے لیے وارد نہیں ہوئی ۔ البتہ جو شخص اس مذکورہ صورت حال سے برعکس ہو تو وہ ہماری اس مذکورہ حدیث میں داخل ہے ۔ اللّٰہ اعلم!
اور رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:
” میرے بعد ایک دوسرے کو قتل کر کے کافر نہ بن جانا”۔ ( بخاری( ١٢١) مسلم(٦٥))
اور رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:
” بندہ اپنے دین کے بارے میں وسعت و کشادگی میں رہتا ہے ، جب تک وہ کسی حرام خون ( قتل) کا ارتکاب نہ کر لے” ۔( احمد ( ٤/ ١٤٨ ، ١٥٢) ابن ماجه ( ٨/ ٢٦))
اور آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“روز قیامت لوگوں کے درمیان سب سے پہلے خونوں کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا۔” (بخاری ( ٦٨٦٤)۔مسلم (١٦٧٨)
اور حدیث میں ہے کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“کسی مومن کا قتل اللّٰہ کے ہاں زوال دنیا سے بڑھ کر ہے “۔ (نسائی( ٧/ ٨٣) اس کی سند حسن ہے )
اور آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“اللّٰہ کے ساتھ شرک کرنا ، جان کو قتل کرنا اور جھوٹی قسم کبیرہ گناہ ہیں” ۔ (بخاری ( ٦٦٧٥) )
جھوٹی قسم کو ” یمین غموس” کا نام اس لیے دیا گیا ہے کہ وہ ایسی قسم اٹھانے والے کو جہنم میں ڈبودے گی اور آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:
” جو بھی نا حق جان قتل کی جاتی ہے تو اس کا گناہ آدم علیہ السلام کے پہلے بیٹے پر ہوتا ہے اور وہ اس کے خون کا ذمہ دار ہے ، کیونکہ وہی پہلا شخص ہے جس نے قتل کا طریقہ ایجاد کیا” ۔ (بخاری ( ٣٣٣٥)۔ مسلم( ١٦٧٧))
اور آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:
” جس نے کسی ذمی شخص کو قتل کیا ، تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا ، حالانکہ اس کی خوشبو تو چالیس سال کی مسافت سے محسوس ہو جاتی ہے ” ۔
(بخاری (٣١٦٦))
اگر ذمی کے قتل کے بارے میں یہ حکم ہے تو پھر مسلمان کو کیسے قتل کیا جا سکتا ہے ذمی، یہود و نصارٰی میں سے وہ شخص ہے جو اسلامی مملکت میں رہنے کا عہدو پیماں کرے۔ تو اس کی جان کی حفاظت کرنا اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے ۔
اور آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:
” جس نے کسی ذمی شخص کو قتل کیا ، حالانکہ وہ اللّٰہ اور اس کے رسول کی پناہ میں ہوتا ہے ،
تو اس نے اللّٰہ کی پناہ کو توڑ ڈالا ، وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا، حالانکہ اس کی خوشبو پچاس سال کی مسافت سے محسوس ہو جاتی ہے ” ۔
(ترمذی (١٤٠٣) ابن ماجه (٢٦٨٧))
اور آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:
” جس نے کسی مسلمان کے قتل میں ، بات کی حد تک بھی معاونت کی تو وہ اللّٰہ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اس کی آنکھوں کے درمیان ( پیشانی پر) اللّٰہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس لکھا ہوا ہوگا۔ ” (ابن ماجه (٢٦٢٠) اس کی سند ضعیف ہے )
ممکن ہے کہ اللّٰه ہر گناہ معاف کردے ، البتہ وہ اس شخص کو معاف نہیں کرے گا جو حالت کفر پر فوت ہو ، یا وہ آدمی جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کر ڈالے۔
(نسائی (٧/ ٨١) ۔ ابوداؤد ٤٢٧٠ )
ہم اللّٰه سے عافیت طلب کرتے ہیں ۔
حواله جات:
“كتاب: كتاب الكبائر”
تاليف: “شيخ الاسلام الحافظ شمس الدين الزهبي (رحمه الله)